’ٹو فنگر ٹیسٹ‘: جب پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کی خواتین کو برطانیہ میں داخلے کے لیے کنوار پن ٹیسٹ سے گزرنا پڑا
’ٹو فنگر ٹیسٹ‘: جب پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کی خواتین کو برطانیہ میں داخلے کے لیے کنوار پن ٹیسٹ سے گزرنا پڑا
،تصویر کا ذریعہReuters
- مصنف, وقار مصطفیٰ
- عہدہ, صحافی، محقق
24 جنوری 1979 کو اپنے انڈین نژاد منگیتر سے شادی کے لیے برطانیہ پہنچنے والی 35 سالہ ٹیچر لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ سے باہر نکلیں تو وہ صدمے میں تھیں اور اُن کا خون بہہ رہا تھا۔ ان کی خاموشی کے باعث ان کے منگیتر کو یہ جاننے میں کچھ دن لگے کہ ایسا امیگریشن کے عمل کے دوران دو انگلیوں والے کنوارے پن کے ٹیسٹ کی وجہ سے ہوا تھا۔
خاتون نے یہ بات برطانوی اخبار ’دی گارڈیئن‘ کو بتائی۔ مزید تحقیق، بڑھتے احتجاج اور برطانوی پارلیمان میں ہونے والی بحث سے دنیا بھر کو علم ہوا کہ یہ واحد واقعہ نہیں تھا بلکہ گذشتہ 10، 12 برسوں کے دوران تارکین وطن خواتین کی ایسی طبی جانچ کی جا رہی تھی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا وہ کنواری ہیں اور واقعی شادی کرنے جا رہی ہیں یا پہلے سے شادی شدہ ہیں۔
امیگریشن ایکٹ 1971 کے تحت، ایسی خواتین کو ویزا کی ضرورت نہیں تھی جن کی شادی برطانیہ داخل ہونے کے تین ماہ کے اندر ہونا ہو۔ تاہم اپنے شوہروں کے پاس جانے والی خواتین کو ویزا کے لیے طویل انتظار کا سامنا کرنا پڑتا۔
حکومت کا یہ شبہ کہ خواتین اس انتظار سے بچنے کے لیے غیر شادی شدہ ہونے کا دعویٰ کر رہی تھیں، کنوار پن جانچنے کے متنازع ٹیسٹ کے نفاذ کا باعث بنا۔
صحافی ایلن ٹریوس نے اخبار ’دی گارڈیئن‘ کے لیے 2011 کے ایک مضمون ’کنوار پن کے ٹیسٹ: برطانیہ میں 1970 کی دہائی کے سیاہ دور کے تعصبات کے مظہر‘ میں لکھا کہ اس وقت کے امیگریشن، تحفظ اور امن و امان کے ذمہ دار محکمے، ہوم آفس کی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ ہیتھرو کے امیگریشن افسر نے خاتون کی عمر اور یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ اپنے منگیتر کے ساتھ انڈیا سے آئی ہیں، شک کیا کہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہو سکتی ہیں اور ’کنوار پن ٹیسٹ‘ کے حکم کو درست قرار دیا۔
’اگر وہ پہلے سے شادی شدہ ہوتیں تو برطانیہ میں داخلے کے لیے انھیں ویزا کی ضرورت تھی۔‘
سوفی وائٹ ہیڈ نے اپنے ایک ریسرچ آرٹیکل میں لکھا ہے کہ خاتون کو بتایا گیا کہ ان کا معائنہ ایک مرد گائناکالوجسٹ کرے گا اور اگر وہ خاتون ڈاکٹر سے معائنہ کروانا چاہتی ہیں تو انھیں انتظار کرنا پڑے گا۔
’فوری ٹیسٹ کے ان کے مطالبے کو امیگریشن والوں نے رضامندی سمجھا۔‘
’تاہم، خاتون نے گارڈیئن کو بتایا کہ وہ صرف اس لیے رضامند ہوئیں کیونکہ وہ خوفزدہ تھیں کہ انھیں انڈیا واپس بھیج دیا جائے گا۔‘
،تصویر کا ذریعہTwitter/@IRRNews
ہیتھرو ایئرپورٹ کا ستر کی دہائی کا ایک منظر
گارڈیئن کے انکشاف کے بعد ہر سرکردہ انڈین اخبار نے اس واقعے کو اپنے صفحہ اول پر شائع کیا اور اسے ’ایک اشتعال انگیز واقعہ‘ اور ’ریپ کے مترادف‘ قرار دیا۔
ردِعمل کے نتیجے میں ہوم آفس نے اس واقعہ کی تصدیق کی لیکن یہ بھی کہا کہ یہ اس طرز کا واحد واقعہ تھا۔
مگر یہ دعویٰ تب غلط ثابت ہوا جب امیگریشن کے سابق وزیر ایلکس لیون نے کہا کہ جب وہ ہوم آفس میں تھے تو انھیں پتا چلا تھا کہ ڈھاکہ (بنگلہ دیش) میں ’کنوارپن ٹیسٹ‘ کیے جا رہے ہیں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایک بار جب انھیں معلوم ہوا کہ ایسا کیا جا رہا ہے تو انھوں نے برطانیہ میں اسے روکنے کا حکم دیا تھا۔
ہوم آفس نے کہا کہ ’مسٹر لیون کی ہدایات اسلام آباد (ڈھاکہ نہیں) کے ایک کیس کے بعد سامنے آئیں جہاں ایک منگنی شدہ خاتون کے عام طبی معائنے کے بعد ڈاکٹر نے رپورٹ میں شادی کی علامات کا پتا لگایا حالانکہ درخواست گزار نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ غیر شادی شدہ ہے۔
تاہم فزیشنز فار ہیومن رائٹس کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ کوئی ٹیسٹ قابل اعتماد اور درست طریقے سے اس بات کا تعین نہیں کر سکتا کہ آیا عورت نے جنسی تعلق قائم کیا یا نہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق اس طرح کے ٹیسٹ کا خیال بڑی حد تک جنس پرست ہے۔
،تصویر کا ذریعہCourtesy Guardian
بعدازاں جب ہوم آفس کو معلوم ہوا کہ انڈین خاتون کے ساتھی اُن کے خلاف عدالت سے رجوع کر رہے ہیں تو اس نے خاتون کو ’تشفی‘ کے لیے 500 پاؤنڈ رقم کی پیشکش کی۔
مجوزہ ادائیگی کا ثبوت بعد میں دو آسٹریلوی محققین ایوان سمتھ اور مارینیلا مارمو نے برطانوی امیگریشن کی تاریخ میں امتیازی سلوک پر تحقیق کرتے ہوئے پایا۔
سنہ 1979 میں ہوم آفس نے ابتدائی طور پر انکار کے بعد صرف تین فنگر ٹیسٹوں کا اعتراف کیا۔
ایوان سمتھ نے صحافی پلبی منسی کو پچھلے سال بتایا کہ اس وقت کے فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس سے سنہ 1980 کی ایک دستاویز سے اندازہ لگایا گیا تھا کہ ’1979 تک کی دہائی کے دوران 120 سے 140 جنوبی ایشیائی خواتین کو امیگریشن کے مقاصد کے لیے کسی نہ کسی طرح کے جسمانی معائنہ سے گزرنا پڑا تھا۔‘
’ان میں سے 73 دلی میں 10 بمبئی (ممبئی) میں اور 40 سے 60 ڈھاکہ میں ہوئے تھے۔ اسلام آباد اور کراچی میں کیسز کی تعداد نامعلوم ہے۔‘
برطانوی صحافی ہما قریشی نے 2011 میں اخبار ’دی گارڈیئن‘ میں لکھا کہ ’میری والدہ کو آج بھی وہ دن یاد ہے جب وہ پاکستان سے برطانیہ پہنچی تھیں۔ میرے ڈاکٹر والد پہلے ہی سے یہاں تھے۔ امیگریشن قوانین کے تحت میری ماں کو ان کے پاس آنے سے پہلے ایک سال انتظار کرنا پڑا تھا۔‘
’وہ ہیتھرو میں امیگریشن کی قطار میں کھڑی تھیں کہ برطانیہ کے امیگریشن حکام کے حکم پر ان کا کنوار پن ٹیسٹ کروایا گیا۔ میری ماں کو اب یاد نہیں کہ ڈاکٹر مرد تھا یا عورت لیکن انھیں اب بھی بہت شرمندگی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کے حقوق کی خلاف ورزی تھی۔‘
ہما کے مطابق چند اور نوجوان پاکستانی خواتین کو بھی اسی طرح ٹیسٹ سے گزرنا پڑا۔ میری والدہ نے بتایا کہ ’وہ صرف ایسی خواتین سے کہہ رہے تھے جو اکیلے سفر کر رہی تھیں۔‘
سرکاری دستاویزات میں ان لوگوں کے نام شامل نہیں تھے جن کی جانچ کی گئی۔
مارمو کا کہنا ہے کہ ’یہ کافی پریشان کن ہے کیونکہ یہ ہماری دلیل کی تصدیق کرتا ہے کہ خواتین کو سماجی، سیاسی مقاصد کے لیے صرف ’جسم‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘
ہما نے لکھا کہ ’میرے والدین نے پہلے ہی شادی کا سرٹیفکیٹ جمع کرواتے ہوئے برطانوی حکام کے سامنے اپنی شادی ثابت کر دی تھی اور میری ماں کے پاس پہلے سے ویزا موجود تھا، جس کی وجہ سے انھیں برطانیہ میں داخلے کی اجازت دی گئی۔ تو پھر کیوں انھیں اس ذلت آمیز امتحان سے گزرنا پڑا؟‘
مارمو کہتی ہیں کہ ’وہ حیران ہیں کہ ایک ایسی شادی شدہ خاتون کا کنوارپن ٹیسٹ کیا گیا جس کے پاس پہلے سے ویزا موجود ہے۔‘
کیا وہ حکومت سے معافی چاہتی ہیں؟
ہما کے مطابق ان کی والدہ نے جواب دیا کہ ’ہاں! اس کو یاد کر کے مجھے غصہ آتا ہے۔ میں یہاں قانونی طور پر اپنے شوہر کے پاس آئی۔ ہم اس قسم کی ذلت کے مستحق نہیں تھے۔‘
مارچ 1977 میں ایک صحافی امرِت ولسن کو اپنے ایک دوست کی جانب سے ایک 16 سالہ پاکستانی شہری کے بارے میں پیغام موصول ہوا جسے ہیتھرو پر حراست میں لیا گیا تھا۔
ولسن جو اب برطانیہ میں نسل اور جنس کے مسائل پر لکھتی ہیں کہ لڑکی ’دلہن کے لباس میں سجی ہیتھرو پہنچی تھی اور اسے اپنے منگیتر سے شادی کی توقع تھی۔‘
اس کے بجائے نوجوان خاتون کو ایک ہفتے تک ہارمنڈس ورتھ کے حراستی مرکز میں رکھا گیا۔ یہیں نوجوان خاتون نے رپورٹر کو بتایا کہ کس طرح اس کا ایک لازمی ’جنسی معائنہ‘ ہوا جس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ اس کی عمر اس سے کم ہے جس کا اس نے دعویٰ کیا تھا۔
اپنی کتاب فائنڈنگ اے وائس: ایشین ویمن ان برٹین میں، ولسن نے لکھا کہ یہ الزام لگاتے ہوئے کہ وہ ابھی 16 سال کی نہیں ہوئی ہیں انھیں پاکستان ڈی پورٹ کر دیا گیا۔
،تصویر کا ذریعہTwitter/@suff66
ممبئی سے تعلق رکھنے والی ایک 18 سالہ حاملہ لڑکی طے شدہ شادی کے بعد برطانیہ آئی۔ ’جوڑے کو ہیتھرو پر الگ کر دیا گیا اور عورت کو ہارمنڈس ورتھ لے جایا گیا جہاں ولسن کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر اور نرس کے معائنہ کرنے کے دوران میں وہ لیبر میں چلی گئیں۔ ہسپتال پہنچنے میں تاخیر کے نتیجے میں نوجوان ماں کے بچے کی موت واقع ہو گئی۔‘
برطانیہ کی حکومت نے فروری سنہ 1979 میں کنوارے پن کی جانچ پر پابندی تو عائد کر دی لیکن تارکین وطن سے اس سلوک پر ابھی تک معافی نہیں مانگی گئی۔
کیسنڈرا ونوگراڈ نے لکھا ہے کہ مارینیلا مارمو اور ایوان سمتھ کی سنہ 2008 سے سنہ 2011 کے درمیان دریافت کی گئی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانوی حکومت نے اس بات کو چھپایا کہ اس نے سنہ 1970 کی دہائی میں شادی کے ویزوں پر ملک میں داخل ہونے کی امید رکھنے والی خواتین تارکین وطن کے نام نہاد ’کنوار پن کے ٹیسٹ‘ کتنی بار کروائے تھے۔
حکومت نے تسلیم کیا کہ دستاویزات درست ہیں لیکن برطانوی بارڈر ایجنسی کے ترجمان نے کہا کہ ’یہ عمل 30 سال پہلے ہوئے اور واضح طور پر غلط تھے۔‘
سرکاری پالیسی کے مطابق نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس اہلکار نے کہا کہ برطانیہ کی پالیسیاں اب تارکین وطن کے حقوق کا تحفظ کرتی ہیں۔
ونوگراڈ نے مارمو کے حوالے سے لکھا ہے کہ فائلوں، خطوط اور تبصروں، کچھ ٹائپ کیے گئے، کچھ ہاتھ سے لکھے ہوئے، اکثر حاشیے میں لکھے ہوئے، میں امیگریشن کو محدود کرنے کے لیے ایک وسیع تر ایجنڈے کا حوالہ دیا گیا تھا۔ مارمو نے ایک نوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جس میں لکھا تھا: ’آئیے یہ دکھاوا نہ کریں کہ ہم امتیازی سلوک نہیں کرتے۔‘
محققین کا ماننا تھا کہ برطانوی حکومت کو معافی مانگنی چاہیے۔
مارمو نے کہا کہ ’ہم ماضی کو تبدیل نہیں کر سکتے لیکن کم از کم ہم ریکارڈ تو درست کر سکتے ہیں اور ہم ایک دوسرے کا منھ دیکھ کر سچ کہہ سکتے ہیں۔‘
’کہو ایسا ہوا۔۔۔ کہو تمھیں افسوس ہے۔‘
Comments are closed.