برائن رابسن: پانچ دن تک لکڑی کے ڈبے میں بند رہ کر آسٹریلیا سے لندن پہنچنے والے شخص کو دوستوں کی تلاش
- نیوالا میک کین
- بی بی سی نیوز، شمالی آئرلینڈ
96 گھنٹوں تک کریٹ میں بند رہنے کے بعد برائن اپنی آزادی کا مزہ لیتے ہوئے
کیا آپ کا تعلق آئرلینڈ سے ہے؟ کیا آپ سنہ 1965 میں آسٹریلیا میں تھے؟ اور کیا آپ نے وطن کو شدت سے یاد کرنے والے ایک شخص کو لکڑی کے ایک ڈبے میں بند کر کے ہوائی جہاز کے ذریعے اُس کے گھر پارسل کیا تھا؟
برائن رابسن اب اپنے دوستوں پال اور جان سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اُنھیں اپنے اِن دونوں دوستوں کے پورے نام بھی یاد نہیں ہیں جنھوں نے اُنھیں آسٹریلیا سے ہوائی جہاز میں ایک لکڑی کے ڈبے میں بند کر کے گھر واپس جانے میں مدد دی تھی۔
برطانیہ کے شہر کارڈِف سے تعلق رکھنے والے برائن اُس وقت 19 برس کے تھے جب انھیں ان کے دو دوستوں نے لکڑی کے ڈبے میں بند کر کے ہوائی جہاز میں بُک کروا کر آسٹریلیا سے لندن روانہ کیا تھا۔
اُس وقت برائن لندن کا ٹکٹ نہیں خرید سکتے تھے لیکن انھیں اپنے گھر کی یاد شدت سے ستا رہی تھی اور وہ واپس اپنے گھر جانا چاہتے تھے۔
یہ سفر اُن کے تصور سے کہیں زیادہ تکلیف دہ تھا اور وہ اس سفر میں مرتے مرتے بچے۔ تاہم وہ زندہ بچ گئے اور اب وہ اپنے اس ناقابلِ یقین سفر کی کہانی سنا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ایک نوجوان کے طور پر برائن نے آسٹریلیا میں امیگریشن پروگرام کے تحت وکٹورین ریلویز میں ایک نوکری کر لی تھی، لیکن وہ وہاں جانے کے بعد خوش نہ تھے۔
وہ گھر واپس آنے کے لیے ٹکٹ نہیں خرید سکتے تھے کیونکہ وہ اس پروگرام کے تحت آسٹریلیا میں دو برس تک قیام کرنے کے پابند تھے۔
اُن کے سفر کے اخراجات آسٹریلوی حکومت نے ادا کیے تھے اور واپس جانے کے لیے اُنھیں 800 پاؤنڈ کے لگ بھگ یہ رقم واپس کرنی پڑتی۔ ’میری تنخواہ اُس زمانے میں صرف 30 پاؤنڈ ماہانہ تھی، اس لیے حکومت کو اتنی بڑی رقم ادا کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔‘
کریٹ کا آئیڈیا
برائن نے اس کریٹ میں اپنے ساتھ تکیے، پانی، ٹارچ اور ایک سوٹ کیس رکھا
ان حالات میں اُن کے ذہن میں لکڑی کے ڈبے میں پیک ہو کر اپنے گھر واپس جانے کا خیال آیا۔ دو آئرش دوست پال اور جان جو اُن کے ساتھ ہی کام کرتے تھے، وہ اُن کے اچھے دوست تھے۔ اُنھیں یاد ہے کہ وہ سب اپنے بچپن میں آئرلینڈ میں اکٹھے ایک ہی سکول میں بھی پڑھتے تھے، لیکن اُنھیں یہ یاد نہیں کہ وہ سکول کہاں واقع تھا۔
برائن کو پال کے ٹائپ رائٹر کی ضرورت تھی تاکہ وہ اُنھیں سامان کے ڈبے میں پیک کر کے اُنھیں بھیجنے کے لیے ضروری دستاویزی کام مکمل کر سکیں۔
پہلے تو وہ سمجھے کہ برائن پاگل ہے۔ اُنھیں اپنے دوستوں کو مدد کے لیے راضی کرنے میں ایک ہفتہ لگا۔
برائن نے کہا کہ ’جان ہمیشہ میرے ساتھ تھا، لیکن پال یہ سب کچھ کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔‘
دوستوں نے اتفاق کیا کہ اگر وہ کسی پریشانی میں پھنس گئے تو وہ ان کا کہیں بھی نام نہیں لیں گے۔
اُنھوں نے اُن کی مدد سے لکڑی کا ایک کریٹ حاصل کیا جو ایک چھوٹے فرِج کے سائز کے برابر تھا۔ وہ تکیے، ایک ٹارچ، ان کا اٹیچی کیس اور دو بوتلیں لے کر آئے، ایک پینے کے پانی کے لیے، دوسری پیشاب کرنے کے لیے۔ وہ اُس میں پیک ہو گئے۔
وہ اس کریٹ میں نہ اپنی ٹانگیں پھیلا سکتے تھے اور نہ ہی مڑ سکتے تھے۔
یہ اوپر کی طرف رکھیں
یہ سفر اُن کے تصور سے بھی کہیں زیادہ خطرناک اور تکلیف دہ تھا۔
اُن کا مقصد براہ راست لندن جانا تھا لیکن اُنھیں اُس پرواز میں رکھ دیا گیا جسے امریکی شہر لاس اینجلس کے راستے سے ہو کر لندن جانا تھا، یعنی یہ انتہائی لمبا روٹ تھا۔
برائن کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ صرف کریٹ پر ’یہ اوپر کی طرف رکھیں‘ لکھ دینے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ لوگ اس پر توجہ دیں گے۔
جب یہ طیارہ اپنی پہلی منزل سڈنی میں اترا تو اُن کے ڈبے کو اُلٹا چھوڑ دیا گیا اور وہ اگلے 22 گھنٹے تک اسی سخت درد کی صورتحال میں رہے اور اُن کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاتا رہا۔
لیکن اُنھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ ایک بار پھر جب اُن کی پرواز ہوا میں بلند ہوئی تو اُن کا ایک اور سفر شروع ہوا۔ ابھی بھی یہ برطانیہ کے لیے نہیں تھا۔
’اس میں ایک انسانی جسم ہے‘
مئی 1965 میں ہیتھرو ایئرپورٹ پہنچنے پر اکڑے ہوئے برائن لنگڑاتے ہوئے باہر آ رہے ہیں
برائن کہتے ہیں کہ وہ پانچ دنوں تک اس کریٹ میں بند رہے اور بالآخر اُنھیں ایک گودام میں پہنچا دیا گیا۔ ’اُس وقت میں سمجھا تھا کہ میں لندن پہنچ گیا ہوں۔‘
’میں اپنے ہاتھ کو ہلا کر ٹارچ کو چھو سکتا تھا لیکن میری انگلیاں اکڑ گئی تھیں، اس لیے ٹارچ میرے ہاتھ سے گر گئی۔‘
’میں نے کچھ آوازیں سنیں کہ یہاں کیا ہو رہا ہے؟‘
’اس وقت مجھے احساس ہوا کہ باتیں کرنے والے یہ دو افراد انگریز نہیں تھے، اُن کا تلفظ امریکی تھا۔‘
’اُن میں سے ایک نے کریٹ میں سوراخ سے اندر جھانکا، اُس وقت ہم دونوں کی نظریں دوچار ہوئیں۔‘
’وہ ایک دم سے اچھلا اور بولا کہ اس میں کوئی انسانی جسم بند ہے۔‘
’پھر وہ دونوں وہاں سے بھاگ گئے۔ ایک گھنٹے کے بعد تو آفت ہی آ گئی۔ ایف بی آئی، سی آئی اے، ایئر پورٹ سیکیورٹی، ایمبولینس، غرض کہ سب ہی پہنچ گئے۔‘
اِس سفر کے دوران وہ اس لکڑی کے ڈبے میں اتنے اکڑ گئے تھے جیسے جم گئے ہوں۔
’میں ان کے لیے ڈرنکس خریدنا چاہتا ہوں‘
برائن کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں اُن کی حالت کچھ بہتر ہوئی اور اُنھوں نے اپنے اعضا کو ہلانا شروع کیا۔
امریکیوں نے اُن پر کوئی مقدمہ نہیں بنایا۔ اس کے بجائے اُنھیں ہوائی جہاز پر لندن بھیج دیا لیکن اس بار وہ جہاز کے کیبن میں سوار تھے۔
بعد میں اُنھوں نے اپنی زندگی اپنے خاندان اور اپنے کریئر کے ساتھ ہنسی خوشی بسر کی۔ اُن کی عمر اب 76 سال ہے۔ اُنھوں نے اپنے اس ایڈونچر کے بارے میں ایک کتاب ’دی کریٹ اسکیپ‘ لکھی ہے جو اس ماہ کے آخر میں شائع ہو رہی ہے۔
برائن روبسن اب 76 سال کے ہوچکے ہیں
آج اپنی زندگی میں ماضی کی جانب دیکھنے پر برائن روبسن کو یقین نہیں آتا کہ وہ اتنے زیادہ مہم جو تھے اور اُنھوں نے اس طرح کے خطرے مول لیے۔
وہ اب کہتے ہیں کہ ’یہ حماقت تھی۔ اگر میرے بچوں نے ایسا کیا ہوتا تو میں اُنھیں مار دیتا۔ لیکن وہ ایک مختلف وقت تھا۔’
اب وہ اپنے آئرش دوستوں سے دوبارہ ملنا چاہتے ہیں۔
اُنھوں نے ویلز پہنچنے پر اُنھیں خط لکھا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔
برائن نے کہا کہ ’اگر میں ان سے دوبارہ ملا تو میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ مجھے افسوس ہے کہ میں نے اُنھیں اس ایڈونچر میں شامل کیا اور جب میں واپس آیا تو مجھے ان کی یاد آئی۔‘
’میں ان کے لیے ڈرنکس خریدنا چاہتا ہوں۔‘
Comments are closed.