- مصنف, تھامس جرمین
- عہدہ, بی بی سی نامہ نگار
- 2 گھنٹے قبل
چار سال قبل تک 20 کروڑ صارفین کے ساتھ انڈیا ٹک ٹاک کی سب سے بڑی مارکیٹ ہوا کرتی تھی۔ یہ ایپ لوگوں کی زندگیاں تبدیل کر رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ ٹک ٹاک کی مقبولیت کو کوئی روک نہیں پائے گا اور تب ہی انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی تنازع شدت اختیار کر گیا۔اس کے بعد جون 2020 میں انڈین حکومت نے راتوں رات ٹک ٹاک پر پابندی عائد کردی۔ایسے وقت میں جب ٹک ٹاک دنیا کی مقبول ترین ایپس میں سے ایک بن چکی ہے انڈین ٹک ٹاک اکاؤنٹس اور ویڈیوز آج بھی آن لائن موجود ہیں اور وقت کے دھارے میں منجمد دکھائی دیتے ہیں۔اس سے آپ امریکہ میں ٹک ٹاک اور اس کے صارفین کے مستقبل کے بارے میں باآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
24 اپریل کو امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک قانون پر دستخط کر دیا ہے جس کے بعد امریکہ میں ٹک ٹاک پر مستقل بنیادوں پر پابندی لگ سکتی ہے۔نئے قانون کے مطابق، ٹک ٹاک کی مالک کمپنی بائٹ ڈانس نو مہینوں کے اندر کمپنی میں اپنے حصص بیچ سکتی ہے بصورت دیگر امریکہ میں ایپ پر مستقل پابندی لگا دی جائے گی۔تاہم، بائٹ ڈانس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے حصص فروخت نہیں کرے گی اور اس قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ امریکہ کی ٹیکنالوجی کی تاریخ میں اتنے بڑے سوشل میڈیا ایپ پر پابندی لگائے جانے کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ تاہم، انڈیا سے ہمیں سیکھنے کو ملتا ہے کہ جب کوئی حکومت ایسی کسی ایپ پر مکمل طور پر پابندی لگا دیتی ہے۔انڈیا واحد ملک نہیں جس نے ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی ہو۔نومبر 2023 میں نیپال نے بھی ٹک ٹاک پر پابندی لگا دی تھی جب کہ پاکستان میں بھی ٹک ٹاک پر کئی مرتبہ جزوی پابندی لگ چکی ہے۔ایسے میں جب امریکہ کے 15 کروڑ ٹک ٹاک صارفین ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں، انڈیا میں پابندی کی کہانی ثابت کرتی ہے کہ کہ صارفین بہت جلدی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایسی پابندیوں کے نتیجے میں ان ایپس کےنتیجے میں جنم لینے والی ثقافت بھی ان کے ساتھ ہی دم توڑ جاتی ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.