اس بل کا مقصد ’امریکیوں کو غیر ملکی کنٹرول والی ایپلی کیشنز سے تحفظ دینا‘ بتایا جا رہا ہے اور اب اسے سینیٹ میں بھیجا جائے گا، جہاں سے اس کی منظوری کے امکانات تاحال واضح نہیں۔لیکن اگر یہ سینیٹ سے بھی منظور ہو جاتا ہے تو وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر جو بائیڈن اس پر دستخط کریں گے۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے کہا ہے کہ ’امریکہ کو اس ایپ سے قومی سلامتی کے خطرات کا کوئی ثبوت نہیں ملا‘ اور انھوں نے امریکہ پر ’ٹک ٹاک کو دبانے‘ کا الزام لگایا۔وانگ نے مزید کہا ’ایسے ہتھکنڈوں سے منضافہ مقابلوں میں نہیں جیتا جا سکتا اور یہ کہ ان سے کمپنیوں کی کاروباری سرگرمیوں میں خلل پڑتا ہے اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے۔‘انھوں نہ کہا کہ یہ فیصلہ امریکہ کے گلے پڑے گا۔،تصویر کا ذریعہGlobal Timesچینی میڈیا نے بھی اس فیصلے پر تنقید کی ہے اور متعدد اخبارات نے طنزیہ کارٹون شائع کیے ہیں جن میں ایپ پر پابندی لگانے کی امریکی کوششوں کا مذاق اڑایا گیا۔گلوبل ٹائمز نے امریکہ پر ’بدصورت رویہ‘ اپنانے کا الزام لگایا اور ایپ کو بند کرنے کے لیے ’قومی سلامتی‘ کا سہارا لینے کا الزام عائد کیا۔واضح رہے کہ چین میں باقی دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی طرح ٹک ٹاک پر بھی پابندی عائد ہے تاہم ملک میں صارفین اسی طرح کی ایک ایپ Duoyin استعمال کرتے ہیں، جو صرف چین میں دستیاب ہے اور حکومت کی نگرانی اور سنسر شپ کے زیر اثرہے۔ٹک ٹاک، بیجنگ میں قائم کیمن آئی لینڈز میں رجسٹرڈ فرم بائٹ ڈانس کی ملکیت ہے۔اگر امریکی بل قانون بن جاتا ہے تو بائٹ ڈانس کو چھ ماہ کے اندر اندر ٹک ٹاک فروخت کرنا ہوگا یا امریکی ایپ سٹورز اور ویب ہوسٹنگ پلیٹ فارمز کی جانب سے پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔پچھلے ہفتے ٹک ٹاک نے اپنے بہت سے امریکی صارفین کو ایک پیغام بھیجا تھا جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے نمائندوں کو کال کریں تاکہ حکومت کو ’170 ملین امریکیوں سے آزادی اظہار کا آئینی حق‘ چھیننے سے روکا جا سکے۔اس کے جواب میں ہاؤس چائنا سلیکٹ کمیٹی کی جانب سے کمپنی کو ایک خط میں کہا گیا کہ وہ ’چینی کمیونسٹ پارٹی کی ایما پرامریکی شہریوں کو ورغلانا اور احتجاج کے لیے اکسانے والی اپنی مہم میں جھوٹے دعوے پھیلانا‘ بند کرے۔ٹک ٹاک، چین کی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے روابط کی تردید کرتا ہے اور کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے امریکی ڈیٹا کو امریکہ میں رکھنے کے لیے کمپنی کی تنظیم نو کی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.