ٹک ٹاک اور گارڈیئن نے اسامہ بن لادن کے فلسطین سمیت دیگر موضوعات پر خط سے جڑا مواد حذف کیوں کیا؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
گذشتہ کئی روز سے ٹک ٹاک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اسامہ بن لادن کا ’امریکہ کے نام‘ ایک خط گردش کر رہا ہے جس پر غزہ میں جاری حالیہ جنگ کے تناظر میں سازشی نظریات پر مبنی ویڈیوز بنائی جا رہی ہیں۔
القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کا یہ خط ابتدائی طور پر عربی زبان میں ایک سعودی عرب کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا تھا جسے بعد میں اخبار دی گارڈیئن نے انگریزی ترجمے کے ساتھ اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا تھا۔
اس خط میں وہ امریکہ پر حملوں کا جواز پیش کرتے ہیں اور فلسطین کی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ ٹک ٹاک کے مطابق ’لیٹر ٹو امریکہ‘ ہیش ٹیگ نے منگل اور بدھ کو 1.8 ملین ویوز حاصل کیے مگر پلیٹ فارم اس خط سے متعلق ’دہشتگردی کی حمایت‘ کرنے والے مواد کو حذف کر رہا ہے۔
دوسری طرف اخبار دی گارڈیئن نے ’سیاق و سباق سے ہٹ کر استعمال ہونے والے‘ اس خط کو اپنی ویب سائٹ سے حذف کر دیا ہے جو کہ 2002 کے دوران اس نے ترجمے کے ساتھ اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا تھا۔
ٹک ٹاک اور گارڈیئن نے اس معاملے پر کیا کہا ہے؟
امریکہ میں آئندہ صدارتی الیکشن کی امیدوار نکی ہیلی نے ٹک ٹاک پر تنقید کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس کے ہزاروں صارفین اسامہ بن لادن کی حمایت کر رہے ہیں جس نے تین ہزار امریکی شہریوں کا قتل کیا۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک مثال ہے کہ کیسے ہمارے بیرونی دشمن سوشل میڈیا پر زہر اگلتے ہیں تاکہ اپنا ایجنڈا آگے بڑھا سکیں۔‘
نکی ہیلی نے ٹک ٹاک پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کو یہ صلاحیت نہیں دینی چاہیے کہ وہ امریکیوں پر اثر و رسوخ قائم کرے۔
تاہم اس کے جواب میں ٹک ٹاک نے ایکس پر ایک بیان میں کہا ہے کہ اس خط سے متعلق مواد ’ہمارے دہشتگردی کی حمایت سے متعلق اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔‘
اس نے کہا ہے کہ ’ہم فعال اور جارحانہ انداز میں ایسے مواد کو حذف کر رہے ہیں اور اس بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں کہ یہ ہمارے پلیٹ فارم پر کیسے آیا۔‘
’ٹک ٹاک پر ان ویڈیوز کی تعداد کم ہے اور یہ اطلاعات یہ (موضوع) ہمارے پلیٹ فارم پر ٹرینڈ کر رہا ہے، درست نہیں۔‘
ٹک ٹاک نے کہا ہے کہ ایسا مواد متعدد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ذرائع ابلاغ پر سامنے آیا ہے۔
ادھر اخبار دی گارڈیئن نے کہا ہے کہ اسامہ بن لادن کا ’امریکی شہریوں کے نام‘ خط کا مکمل ترجمہ 24 نومبر 2002 کو شائع کیا گیا تھا مگر اسے 15 نومبر 2023 کو حذف کر دیا گیا۔
ایک بیان میں اس نے لکھا ہے کہ ہماری ویب سائٹ پر شائع شدہ ٹرانسکرپٹ کو بغیر سیاق و سابق سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر شیئر کیا گیا۔ لہذا ہم نے اسے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور قارئین کو اس تحریر کی جانب ڈائریکٹ کیا جو اس کا سیاق و سباق پیش کرتی ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہThe Guardian
اسامہ بن لادن کا خط کیوں زیرِ بحث؟
سوشل میڈیا پر کئی امریکی صارفین نے اسامہ کے خط پر ویڈیوز بنائی ہیں اور دیگر لوگوں سے اسے پڑھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے خارجہ پالیسی اور دہشتگردی پر ان کا نقطۂ نظر تبدیل کیا ہے۔
بعض صارفین اس خط کے متن کو بغیر سیاق و سباق غزہ میں جاری اسرائیل-حماس جنگ سے جوڑ رہے ہیں اور اسے بنیاد بنا کر اپنے سازشی نظریات کو فروغ دے رہے ہیں۔
آن لائن ڈس انفارمیشن کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی رینے ڈی ریستا کی رائے ہے کہ گارڈیئن کو اسامہ بن لادن کا خط 20 سال بعد اپنی ویب سائٹ سے محض اس بنا پر نہیں ہٹانا چاہیے تھا کہ ٹک ٹاکروں نے اسے وائرل کر دیا۔ ان کی رائے ہے کہ ’ایک دہشتگرد کی گفتگو کو ممنوع علم میں تبدیل نہ کریں۔ یہ ایسی چیز ہے جسے لوگ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ لوگوں کو ’ایک قاتل کے مطالبات پڑھنے دیں۔ یہ وہی شخص ہے جسے ٹک ٹاک پر بعض احمق گلوریفائی کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس میں سیاق و سباق کا اضافہ کریں۔‘
مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں بعض لوگوں نے اس خط میں فلسطین کے مسئلے کو اجاگر کیا، کچھ لوگوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ اس میں مغرب کی ’غیر اخلاقی اور فحش سرگرمیوں، ہم جنس پرستی‘ سمیت دیگر وجوہات کو بھی شدت پسندی کے حملوں کا جواز قرار دیا گیا تھا۔
بعض لوگوں نے اپنی ویڈیوز میں اسامہ بن لادن کے یہودی اور خواتین مخالف نظریات کو بھی اجاگر کیا ہے۔
Comments are closed.