اسلام آباد:سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ رولز نہیں بنا سکتی نہ ہی رولز بنانے کیلئے قانون سازی کر سکتی ہے، موجودہ قانون کے دائرہ کار میں رہ کر رولز میں ردو بدل کرنے کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کوئی بھی ضابطہ آئین سے متصادم ہوگا تو وہ خود کالعدم ہو جائے گا۔
پیر کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں فل کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ نہ ختم ہونے والا کیس ہے تو ایسا نہیں، یہ اس کیس کا آخری دن ہے۔
صدر سپریم کورٹ بار نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے رولز صرف سپریم کورٹ بنا سکتی ہے، آئین میں درج سبجیکٹ ٹو لا کا یہ مطلب نہیں پارلیمنٹ قانون بنا سکتی ہے، اس معاملے پر الگ قانون سازی اختیارات سے تجاوز ہوگا، آئین پارلیمنٹ کو اس معاملے پر قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا۔
جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ کیا آئینی اختیارات سے سپریم کورٹ رولز بنا لے تو بعد میں کوئی قانون سازی بدل سکتی ہے؟ ، جس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ ان کے پاس قانون سازی کا اختیار نہیں رہ جاتا۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں نئی قانون سازی نہیں ہوسکتی،آپ کے مطابق سپریم کورٹ پہلے سے موجود قانون کے مطابق ہی رولز بنا سکتی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے استفسار کیا کہ ہم سبجیکٹ ٹو لا کا لفظ کاٹ دیں فرق کیا پڑے گا ؟ ، عابد زبیری نے بتایا کہ فرق نہیں پڑے گا جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فرق نہیں پڑے گا نا، تھینک یو، اگلے پوائنٹ پر چلیں۔
صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ نیو جرسی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کم از کم امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کا تو حوالہ دیں، نیو جرسی کورٹ فیصلے کی نظیر دے رہے ہیں، ہمارا لیول اتنا نہ گرائیں، آپ جو پڑھ رہے ہیں وہ تو فیصلہ بھی نہیں، وکلا کے دلائل ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اضافی کاغذات جمع کرانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کہا تھا یہ پہلے دائر کردینا اب کاغذ آ رہے ہیں، کیا ایسے نظام عدل چلے گا کیا دنیا میں ایسے ہوتا ہے؟، مغرب کی مثالیں آپ دیتے ہیں کیا وہاں یہ ہوتا ہے؟، آپ جیسے سینئر وکیل سے ایسی توقع نہیں ہوتی، ہمارا لیول اتنا تو کم نہ کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 142 میں بھی قانون سازی کو آئین سے مشروط کیا گیا ہے جس پر وکیل عابد زبیری کا کہنا تھا کہ آئین میں پہلے سے موجود شقوں سے ہی مشروط کیا گیا ہے۔
جسٹس جمال مندو خیال نے ریمارکس دیئے کہ ہمیشہ ہوتا یہی ہے پہلے ایکٹ بنتا ہے پھر رولز بنتے ہیں، رولز، آئین و قانون کیخلاف ہوں تو کالعدم ہوجاتے ہیں۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ نیو جرسی کی عدالت میں کہا گیا قانون سازی کرنے اور رولز بنانے میں فرق ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرٹیکل 175 دو کو آرٹیکل 191 کے ساتھ ملا کر پڑھیں، آرٹیکل 175 دو کسی بھی عدالت کے مقدمات کو سننے کا اختیار بتاتا ہے۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز بنانے کے اختیار سے متعلق آئینی شق کو تنہا نہیں پڑھا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ یہ مقدمہ سن رہی ہے تا کہ وکلا سے کچھ سمجھ اور سیکھ سکیں، آئینی شقوں پر دلائل دیں جبکہ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ آئینی شقوں کو ملا کر پڑھنا ہوتا ہے، آئین کے کچھ آرٹیکل اختیارات اور کچھ ان اختیارات کی حدود واضح کرتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ رولز نہیں بنا سکتی نہ ہی رولز بنانے کیلئے قانون سازی کر سکتی ہے، موجودہ قانون کے دائرہ کار میں رہ کر رولز میں ردو بدل کرنے کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ خلاف آئین کوئی رولز بنائے تو کوئی تو یاد دلائے گا کہ آئین کی حدود میں رہیں،جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کوئی بھی ضابطہ آئین سے متصادم ہوگا تو وہ خود کالعدم ہو جائے گا۔
Comments are closed.