افغانستان میں طالبان کا قبضہ: ٹرمپ کا وہ ’شاندار معاہدہ‘ جس نے افغانستان کی قسمت کا فیصلہ کر دیا
جب طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا تو کابل ایئرپورٹ پر افراتفری مچ گئی
جب افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ہوا تو طالبان نے ملک کے طول و عرض میں تمام شہروں اور قصبوں پر قبضہ جما لیا ہے لیکن امریکہ دو عشروں تک افغانستان میں لڑنے کے بعد یہاں سے جانے پر کیوں رضامند ہوا؟
2001 میں واشنگٹن اور نیویارک میں نائن الیون حملوں کے بعد نیٹو افواج نے طالبان کو کابل سے نکال دیا تھا لیکن دو عشروں بعد مسلمان عسکریت پسندوں کا یہ گروہ واپس کابل میں آ چکا ہے اور صدارتی محل میں ہنستے کھیلتے ہوئے سیلفیاں بنا رہے ہیں اور پورا ملک ان کے قبضے میں ہے۔
اس میں سب سے حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجی میدان میں شکست کے باعث نہیں ہوا بلکہ ایک بات چیت کے ذریعے طے پانے والے ایک معاہدے کے بعد یہ صورتحال سامنے آئی۔
اس معاہدے کی وجہ کیا تھی جسے ایک امریکی صدر نے طے کیا اور دوسرے صدر نے اس پر عملدرآمد کیا جس کے تباہ کن نتائج سامنے آئے ہیں۔
طالبان کے قبضے کے بعد کابل کیسا ہے؟
امریکہ طالبان سے کیوں معاہدہ کرنا چاہتا تھا؟
جس دن نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے جڑواں ٹاور گرے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے قوم سے وعدہ کیا کہ ’اس جنگ کے لیے وقت اور ہمت کی ضرورت ہو گی لیکن کوئی غلط نہ سمجھے، فتح ہماری ہو گی۔‘
حقیقت میں امریکہ کبھی بھی جنگ کے میدان میں طالبان کو ہرانے کی پوزیشن میں نہیں آیا۔
اس گروپ، جس نے نائن الیون حملہ آوروں کو پناہ دے رکھی تھی، انھیں نیٹو افواج نے تیزی سے شہروں سے باہر دھکیل دیا۔
اس گروپ کے دوبارہ اکٹھے ہونے میں چند برس لگے اور سنہ 2004 میں طالبان اس پوزیشن میں آ گئے تھےکہ وہ مغربی افواج اور نئی افغان حکومت کے خلاف بغاوت کر سکیں۔
طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں کے پیش نظر صدر براک اوباما نے سنہ 2009 میں مزید امریکی فوجی افغانستان بھیج کر ’سرج‘ کے نام سے فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔ اس وقت افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ 40 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔
اس آپریشن کی وجہ سے طالبان ایک بار پھر تھوڑے عرصے کے لیے پیچھے دھکیل دیے گئے۔
نیٹو افواج نے شروع میں طالبان کو کامیابی سے شہروں سے نکال دیا تھا
جب یہ جنگ امریکہ کی طویل ترین جنگ میں بدلی جس پر 978 ارب ڈالر لاگت آئی اور 2,300 سے زیادہ امریکی فوجی مارے گئے تو ملک میں اس کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں۔
سنہ 2014 میں امریکی افواج نے خود کو افغان فوج کی تربیت اور مشکل میں افغان فوج کی مدد تک محدود کر لیا تو اس کے فوجیوں کی ہلاکتوں میں کمی واقع ہوئی۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے سنہ 2019 میں کہا تھا کہ افغان سکیورٹی فورسز کے 45,000 اہلکاروں نے اس جنگ کے لیے زندگی قربان کی۔
صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آ کر طالبان کے ساتھ بات چیت شروع کی اور فروری 2020 میں ان کے ساتھ ایک معاہدہ کر لیا۔
صدر ٹرمپ اس معاہدے سے بہت خوش تھے اور اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی اس پر بات کرتے رہتے تھے۔
صدر ٹرمپ نےایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’آپ کو شاید معلوم ہو کہ ہم بہت حد تک افغانستان سے نکل چکے ہیں، ہم 19 برسوں سے وہاں تھے۔ اب ہم وہاں سے نکل رہے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
امریکہ نے قطر کے دارالحکومت دوحہ کے ایک لگژری ہوٹل میں طالبان کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے
طالبان امریکہ معاہدے میں کیا ہے؟
اس معاہدے کی رو سے امریکہ نے افغانستان سے مکمل انخلا کرنا ہے جبکہ طالبان نے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ وہ القاعدہ یا کسی دوسرے شدت پسند گروہ کو اپنے زیر تسلط علاقوں میں کام کی اجازت نہیں دیں گے۔
اس معاہدے میں کہا گیا کہ طالبان کے 5,000 قیدی رہا کیے جائیں گے اور طالبان بدلے میں ایک ہزار افغان فوجیوں کو رہا کریں گے۔
معاہدہ امریکہ اور طالبان کے مابین تھا لیکن اس معاہدے کی رو سے طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات کر کے یہ طے کرنا ہے کہ مستقبل میں ملک کو کیسے چلایا جائے گا۔
امریکہ نے بظاہر جن تین لاکھ افغان فوجیوں کی تربیت پر 88.32 ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی تھی وہ اس بات چیت کے دوران تمام صورتحال کو قابو میں رکھیں گے۔
صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے مطابق صدر ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ اس معاہدے کو ’شاندار معاہدہ‘ کہا تھا اور صدر ٹرمپ سمجھتے تھے کہ اس معاہدے کی کامیابی کے بہت امکانات ہیں۔
امریکی فوجیوں کی جو تھوڑی سی تعداد افغانستان میں موجود ہیں ان کی ساری توجہ امریکی شہریوں کو وہاں سے نکالنے پر ہے
کیا دونوں فریق معاہدے پر قائم رہے؟
افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا صدر ٹرمپ کے دور میں شروع ہوا۔ طالبان اور افغان حکومت کے براہ راست مذاکرات ستمبر میں شروع ہوئے لیکن وہ غیر نتیجہ خیز رہے۔
طالبان اور افغان حکومت کے مابین بے نتیجہ بات چیت کے باجود طالبان کے مخالفین پرامید تھے کہ طالبان کے ساتھ معاہدے کے تباہ کن نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔
رواں برس فروری میں افغان صدر اشرف غنی نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’یہ ویتنام نہیں، یہاں حکومت نہیں گر رہی۔‘
جولائی میں طالبان کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ اس کے باوجود کہ انھیں میدانِ جنگ میں برتری حاصل ہے وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات میں سنجیدہ ہیں۔
یہ وہ وقت تھا جب طالبان ہر ہفتے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر رہے تھے۔
امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن جو صدر ٹرمپ کی تقریباً ہر پالیسی کے مخالف تھے انھوں نے اپنے پیش رو کے کیے ہوئے معاہدے پر عمل درآمد جاری رکھا۔ جو بائیڈن نے گذشتہ ماہ پریس کو بتایا تھا کہ ’میں امریکہ کی ایک اور نسل کو ایسی جنگ کے لیے نہیں بھیجوں گا جس کا مختلف نتیجہ برآمد ہونے کی کوئی توقع بھی نہیں۔‘
صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ طالبان کے سارے ملک پر قبضے کا امکان بہت کم ہے۔
حالیہ دنوں میں پیش آنے والے واقعات کے باوجود صدر بائیڈن اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
پیر کے روز صدر بائیڈن نے کہا کہ ’پچھلے ہفتے کے واقعات افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے فیصلے کی تائید کرتے ہیں کہ وہاں سے نکلنے کا یہ صحیح وقت ہے۔‘
لیکن طالبان لیڈر محمد عباس ستانکزئی نے دوحہ کے لگژری ہوٹل میں امریکہ کے ساتھ معاہدے پر دستخط کے بعد جو الفاظ کہے تھے وہ سچے لگتے ہیں کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم جنگ جیت چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں۔‘
Comments are closed.