بوسٹن: امریکی سائنسدانوں نے پالک کے پتے استعمال کرتے ہوئے مصنوعی گوشت بنانے کی ایک نئی ٹیکنالوجی پیش کی ہے جو ممکنہ طور پر زیادہ بہتر اور ماحول دوست ثابت ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ مصنوعی گوشت پر گزشتہ 70 سال سے تحقیق ہورہی ہے جبکہ اس وقت بھی دنیا بھر میں درجن بھر سے زیادہ تجربہ گاہیں اور اسٹارٹ اپ کمپنیاں مصنوعی گوشت کی پیداوار و معیار بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
یہ بھی بتاتے چلیں کہ گوشت میں کئی طرح کی پروٹین وافر پائی جاتی ہے جو اسے انسانی غذا کےلیے اہم ترین بناتی ہے۔ اسی بناء پر ’’متوازن غذا‘‘ میں گوشت بھی لازماً شامل رکھا جاتا ہے۔
تاہم گوشت کے حصول کےلیے زیادہ جانور پالنے سے ماحول بھی زیادہ آلودہ ہورہا ہے جبکہ ان پالتو جانوروں کی اپنی غذائی ضروریات بھی ایک الگ مسئلہ بنتی جارہی ہیں۔
یہ اور اسی طرح کے متعدد مسائل حل کرنے کےلیے تجربہ گاہوں میں مصنوعی گوشت تیار کیا جارہا ہے۔ لیکن اب تک ایسا کوئی طریقہ موجود نہیں جو مصنوعی گوشت کی بڑے پیمانے پر، اور ماحول دوست انداز میں تیاری کو ممکن بنا سکے۔
دوسری جانب مصنوعی گوشت کے ذائقے اور ظاہری شکل و صورت کو اصل ’’قدرتی گوشت‘‘ جیسا رکھنا بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔
یہ تمام نکات مدنظر رکھتے ہوئے بوسٹن کالج کے سائنسدانوں نے پالک کے پتّوں میں مصنوعی گوشت ’اگانے‘ کے کامیاب تجربات کیے ہیں۔
تجربات کے دوران انہوں نے تین مختلف اقسام کی گایوں سے گوشت بنانے والے خلیات علیحدہ کرکے ان کی افزائش پیٹری ڈش میں کی۔
ساتھ ہی ساتھ پالک کے پتوں کو اندرونی طور پر خلیوں سے خالی کردیا گیا، جس کے بعد ان میں صرف جھلی اور کھوکھلی رگیں باقی رہ گئیں۔
اگلے مرحلے میں گایوں کے خلیات کو پالک کے ’’کھوکھلے پتوں‘‘ میں داخل کرکے سازگار حالات فراہم کیے گئے۔
14 دن گزرنے کے بعد گایوں کے خلیات نے تقسیم در تقسیم ہو کر اپنی تعداد بڑھانی شروع کردی؛ اور چند دن بعد پالک کے کھوکھلے پتے، مصنوعی گوشت سے بھر چکے تھے۔
آن لائن ریسرچ جرنل ’’فوڈ بایوسائنسز‘‘ کے تازہ شمارے میں بوسٹن یونیورسٹی کے گلین گاڈت اور ان کے ساتھیوں نے واضح کیا ہے کہ ان کے حالیہ تجربات کا مقصد صرف یہ ثابت کرنا تھا کہ پالک کے پتوں میں مصنوعی گوشت کی افزائش ممکن ہے۔
آئندہ تجربات میں وہ اس عمل کو تیز رفتار بنا کر مصنوعی گوشت کی پیداوار بڑھانے کے علاوہ دیگر جانوروں کے خلیات اور دوسری سبزیوں کے پتّوں کو آزمانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔
Comments are closed.