امریکی جج نے سن دو ہزار بیس کے صدارتی انتخابات کے نتائج پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مبینہ اثر انداز ہونے سے متعلق مقدمے میں عدالتی کارروائی روک دی جبکہ نیویارک میں دھوکا دہی سے متعلق مقدمے میں گواہیاں مکمل کرلی گئی ہیں۔
اس مقدمے میں نیو یارک کے اٹارنی جنرل سابق صدر ٹرمپ کو 250 ملین ڈالر جرمانے اور کاروباری پابندی کی سزا چاہتے ہیں۔
ٹرمپ نے الزامات تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، اس مقدمے کا فیصلہ گیارہ جنوری کو سنائے جانے کا امکان ہے۔
اس کے علاوہ سن دو ہزار بیس کے الیکشن سے متعلق کیس میں جج نے تسلیم کیا کہ انہیں مقدمے کی سماعت کا اختیار نہیں کیونکہ یہ کیس پہلے ہی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
سابق صدر کے وکلا نے جج تانیہ چُٹکان (Tanya Chutkan) کو درخواست کی تھی کہ وہ 6 جنوری کیس میں ڈونلڈ ٹرمپ کیخلاف کارروائی اس وقت تک روک دیں جب تک کہ اپیل نہ سن لی جائے۔
اسپیشل کونسل جیک اسمتھ نے پیر کو سپریم کورٹ سے درخواست کی تھی کہ وہ اس بات کا جائزہ لے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کیخلاف سن دو ہزار بیس کے انتخابی نتائج پلٹنے کی مبینہ کوشش سے متعلق قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔
اسمتھ کی کوشش ہے کہ اپیلز کورٹ کو بائی پاس کیا جائے اور معاملہ براہ راست سپریم کورٹ میں لایا جائے۔
سپریم کورٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے وکیل کو ہدایت کی ہے کہ وہ بیس دسمبر تک اس معاملے میں جواب جمع کرائیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کیخلاف مقدمے کی سماعت چار مارچ سے ہونا ہے تاہم اب اس میں التو کا امکان ہے۔
جج نے کہا کہ وہ اپیل سے متعلق کارروائی مکمل ہونے پر مقدمے کی تاریخ کا از سر نو جائزہ لیں گی۔
واضح رہے کہ سابق صدر ٹرمپ سن دو ہزار بیس کے انتخابات پر اثر انداز ہونے اور 6 جنوری کو کیپٹل ہل پر حملے میں ملوث ہونے میں خود کو بے قصور کہہ چکے ہیں۔
سپریم کورٹ میں اب اس معاملے کا اگلے سال پانچ جنوری کو جائزہ لیا جائے گا تاہم یہ واضح نہیں کہ عدالتی کارروائی کس نوعیت کی ہوگی۔
Comments are closed.