پولیس نے ایک ہفتے تک اس پہاڑ پر تلاش جاری رکھی جہاں آخری بار لون کو دیکھا گیا تھا۔ ارجنٹینا کے مختلف نیوز چینلز کی جانب سے اس معاملے کی کوریج کے بعد لوگوں کی اس ’ناقابل بیان گمشدگی‘ میں خاصی دلچسپی پیدا ہوئی۔لیکن رواں ہفتے اس معاملے نے اس وقت خطرناک موڑ اختیار کر لیا جب یہ بات سامنے آئی کہ پولیس کے تربیت یافتہ کتوں کی مدد سے دو گاڑیوں میں بچے کی خوشبو کے نشان ملے۔ یہ دونوں گاڑیاں اس فیملی لنچ میں شرکت کرنے والے ایک جوڑے کی ہیں۔ یہ جوڑا لون کی دادی کے دوست ہیں۔سوموار کے روز استغاثہ نے بتایا کہ ’نیوی سے ریٹائرڈ کیپٹین کارلوس پیریز نے لون کے اغوا اور اس مجرمانہ منصوبے پر عملدرآمد کے لیے اپنی اہلیہ ماریا وکٹوریہ کی بچے کی دادی کے ساتھ دوستی کا فائدہ اٹھایا۔ اس منصوبے کا مقصد لون کو اغوا کر کے انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورک کے حوالے کرنا تھا۔
،تصویر کا ذریعہLAUDELINA PENA
تلاش کے لیے ہمسایہ ملک سے رابطہ
اس جوڑے کے خلاف لون کے اغوا اور اس مقصد کے لیے دیگر افراد کو اپنے ساتھ ملانے کا مقدمہ چلایا جائے گا۔لون کے انکل جو انھیں مالٹے جمع کرنے کے لیے اپنے ساتھ لے کر گئے تھے اور ان کے دوست، جنھوں نے بچے کی گمشدگی کا اعلان کیا تھا، پر بھی اس جرم میں شامل ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔منگل کے روز اس کیس کو صوبائی سے قومی عدالت میں منتقل کر دیا گیا کیونکہ یہ وفاقی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔اس معاملے کی تفتیش کرنے والے اب یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس جوڑے نے بچے کو مبینہ طور پر اغوا کرنے کے بعد اس کے ساتھ کیا کیا۔خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ جوڑا لون کو اپنی سرخ رنگ کی کار میں صوبہ چاکو میں کسی نامعلوم مقام پر لے گیا۔ارجنٹینا کی وزیر برائے سکیورٹی پیٹریکا بلرچ نے سوموار کے روز بتایا کہ حکومت نے جنوبی امریکہ کے ملک پیراگوئے میں حکام سے رابطہ کیا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ لون کو غیر قانونی طور پر وہاں لے جایا گیا ہو۔واضح رہے کہ پیراگوئے کی سرحد ارجنٹینا کے صوبے چاکو اور کورینتس کے ساتھ ملتی ہے۔ پیٹریکا بلرچ نے ایکس پر اپنے پیغام میں لکھا کہ ’آج میری پیراگوئے کے انٹیلیجنس سربراہ نیمیو کاردوز سے بات ہوئی۔ میں نے اس قومی مقصد میں تعاون پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ ہم اس تلاش کے دوران اپنے سرحدی علاقوں میں ایک ٹیم کی طرح کام کریں گے۔‘’مسنگ چلڈرن‘ نامی تنظیم کے مطابق گذشتہ تین دہائیوں کے دوران ارجنٹینا سے 100 سے زیادہ بچے کسی قسم کا کوئی نشان چھوڑے بغیر غائب ہو گئے۔اگرچہ اس بارے میں علم نہیں کہ یہ بچے کہاں گئے تاہم حکام کا خدشہ ہے کہ وہ انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورکس کے ہاتھوں پکڑے گئے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.