- مصنف, شیرین یوسف
- عہدہ, بی بی سی عربی
- ایک گھنٹہ قبل
بی بی سی عربی کی فرانزک تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ عسکری گروہ حماس اسرائیل کے خلاف جنگ میں جدید ہتھیاروں کا استعمال کر رہا ہے۔ عسکری ماہرین کی رائے میں حماس کے زیرِ استعمال بعض ہتھیار ماضی میں اسرائیل کے خلاف اس کی جھڑپوں میں استعمال کیے گئے ہتھیاروں کے مقابلے میں جدید ہیں۔ سات اکتوبر کو حماس نے غزہ سے نکل کر اسرائیل پر حملہ کیا جس میں سینکڑوں راکٹ اور میزائل داغے گئے، دھماکہ خیز مواد سے لیس ڈرونز تعینات کیے گئے اور چھوٹے ہتھیاروں کی ایک نامعلوم تعداد استعمال میں لائی گئی۔ اس سے 1200 اسرائیلیوں کی ہلاکت ہوئی اور 240 سے زیادہ یرغمالیوں کو غزہ لے جایا گیا۔ اس کے بعد سے اسرائیل نے غزہ میں زمینی آپریشن اور فضائی بمباری جاری رکھی ہوئی ہے جس میں 23 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ بی بی سی عربی نے حماس اور اس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کی جانب سے ایسے چار ہتھیاروں کے استعمال کی نشاندہی کی ہے جو نہ صرف اس کی صلاحیت کے حوالے سے سوالات اٹھاتے ہیں بلکہ اس سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ ہتھیار ان تک کیسے پہنچے۔ اسرائیلی دفاعی فورسز (آئی ڈی ایف) نے کہا ہے کہ اس نے حماس کے آٹھ ہزار جنگجوؤں کو ہلاک کیا ہے تاہم اس حوالے سے شواہد فراہم نہیں کیے گئے۔ برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک حماس کو دہشتگرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔ اس نے اس الزام پر جواب نہیں دیا ہے۔ اسرائیل کے مطابق غزہ میں جاری جنگ کے دوران اس کے 187 فوجی مارے گئے ہیں۔
’یاسین 105‘ اینٹی ٹینک میزائل
اسرائیل کی زمینی کارروائی کے آغاز سے ’یاسین 105 ایم ایم‘ نامی ٹینک شکن میزائل ایسی کئی ویڈیوز میں موجود ہے جو القسام بریگیڈ کی جانب سے شیئر کی گئیں۔ یہ دیکھا گیا کہ اس نے غزہ میں اسرائیلی مرکاوا ٹینکوں کو نشانہ بنایا۔ میزائل کو شیخ احمد یاسین کا نام دیا گیا ہے جو حماس کی تحریک کے بانی تھے۔ اسے روسی ساختہ راکٹ پروپیلڈ گرینیڈ (آر پی جی) لانچر کی مدد سے فائر کیا جاتا ہے۔ ،تصویر کا ذریعہAl-Qassam Brigades
،تصویر کا ذریعہAl-Qassam Brigades
’ال آصف‘ آبی گولہ
اکتوبر کے اواخر میں حماس نے ایک ویڈیو ریلیز کی جس میں نئے ہتھیار ’ال آصف‘ ٹورپیڈو (آبی گولے) کی رونمائی کی گئی جو اس کے بقول سات اکتوبر کے حملے میں بھی استعمال کیا گیا تھا۔ بی بی سی نیوز عربی نے تصدیق کی کہ یہ ویڈیو پہلے کہیں بھی آن لائن شائع نہیں کی گئی۔ ماہرین کے مطابق یہ ہتھیار بغیر عملے کے یا ریموٹلی آپریٹڈ زیرِ آب وہیکل ہے۔ اسے زیرِ آب آپریشنز کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔،تصویر کا ذریعہAl-Qassam Brigades
شمالی کوریا کا ایف سیون آر پی جی
سات اکتوبر کو حماس کے حملے کی ویڈیوز میں ایف سیون آر پی جی کو نمایاں انداز میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اسے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی افواج سے جھڑپوں میں بھی استعمال کیا گیا۔ یہ گرینیڈ لانچر شمالی کوریا سے آتا ہے اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے پروجیکٹائل گولے کے اگلے حصے پر سرخ رنگ ہے۔ بی بی سی عربی نے ایسی کئی ویڈیوز کی تصدیق کی ہے جس میں حماس کے جنگجو ایف سیون آر پی جی استعمال کر رہے ہیں۔ ،تصویر کا ذریعہReuters
دھماکہ خیز ڈیوائس ’دی شواظ‘
سوشل میڈیا پر حماس کی ویڈیوز میں ایک اور ہتھیار بھی دیکھا جاسکتا ہے جس کا نام ’دی شواظ‘ ہے۔ عربی میں اس کا مطلب شعلہ ہے۔ یہ مقامی ساختہ دھماکہ خیز ڈیوائس ہے جس سے قریب گاڑیوں پر حملہ آور ہوا جاتا ہے۔ حماس کے عسکری ونگ نے تصدیق کی کہ اس نے غزہ میں اسرائیل کی زمینی کارروائیوں کے دوران استعمال کیا ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں ان ہتھیاروں کی بڑی تعداد ظاہر کی جس سے پتا چلتا ہے کہ اسے وسیع پیمانے پر مقامی طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔ ،تصویر کا ذریعہAl-Qassam Brigadesجولائی 2023 میں القسام بریگیڈ نے ویڈیو میں یہ دھماکہ خیز ڈیوائسز دکھائیں۔ ان کے ساتھ ایک تار لگی ہوتی ہے۔ انگرام نے کہا کہ حماس نے جنگ میں اس ہتھیار میں تبدیلیاں کی ہیں۔ اس میں صلاحیت ہے کہ یہ اسرائیلی بکتر بند گاڑیوں کو تباہ کر سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈیوائس میں دھات کی ڈسک ہوتی ہے جو عام طور پر تانبے سے بنی ہوتی ہے جس کے اوپر دھماکہ خیز مواد ڈال دیا جاتا ہے۔ اس کے پھٹنے پر یہ کاپر ڈسک پروجیکٹائل میں تبدیل ہوجاتی ہے اور بکتر بند گاڑیوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان ڈیوائسز کا ڈیزائن سادہ ہے مگر ان کا استعمال انھیں مؤثر بنا دیتا ہے۔ سب سے مشکل کام کاپر ڈسک کو ڈیزائن کرنا ہے۔ ان کے مطابق حماس نے ثابت کیا کہ وہ انھیں بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ،تصویر کا ذریعہGetty Images
حماس اب تک ہتھیار بنانے اور ان کا انتظام کرنے کے قابل کیسے ہوا؟
حماس دھماکے سے پھٹنے والے اسرائیلی بم کو ری سائیکل بھی کر رہا ہے اور تباہ شدہ عمارتوں سے دھات اور تاریں حاصل کر رہا ہے۔ بریگیڈیر جنرل راغب نے کہا کہ ایران نے غزہ کی پٹی میں ہتھیار سمگل کرنے میں مدد کی ہے۔ یہ غزہ کی سرحد پر واقع خفیہ سرنگوں اور کشتیوں کے ذریعے بحیرۂ روم سے ممکن ہوتا ہے جسے اسرائیل نے بلاک کر رکھا ہے۔ ایرانی پاسداران انقلاب کے سابق جرنیل عزت اللہ ضرغامی، جو اب ایران میں سیاحت کے وزیر ہیں، نے نومبر 2023 کے دوران سرکاری چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے سرنگوں کے ذریعے غزہ میں فلسطینی عسکری گروہوں کو ایرانی میزائل سپلائی کرنے میں اپنے کردار کو تسلیم کیا تھا۔مصری فوج کے سابق چیف آف سٹاف یاسر ہاشم کہتے ہیں کہ اسرائیل کی سرحدوں پر گرفت اتنی مضبوط نہیں۔ وہ ’بین الاقوامی سمگلنگ لائن‘ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو لبنان سے اسرائیل داخل ہوتی ہے۔ اسرائیلی حکام نے ستمبر 2022 میں اعلان کیا تھا کہ اس نے غزہ کی کراسنگ کے ذریعے دھماکہ خیز ہتھیاروں کی سمگنگ کا منصوبہ ناکام بنایا۔ دھماکہ خیز ہتھیاروں کو کپڑوں کی شپمنٹ میں چھپایا گیا تھا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.