تالا صفوان: مصر کی ٹک ٹاکر ’غیر اخلاقی‘ ویڈیو کے الزام میں سعودی عرب میں گرفتار
- سبیسچن اشر
- عرب امور کے مدیر، بی بی سی
تالا صفوان کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو کلپ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر شیئر کیا جا رہا ہے
معروف مصری سوشل میڈیا انفلوینسر تالا صفوان کو سعودی عرب میں مبینہ جنسی نوعیت کی گفتگو پر مبنی ویڈیو کونٹینٹ پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔
تالا صفوان، جن کے ٹک ٹاک پر 50 لاکھ جبکہ یوٹیوب پر آٹھ لاکھ فالوورز ہیں، کو اس وقت آن لائن تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب ان پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے ایک ویڈیو میں دبے الفاظ میں ہم جنس پرستی کو فروغ دیا ہے۔
تاہم انھوں نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ سعوی پولیس کا مؤقف ہے کہ ایسے مواد سے سماجی ماحول کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اپنی چھوٹے بالوں اور منفرد شخیصت کے ساتھ تالا صفوان ایک نوجوان وی لاگر ہیں جن کا ویڈیو مواد نوجوانوں میں مقبول ہے۔ مختلف ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق وہ 2002 میں سعودی شہر جدہ میں پیدا ہوئی تھیں جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ رہتی تھیں۔
ان کی ویڈیوز کی ایسی سرخیاں ہوتی ہیں جن پر صارف بہت جلد کلک کر دیتے ہیں۔ وہ ٹی وی شوز کے علاوہ اپنے چاہنے والوں کے بھیجے گئے سوالات کے جواب بھی دیتی ہیں۔ ان میں رومانوی تعلقات اور شرمندہ کرنے والے واقعات پر بحث شامل ہے۔
وہ پرینکس یا مذاق اڑانے کے مختلف طریقے اپناتی ہیں جبکہ ان کی ویڈیوز میں الگ الگ چیلنجز بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ وہی طریقہ ہے جو دنیا بھر کے کامیاب انفلوینسرز عموماً اپناتے ہیں۔
تاہم ان کی ایک حالیہ ویڈیو پر بہت الگ طرح کا ردعمل سامنے آیا۔ اس میں وہ ایک سعوی خاتون سے بات کر رہی ہیں جنھیں وہ بطور دوست اپنے گھر مدعو کرتی ہیں۔ اس دوران ان کے بعض جملوں کو ’سیکشوئل‘ یعنی جنسی نوعیت کا سمجھا گیا ہے۔
اس طرح ان کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک مہم چلائی گئی اور اس میں ایک ہیش ٹیگ بھی شامل تھا جس کا ترجمہ ’تالا نے سماج کو ناراض کیا‘ ہے۔
اس کے جواب میں انھوں نے کہا ہے کہ ان کی بات کا غلط مطلب لیا جا رہا ہے۔ انھوں نے اپنے جملوں میں ہم جنس پرستی کے کسی بھی تاثر کو رد کیا ہے۔ خیال رہے کہ سعودی عرب میں اس عنوان پر کھلے عام بات کرنا آج بھی ممنوع سمجھا جاتا ہے۔
تالا صفوان کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو کلپ کو مکمل ریکارڈ کی گئی ویڈیو کے سیاق و سباق سے ہٹ کر سمجھا گیا ہے تاکہ ایک سکینڈل بنایا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیے
سوشل میڈیا پر اس مہم کے دوران ریاض میں پولیس نے اعلان کیا کہ انھوں نے ایک شخص کو گرفتار کیا ہے کہ ’جنھوں نے ایک ویڈیو نشریات کے دوران ایک دوسری خاتون سے جنسی نوعیت کی گفتگو کی جس سے سماجی اخلاقیات پر منفی اثر مرتب ہوسکتا ہے۔‘
پولیس نے تالا صفوان کا نام ظاہر نہیں کیا مگر اس پیغام میں وہ ویڈیو کلپ دکھایا گیا جس میں ان کا اور ان کی دوست کا چہرا چھپایا گیا ہے۔
چند دن قبل سعودی عرب میں ذرائع ابلاغ کے نگراں ادارے نے یوٹیوب سے ایسے اشتہارات ہٹانے کا مطالبہ کیا جو مسلمانوں کے جذبات مجروع کرسکتے ہیں۔ اس پیغام میں کہا گیا ہے کہ اگر یوٹیوب نے ایسا نہ کیا تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب متعدد سعودی والدین نے شکایت درج کروائی کہ ان کے بچے یوٹیوب پر غیر مناسب مواد دیکھ سکتے ہیں۔
Comments are closed.