بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

ٹک ٹاک پر ہراسانی کا شکار اساتذہ: ’ایسا لگتا ہے کہ بچے آپ پر ہنس رہے ہیں‘

ٹک ٹاک پر ہراسانی کا شکار اساتذہ: ’جب آپ ایپ کھولتے ہیں تو لگتا ہے کہ بچے آپ پر ہنس رہے ہیں‘

Tom Rogers
،تصویر کا کیپشن

ٹام راجرز

برطانیہ میں درجنوں اساتذہ کو سوشل میڈیا پیلٹ فارم ٹک ٹاک پر طالب علموں کی جانب سے ہراسانی کا سامنا ہے۔

ٹام راجرز ان اساتذہ میں سے ایک ہیں جنھوں نے حالیہ ہفتوں میں سوشل میڈیا پر ہراساں کیے جانے کی اطلاع دی ہے۔

ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ وہ ایسی ویڈیوز کو ہٹانے کے لیے ضروری اقدامات کر رہا ہے، جن میں اساتذہ کو ہدف بنایا گیا جبکہ دوسری جانب برطانوی حکومت سوشل میڈیا کمپنیوں کو مزید جوابدہ بنانے کے لیے قوانین متعارف کرانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔

ٹام راجرز تاریخ کا مضمون پڑھاتے ہیں۔ ان کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ ان کی ورچوئل کلاسز میں سے ایک کلپ نکال کر ٹک ٹاک پر اپ لوڈ کر دیا گیا ہے۔ اس متعلق ٹام کو گذشتہ ہفتے ان کے ایک ساتھی نے آگاہ کیا۔

جب انھوں نے اس پلیٹ فارم کی تحقیق کی تو انھیں ایک گمنام اکاؤنٹ سے پوسٹ کی گئی دو ویڈیوز ملیں جنھیں مجموعی طور پر تقریباً 12,000 صارفین دیکھ چکے تھے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب آپ ایپ کھولتے ہیں تو آپ کو لگتا ہے کہ بچے آپ پر ہنس رہے ہیں اور یہ کہ سب نے اسے دیکھ لیا ہے۔ آپ نہیں جانتے کہ اسے کس نے دیکھا لیکن شاید بہت سے بچوں نے اسے دیکھا۔‘

راجرز نے ان ویڈیوز کی اطلاع دی مگر پولیس کوئی کارروائی کرنے میں ناکام رہی۔

بی بی سی انٹرویو تک بھی ٹام راجرز کو ٹاک ٹاک کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا تھا اور یہ مضمون شائع ہونے تک یہ ویڈیوز آن لائن دستیاب تھیں۔

راجرز کا کہنا ہے کہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ ٹرولز ان پر اثر انداز نہ ہوں لیکن وہ دوسرے اساتذہ کے بارے میں فکر مند ہیں جو سوشل میڈیا سے ناواقف ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’وہ اس وجہ سے تناؤ جیسی بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے اور اپنی نوکری سے مستعفی ہو جائیں گے۔‘

ٹک ٹاک

،تصویر کا ذریعہTikTok

’یہ مختلف ہے‘

برطانیہ کے شمال مغرب میں فرینک فیلڈ ایجوکیشن ٹرسٹ کے چیف ایگزیکٹو پروفیسر ٹام کوئن نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے دو پروفیسر آن لائن بدسلوکی کی وجہ سے بیمار ہیں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ایسی ویڈیوز ہٹانے میں تیزی دکھانی چائیے۔‘

ان کے مطابق ’یہ ایک مختلف بات ہے کہ کئی برس سے اساتذہ اور طلبا کے درمیان تعلق رہا ہے اور بہت سے معاملات میں ایسا تعلق بھی بن جاتا ہے جہاں وہ مذاق کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔‘

’لیکن جب کوئی بچہ ٹک ٹاک پر توہین آمیز تبصرے پوسٹ کرتا ہے تو اسے دنیا بھر میں لاکھوں لوگ دیکھ سکتے ہیں۔ اس چیز کا واقعی بہت بڑا اثر پڑتا ہے۔‘

ٹام کوئن نے کہا کہ تنظیم ان بچوں کے والدین کے ساتھ کام کر رہی ہے، جنھوں نے ویڈیوز پوسٹ کی ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ مسئلے کی سنگینی کو سمجھیں۔

اساتذہ کے لیے ہیلپ لائن

ٹک ٹاک کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ پلیٹ فارم پر ہراساں کرنے اور توہین کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔

ترجمان نے کہا کہ ’ہمارے پلیٹ فارم پر پوسٹ کردہ بدسلوکی پر مبنی مواد کے نتیجے میں کچھ اساتذہ کو ہونے والی تکلیف پر ہمیں افسوس ہے‘۔

’ہم نے پہلے ہی اضافی تکنیکی اقدامات اور رہنمائی کو نافذ کر دیا ہے اور ایسے مواد اور اکاؤنٹس کا سراغ لگانے اور ہٹانے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔‘

ترجمان کے مطابق ’ٹاک ٹاک اساتذہ کے لیے توہین آمیز مواد کی اطلاع دینے کے لیے ایک آن لائن نظام نافذ کرنے کے لیے اپنے بجٹ میں اضافہ کرے گا۔‘

ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ملک کے ہر سکول کو لکھیں گے کہ تمام عملے کو ان وسائل تک رسائی حاصل ہو، جن کی انھیں ضرورت ہے اور ہم متاثرہ سکولوں، اساتذہ، والدین، تنظیموں اور دیگر کے ساتھ اس ناقابل برداشت بدسلوکی کو ختم کرنے کے لیے کام کرتے رہیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

ٹک ٹاک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایسوسی ایشن آف سکول اینڈ یونیورسٹی لیڈرز (ASCL) نے کہا ہے کہ اسے ’شرمناک بدسلوکی‘ کی 50 سے زیادہ رپورٹس موصول ہوئی ہیں اور ایسے ’مزید‘ معاملات سامنے آنے کا امکان ہے۔

سیکرٹری جنرل جیف بارٹن نے ٹک ٹاک کے جواب کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ انھیں امید ہے کہ ’یہ معاملہ جلد حل ہو جائے گا۔‘

لیکن انھوں نے متنبہ کیا کہ یہ رجحان ’سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی نگرانی کرنے کی فوری ضرورت کو تقویت دیتا ہے کیونکہ اساتذہ مواد کو ہٹانے اور وبا کے دوران بہت زیادہ ایسی رکاوٹ کے منفی نتائج سے نمٹنے میں وقت صرف کرتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو قانونی طور پر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ذمہ دار ہونا چاہیے کہ ان کے پاس ایسے نظام موجود ہیں جو جارحانہ اور توہین آمیز مواد کو شائع کیے جانے سے روکتے ہیں۔‘

’یہ مواد اس عملے کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے جو اس کا ہدف بنتا ہے۔اور جو نوجوان اسے پوسٹ کرتے ہیں وہ ایسے رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے انھیں سکول سے نکال دیا جا سکتا ہے اور مزید سنگینی کی صورت میں پولیس ان کے خلاف تفتیش شروع کر کر ستکی ہے‘۔

وزیر برائے تعلیم ڈیانا بیرن نے ٹوئٹر پر لکھا کہ محکمہ تعلیم ’مسئلے سے نمٹنے کے لیے ٹک ٹاک کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔‘

محکمہ تعلیم کے ایک ترجمان نے کہا کہ تعلیمی شخصیات کو ہراساں کرنا ’کبھی بھی قابل قبول فعل نہیں‘ اور آن لائن مجرمانہ حملوں کی اطلاع پولیس کو دی جانی چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم واضح ہیں کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو اپنے پلیٹ فارمز پر ایسے نقصان دہ مواد کے خلاف کارروائی کرنے چاہیے اور ہم ایسے قوانین بھی متعارف کروا رہے ہیں جو ان کمپنیوں کے لیے احتساب کے ایک نئے دور کا آغاز کریں گے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.