پارٹنر کی بدسلوکی کی اطلاع دینے پر متاثرہ خاتون ہی گرفتار: ’وہ جانور تھا، وہ مجھے انسان نہیں بلکہ اپنا غلام سمجھتا تھا‘
تاہم بی بی سی نے دو دیگر خواتین سے بھی بات کی ہے جو اس افسر کے ساتھ تعلقات میں تھیں اور دونوں نے کہا کہ انھیں اس کی جانب سے بدسلوکی کے ایسے ہی تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔ سنہ 2022 میں ویسٹ مرشیا پولیس کے 15 افسران کو تادیبی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان میں سے پانچ جنسی بدسلوکی کے واقعات تھے۔ 15 میں سے تین افسران کو برطرف کیا گیا جبکہ چار نے برطرف ہونے سے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔
’وہ مجھے غلام سمجھتا تھا‘
جنوری 2022 میں جب ایوا اور اس افسر کی ملاقات ہوئی اور ان کے درمیان تعلق کا آغاز ہوا تو شروعات اچھی تھی۔ پھر تین ماہ کے اندر ہی انھوں نے ایک ساتھ گھر خریدنے کا فیصلہ کیا۔ ایوا کا کہنا ہے کہ لیکن اس کے تقریباً فوری بعد ہی اس کا رویہ بدل گیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ سمجھتا تھا کہ میں اس کے لائف سٹائل اور عیاشیوں کے لیے پیسا دوں گی، وہ مجھے انسان نہیں اپنا غلام سمجھتا تھا۔‘اسی برس اکتوبر میں ایوا نے اس پولیس افسر سے اپنا تعلق ختم کر دیا لیکن ان دونوں کو گھر میں ہی رہنا پڑا جب تک اسے فروخت کیا جا رہا تھا۔ ایک ماہ بعد ایوا نے اپنے پولیس افسر ساتھی کی جانب سے ہراساں کرنے اور اس کے ساتھ زبانی اور مالی طور پر بدسلوکی کرنے کی اطلاع پولیس کو دی۔حالانکہ ایوا جس صورتحال میں تھی وہ ’انتہائی ناخوشگوار‘ تھی مگر ویسٹ مرشیا پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے افسر نے کوئی مجرمانہ فعل نہیں کیا تھا۔ اسی دوران دوسری خاتون افسر نے بھی اس افسر کے بارے میں بدسلوکی اور زبردستی اس پر اپنا اختیار رکھنے کی اطلاع دی تھی۔تاہم مرشیا پولیس کا کہنا ہے کہ افسر کا رویہ قابل قبول سمجھا گیا اور اس کے خلاف کسی تادیبی کارروائی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
’وہ جانور تھا‘
ایوا نے بتایا کہ دسمبر 2022 میں انھوں نے خوفزدہ ہو کر 999 پر کال کی لیکن افسران کے پہنچنے پر انھیں ہی حملے کے شبہ میں گرفتار کر لیا گیا۔انھیں یقین ہے کہ ان کے سابق ساتھی نے ہی انھیں گرفتار کروانے اور گھر سے باہر نکلوانے میں اپنے عہدے کا استعمال کیا ہے۔ ایوا نے کہا کہ ’میں رو رہی تھی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ مجھے کیوں پکڑا گیا تھا، میں نہیں جانتی کہ اس نے ان سے کیا کہا تھا۔ میں صرف اتنا جانتی تھی کہ وہ جانور تھا جس نے یہ سب کچھ میرے ساتھ کیا کیونکہ میں بے گناہ تھی۔‘بعدازاں ان کی ضمانت ہو گئی لیکن وہ بتاتی ہیں کہ وہ چار ہفتے تک اپنے گھر نہیں جا سکیں۔ان کے خلاف مقدمے کی تفتیش بھی اس وقت ختم کر دی گئی جب افسر نے ان کے خلاف لگائے گئے الزامات واپس لے لیے۔بی بی سی نے اس افسر کے بارے میں جن دیگر خواتین سے بات کی ہے ان میں سے ایک نے کہا کہ اسے پولیس میں نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’انھیں (پولیس کو) تربیت دی جاتی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ان سے کیا توقع کی جاتی ہے۔ اسے بیج نہیں پہننا چاہیے۔‘اس پولیس افسر کی ایک اور سابقہ ساتھی نے ہمیں بتایا کہ اسے آج بھی اس سے ڈر لگتا ہے۔پولیس اور کرائم کمشنر جان کیمپین نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ گھریلو زیادتی کے کچھ متاثرین پولیس کو اپنے تجربات کی اطلاع دینے میں آسانی محسوس نہیں کرتے۔ویسٹ مرشیا پولیس پروفیشنل سٹینڈرڈز کے سربراہ، سپرنٹنڈنٹ مو لانسڈیل نے کہا کہ ’ہم پولیس اہلکاروں کی جانب سے گھریلو بدسلوکی کی رپورٹس کو ناقابل یقین حد تک سنجیدگی سے لیتے ہیں اور بغیر کسی خوف اور حمایت کے تمام واقعات کی مکمل تفتیش کرتے ہیں۔‘ایوا کو اس وقت یقین نہیں آیا جب اس کے سابقہ ساتھی کو پولیس فورس میں ترقی دے دی گئی۔وہ کہتی ہیں کہ ’وہ اپنی طاقت کا استعمال کرتا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ پولیس نے میری مدد کی تھی۔ جب میں نے مدد کے لیے فون کیا تو کوئی میری مدد کے لیے نہیں آیا بلکہ وہ آئے اور مجھے گرفتار کر لیا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.