یاسر بشیر: امریکی ریاست ٹیکساس کے پہلے پاکستانی نژاد اسسٹنٹ پولیس چیف جو بھیس بدل کر خفیہ آپریشنز کی قیادت کرتے رہے
- محمد زبیر خان
- صحافی
’میں تو یونیورسٹی میں فنانس کا مضمون پڑھ رہا تھا۔ اس وقت مجھے کسی نے مشورہ دیا گیا کہ میں پولیس فورس میں بھرتی ہو جاؤں، اگر یہ کام پسند نہ آیا تو کبھی بھی چھوڑ سکتا ہوں چنانچہ میں نے سنہ 2001 میں امریکی پولیس میں شمولیت اختیار کر لی۔ پولیس فورس مجھے اتنی پسند آئی کہ اپنی ایک سال کی تربیت مکمل کرنے کے بعد یونیورسٹی میں فنانس کو چھوڑ کر کریمنالوجی میں ہی داخلہ لے لیا۔‘
یہ کہنا ہے کمانڈر یاسر بشیر کا جو پاکستان میں امریکی سفارتخانے کے مطابق امریکی کی ریاست ٹیکساس میں پہلے پاکستانی نژاد مسلمان اسٹنٹ پولیس چیف تعینات کیے گئے ہیں۔
کسی بھی پولیس افسر کے لیے ڈیسک پر بیٹھ کر کسی خفیہ آپریشن کی قیادت کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے مگر یاسر کہتے ہیں کہ اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں انھوں نے ڈیسک پر بیٹھنے کی بجائے میدان میں رہ کر بیشتر خفیہ آپریشنز کی قیادت کرنے کو ترجیح دی، جن میں جرائم پیشہ افراد کا تعاقب کرنے کے لیے انھیں بھیس بھی بدلنا پڑا۔
یاسر بشیر کہتے ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ میں پولیسنگ ہی کے لیے پیدا ہوا ہوں کیونکہ مجھے لوگوں کی مدد کرنا پسند ہے۔‘
پاکستانی نژاد یاسر بشیر اس بڑے عہدے تک کیسے پہنچے اور کیسے انھوں نے متعدد خفیہ آپریشنز کو سرانجام دیا، اس کی تفصیل بعد میں لیکن پہلے یہ پڑھیے کہ وہ ہیں کون؟
یہ بھی پڑھیے
’امریکہ جا کر تیسری جماعت دوبارہ پڑھنی پڑی‘
کمانڈر یاسر بشیر پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر اوکاڑہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اُن کے والد 70 کی دہائی میں امریکہ منتقل ہو گئے تھے اور وہاں نوے کی دہائی میں انھوں نے اپنے اہلخانہ کو بھی امریکہ بلا لیا تھا۔ اس وقت کمانڈر یاسر بشیر کی عمر آٹھ سال تھی اور وہ تیسری کلاس کے طالب علم تھے۔
یاسر بشیر بتاتے ہیں کہ ’امریکہ میں انگریزی نہ آنے کی وجہ سے مجھے تیسری جماعت دوبارہ پڑھنا پڑی تھی، جو میرے لیے تکلیف دہ تھا۔ پاکستان میں، میں اچھا طالب علم سمجھا جاتا تھا مگر امریکہ میں انگریزی میرے لیے مسئلہ بن گئی تھی۔‘
’مگر جب ایک دفعہ پڑھائی کا سلسلہ شروع ہوا تو زبان کی مشکلات بھی کم ہونا شروع ہو گئیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ کالج کے زمانے میں انھیں یورپ اور ایشیا کے مختلف ممالک کی سیاحت کا موقع ملا جبکہ اس دور میں وہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیتے تھے۔
یاسر بشیر سمیت ہیوسٹن پولیس میں اس وقت آٹھ اسٹنٹ پولیس چیفس اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کمانڈر یاسر بشیر چھ مختلف شعبوں کی سربراہی کر رہے ہیں۔
اُن کی ترقی انتہائی سخت جانچ کے بعد کئی امیدواروں میں سے ہوئی ہے، جن میں قیادت کی صلاحیت اور کارگردگی جیسے امور کو مدنظر رکھا گیا تھا۔
سخت محنت کے بل بوتے پر ترقی کا سفر
کمانڈر یاسر بشیر نے بتایا کہ انھوں نے پولیس میں شمولیت صرف ملازمت کرنے کے لیے نہیں کی تھی۔
پولیس کا حصہ بننے کے بعد سنہ 2002 سے 2006 تک وہ پیٹرولنگ کے فرائض سر انجام دیتے رہے جبکہ سنہ 2006 میں ان کی خدمات امریکہ کی ٹریفک پولیس کے سپرد کی گئیں جہاں ان کا کام مختلف حادثات کی تحقیقات کرنا ہوتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں پولیس کے شعبے میں ترقیاں محکمانہ امتحانات کے بعد ہوتی ہیں۔ جس میں کارگردگی کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے۔
’پولیس فورس میں شمولیت کے بعد جہاں اپنی کارگردگی بہتر رکھنے کی کوشش کرتا رہا وہاں پر ہمیشہ محکمانہ امتحانات کی تیاری بھی جاری رکھتا تھا۔‘
یاسر بشیر نے بتایا کہ سنہ 2009 میں انھوں نے سارجنٹ کا امتحان پاس کر کے ترقی حاصل کی اور بعد ازاں وہ نئے سارجنٹس کی تربیت پر مامور رہے۔ کچھ ہی عرصے بعد انھیں لیفٹیننٹ اور پھر کمانڈر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔
ہیوسٹن پولیس کے مطابق اپریل سنہ 2021 میں یاسر بشیر کی کارکردگی کی بنیاد پر انھیں اسٹنٹ چیف آف ہیوسٹن ڈیپارٹمنٹ کے عہدے پر ترقی دی گئی۔
’خود کو خطرے میں ڈال کر جرائم پیشہ گروہوں کا خاتمہ کیا‘
کمانڈر یاسر بشیر کے مطابق کچھ عرصہ قبل تک ہیوسٹن میں راہ چلتے ڈکیتیوں اور لوٹ مار کے واقعات ہوتے تھے۔
’جرائم پیشہ گروہ نہ صرف رقم لوٹ لیتے تھے مگر کئی ایک واقعات میں لوگ جان سے بھی چلے گے تھے۔ جب میں کمانڈر بنا تو اس وقت میں نے جرائم کے خاتمے کے لیے بحیثیت خفیہ اہلکار کے بھی فرائض انجام دیے اور میں خود گاہک کا بھیس بدل کر بینک جایا کرتا تھا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ بینکوں کے اردگرد جرائم پیشہ افراد بھی ہوتے ہیں جو بینک سے رقم نکلوانے والوں کا پیچھا کرتے اور سنسان جگہوں پر لوٹ لیا کرتے تھے۔
’ان کو پکڑنے کے لیے میں بینک میں جاتا، بڑی رقم نکلواتا اور اس کو ظاہر بھی کرتا۔ جس کے نتیجے میں چور لیڑے میرا پیچھا کرتے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس طریقے سے انھوں نے بہت سے جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا اور اس دوران ان پر کئی خطرناک حملے بھی ہوئے ہیں۔
’کئی مرتبہ میں بال بال بچا مگر کوئی بھی چیز مجھے خوفزدہ نہیں کر سکی۔‘
کمانڈر یاسر بشیر کے مطابق اس طرح انھوں نے کئی ایک گروپوں کو خاتمہ کیا جس پر انھیں ادارے کی جانب سے باقاعدہ شاباش بھی ملی تھی۔
’ٹریفک حادثات کی تحقیقات تکلیف دہ کام‘
یاسر بشیر کا کہنا تھا کہ ٹریفک حادثات کو دیکھنا ایک انتہائی تکلیف دہ کام ہے اور ایسے موقع پر اپنے حواس کو قابو میں رکھنا ایک مشکل امر بن جاتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں ’ایک حادثہ بہت خوفناک تھا۔ جس میں ایک شخص نے شراب کے نشے میں گاڑی چلاتے ہوئے حادثہ کیا اور اپنے پورے خاندان کو موت کے منہ میں دکھیل دیا۔ اسی طرح ایک اور حادثے میں دو سال کا بچہ اپنی ماں کے سامنے مر گیا۔ ایک اور حادثے میں ماں اور کم عمر بچے ہلاک ہو گئے تھے۔‘
کمانڈر یاسر بشیر کا کہنا تھا کہ ایسے مواقع پر اپنے فرائض انجام دینے کے لیے بہت حاضر دماغی اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے لیے خصوصی تربیت تو دی جاتی ہے مگر اس میں بہت زیادہ عمل دخل آفیسر کی اپنی ہمت پر بھی ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے ایسے کئی نازک مواقع پر اپنے فرائض احسن طریقے سے ادا کیے۔
’اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کئی لوگوں کی زندگیاں بچائیں‘
کمانڈر یاسر بشیر کا کہنا تھا کہ سنہ 2017 کا طوفان امریکہ کی تاریخ کا بدترین طوفان تھا، جو نہ صرف کئی قیمتی زندگیاں لے گیا بلکہ بے انتہا مالی نقصاں بھی کیا۔
’اس موقع پر جب ہم نے منصوبہ بندی کی تو پتا چلا کہ طوفان کی صورت میں ہمارا پولیس سٹیشن بھی سیلاب کی زد میں آجائے گا۔ فیصلہ کیا کہ پولیس سٹیشن کو عارضی طور پر محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے گا تاکہ مشکل وقت میں لوگوں کی مدد کر سکیں۔
کمانڈر یاسر بشیر کا کہنا تھا کہ پولیس سٹیشن منتقل کرنے کے لیے اپنے باس سے اجازت لی اور اجازت ملتے ہی ہم محفوظ مقام پر منتقل ہوئے اور اپنی منصوبہ بندی کے علاوہ ہنگامی حالات میں استعمال ہونے والا انفراسٹریکچر اکھٹا کرنا شروع کر دیا۔
،تصویر کا ذریعہYasir Bashir
’جب طوفان آیا تو وہ اندازوں سے زیادہ شدید تھا۔ اس کی زد میں کئی پولیس سٹیشن بھی آ گئے تھے مگر میں اور میرے ساتھی مدد کرنے کے لیے تیار تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس دوران ہم نے بغیر آرام کیے کئی کئی گھنٹے کام کیا۔ کشتیوں میں بیٹھ کر متاثرہ علاقوں میں پہنچتے۔ بزرگ افراد، بیمار لوگوں، عورتوں اور بچوں کو ویل چیئر اور اپنے کندھوں پر بیٹھا کر محفوظ مقام تک پہنچاتے رہے۔‘
’ہمارا کام یہاں تک ختم نہیں ہوتا تھا۔ لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کر کے ان کے مال اور اشیا کی بھی حفاظت کرتے رہتے اور صورتحال جب تک دوبارہ بہتر نہیں ہوئی اس وقت ہم اپنے فرائض پر ڈٹے رہے تھے۔‘
کمانڈر یاسر بشیر کا کہنا تھا کہ ہماری کارگردگی کو امریکی میڈیا میں خراج تحسین پیش کرنے کے علاوہ اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی خراج تحسین پیش کیا تھا۔
’صدر ٹرمپ نے امریکی دارالحکومت میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران ہم لوگوں کو سٹیج پر بلا کر شاباش دی تھی۔‘
Comments are closed.