آسٹریلیا پاسکتان ٹیسٹ سیریز میں پچ تنازع: پاکستان میں معیاری پچوں کی تیاری کیوں مشکل ہے؟
- عبدالرشید شکور
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
کراچی اور بنگلور کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ بھی ہے اور اس وقت ان دونوں شہروں میں جاری ٹیسٹ میچوں کے مزاج میں بھی کافی فرق ہے۔
انڈیا اور سری لنکا کے درمیان بنگلور ٹیسٹ میں وکٹوں کی برسات ہوئی ہے لیکن پاکستان اور آسٹریلیا کے کراچی ٹیسٹ میں بولرز کو وکٹیں لینے کے لیے سخت گرمی میں خوب پسینہ بہانا پڑ رہا ہے۔
پاکستان میں وکٹیں کیسی ہونی چاہییں؟ یہ بڑی پرانی بحث ہے لیکن پاکستان اور آسٹریلیا کی موجودہ سیریز میں یہ بحث نقطۂ عروج پر رہی ہے اور اس کی وجہ راولپنڈی سٹیڈیم کی پچ بھی تھی جس نے چوبیس سال کے طویل عرصے کے بعد ہونے والے آسٹریلوی ٹیم کے دورۂ پاکستان کی ایکسائٹمنٹ (جوش) کو پس پشت ڈال کر ساری توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی اور اب تک یہ سیریز پچ پر ہونے والی بحث سے باہر ہی نہیں نکل سکی ہے۔
راولپنڈی ٹیسٹ کی پچ کے بارے میں انگلینڈ کے کمنٹیٹر راب کی نے جب پچ رپورٹ میں کہا کہ ’یہ سیدھی پچ ہے‘ تو براڈ کاسٹرز سے کہا گیا کہ چونکہ طویل عرصے کے بعد یہ پہلی بڑی ہوم سیریز ہے لہذا کوئی منفی تبصرہ نہیں ہونا چاہیے لیکن پھر اگلے پانچ دنوں تک پنڈی کی پچ شہ سرخیوں میں ایسی آئی کہ نہ صرف پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ کو اس پر ویڈیو بیان جاری کرنا پڑا بلکہ آئی سی سی کے میچ ریفری رنجن مدوگالے نے بھی اسے ’اوسط درجے سے کم‘ قرار دے کر پنڈی کرکٹ سٹیڈیم کو ایک ڈی میرٹ پوائنٹ دے دیا۔
رنجن مدوگالے نے پنڈی کی پچ کو اوسط درجے سے کم قرار دینے کی وجہ یہ بتائی کہ اس پچ کی حالت پانچوں دن تبدیل نہیں ہوئی اور اس میں بیٹ اور بال کے درمیان برابر کا مقابلہ موجود نہ تھا۔
پاکستان میں پچز کے بارے میں عام شکایات کے ضمن میں یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ یہاں دنیا کے متعدد ممالک کی طرح کوالیفائیڈ کیوریٹرز موجود نہیں ہیں اور زیادہ تر لوگ جو پچ کی تیاری کے کام سے وابستہ ہیں، وہ مالی ہیں۔
پاکستان میں پچ کی تیاری کے ضمن میں کوئی ایسا طریقہ کار موجود نہیں ہے کہ جس گراؤنڈ میں میچ ہونا ہے اس کی مٹی اور وہاں کے موسم وغیرہ کے بارے میں بنیادی معلومات موجود ہوں اور ان کی بنیاد پر ڈیٹا مرتب کیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیے
پنڈی کی پچ کے بارے میں بھی یہی خیال ظاہر کیا گیا کہ یہ مخصوص قسم کے احکامات کے تحت تیار کی گئی تھی تاکہ گھاس اڑا دی جائے۔ یہ وکٹ پنڈی کی روایتی وکٹ سے یکسر مختلف تھی جس میں جان ہوا کرتی تھی اور بیٹسمین اور بولرز دونوں اس سے فائدہ اٹھاتے تھے۔
آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ کی پچ کے بارے میں آسٹریلوی بیٹسمین سٹیو اسمتھ نے بھی اپنی میڈیا ٹاک میں اسے ’ڈیڈ‘ قرار دے دیا تھا۔
پاکستان کی پچوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ضرورت سے زیادہ استعمال ہوتی ہیں۔ ایک پچ پر اتنے زیادہ میچ کھیلے جاتے ہیں کہ ان میں جان ہی باقی نہیں رہتی اس کے برعکس آسٹریلیا اور انگلینڈ میں ایک پچ کو چند میچوں کے بعد دوبارہ تیار کیا جاتا ہے۔
ایک ٹیسٹ میچ کی تیاری کے لیے گراؤنڈمین کو مناسب وقت چاہیے ہوتا ہے لیکن پاکستان میں کھیلے جانے والے فرسٹ کلاس میچوں میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ایک کے بعد ایک میچ ہوتا ہے اور پچیں مستقل استعمال میں رہتی ہیں۔
جب بات معیاری پچ کی ہوتی ہے تو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی پچ اور فرسٹ کلاس کرکٹ کی پچ میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے اور یہ فرق انٹرنیشنل کرکٹ کے موقع پر سب پر عیاں ہو جاتا ہے لیکن اس بار صورتحال مختلف رہی اور پنڈی ٹیسٹ کو دیکھ کر پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کے بیزار کن انداز میں کھیلے جانے والے میچز یاد آ گئے۔
پاکستان کے سابق کپتان راشد لطیف نے پچوں کے بارے میں کافی سٹڈی کر رکھی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہر شہر کی پچ مختلف مزاج رکھتی ہے۔ وہ سڈنی اور ایڈیلیڈ کی مثال دیتے ہیں کہ ان دونوں جگہ کی پچیں بیٹنگ اور سپن بولنگ کے لیے سازگار ہوتی ہیں جس کا فائدہ ایشیائی ٹیموں کو ہوتا ہے۔ اُن کے خیال میں میلبرن کی پچ بھی بیٹنگ کے لیے سازگار ہوتی ہے۔
راشد لطیف کا کہنا ہے کہ برسبین اور پرتھ میں کلے کی مقدار چونکہ زیادہ ہوتی ہے لہذا ان دونوں جگہوں پر باؤنس اور پیس زیادہ ہوتا ہے۔
راشد لطیف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موسم سرما میں کرکٹ ہوتی ہے۔ دسمبر اور جنوری میں خراب پچز بننے کی وجہ سرد موسم اور سورج کا نہ نکلنا بھی ہے۔ کراچی کا معاملہ مختلف ہے یہاں سورج بھی آب و تاب سے نکلتا ہے اور ہوا بھی چلتی ہے جس کی وجہ سے پچ ڈرائی ہوتی ہے۔
راشد لطیف کہتے ہیں کہ کوکا بورا گیند پاکستان کے گراؤنڈز کی مٹی کے لیے ٹھیک نہیں ہے یہاں ڈیوک یا گریس گیند زیادہ مناسب ہو سکتی ہیں۔
رمیز راجہ کا اعتراف اور وضاحت
پنڈی ٹیسٹ کی پچ پر ہونے والی تنقید کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ نے اپنے ویڈیو بیان میں ایک طرح سے یہ اعتراف کیا کہ وہ تیز باؤنسی وکٹ تیار کر کے آسٹریلوی ٹیم کی گود میں کھیلنا نہیں چاہتے تھے۔ ضروری یہ ہے کہ ہم اپنے گھر میں کھیلیں تو اپنی طاقت کے مطابق کھیلیں۔
رمیز راجہ نے اسی ویڈیو بیان میں یہ بھی کہا کہ اوپننگ اور تیز بولنگ میں محدود وسائل کی وجہ سے ہم چانس نہیں لے سکتے تھے۔
رمیز راجہ نے یہ یقین ضرور دلایا کہ سیزن کے اختتام پر پچز کی حالت کو بہتر بنایا جائے گا۔
آُسٹریلیا کے سابق کپتان ای این چیپل نے بھی اپنے ایک مضمون میں راولپنڈی ٹیسٹ کی پچ پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ پچ کسی طور بھی آسٹریلوی ٹیم کے چوبیس سال بعد پاکستان کے دورے کی اہمیت اور اس کی تشہیر کو اجاگر نہیں کر رہی تھی۔
Comments are closed.