- مصنف, ماریانا سپرنگ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 47 منٹ قبل
پینسلونیا میں ایک انتخابی ریلی کے دوران سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کی خبر آنے کے چند ہی منٹوں بعد امریکہ میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ’سٹیجڈ‘ (یعنی ڈرامہ) کا لفظ ٹرینڈز میں شامل ہوگیا تھا۔’سٹیجڈ‘ یعنی ڈرامہ ایک ایسا لفظ بن چکا ہے جو سوشل میڈیا پر سازشی نظریات کا اظہار کرنے والے اکثر استعمال کرتے ہیں تاکہ کسی حملے یا فائرنگ کے واقعے کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کیے جا سکیں۔گذشتہ روز سے ’ایکس‘ پر ہونے والی گفتگو میں اس لفظ کا بے دریغ استعمال کیا گیا اور صارفین بغیر کسی ثبوت کے نفرت انگیز نظریات پھیلاتے ہوئے نظر آئے جن کو لاکھوں مرتبہ پڑھا جا چکا ہے۔امریکی صدروں پر ہونے والے قاتلانہ حملے ماضی میں بھی سازشی نظریات رکھنے والے افراد کو مقناطیس کی طرح اپنی طرف راغب کرتے رہے ہیں۔
اس کی ایک بڑی مثال سنہ 1963 میں صدر جان ایف کینڈی کا قتل ہے۔ امریکی صدر پر ہونے والا یہ حملہ ٹی وی پر براہ راست دیکھا گیا تھا، اس لیے اس میں حیرانی کی بات نہیں کہ ان کے قتل کے حوالے سے بہت سی بے بنیاد افواہیں آگ کی طرح پھیل گئیں۔تاہم ڈونلڈ ٹرمپ پر ہونے والے حملے کے بعد اس مرتبہ سیاسی نظریات رکھنے والے تمام ہی لوگ ان سازشی نظریات پر بات کرتے ہوئے نظر آئے۔سازشی نظریات رکھنے والوں میں سابق صدر ٹرمپ کے حامیوں کے علاوہ اور بھی لوگ شامل ہیں۔ ’ایکس‘ پر آپ کی فیڈ میں ’فار یو‘ یعنی ’خاص آپ کے لیے‘ کے سیکشن میں اس حملے کو شامل کر دیا گیا تھا۔اس سیکشن میں اکثر ان صارفین کی پوسٹیں نظر آ رہی تھیں جنھوں نے بلیو ٹِکس خریدے ہیں۔
’سب ڈرامہ لگ رہا تھا‘
ہمیشہ کی طرح یہ سازشی نظریات اکثر جائز سوالات اور کنفیوژن سے جنم لیتے ہیں۔ ایسے خیالات اکثر سکیورٹی کی مبینہ ناکامی پر ہونے والی گفتگو کے دوران اُٹھائے جاتے ہیں اور بہت سے صارفین یہی پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ ایسا ہو کیسے سکتا ہے۔مثال کے طور پر حملہ آور چھت پر کیسے چڑھا؟ اسے کسی نے روکا کیوں نہیں؟سوالات کا جواب نہ ملنے کی وجہ سے مزید بے یقینی، قیاس آرائیاں اور غلط معلومات کو جگہ ملتی ہے۔
ایکس پر ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ بہت بڑا ڈرامہ لگ رہا ہے، ہجوم میں بھگدڑ نہیں مچی، نہ کسی نے گولی چلنے کی آواز سنی۔ مجھے اس حملے کی حقیقت پر شک ہے۔ میں ان (ٹرمپ) پر بالکل بھروسہ نہیں کرتا۔‘ ان کی اس ٹویٹ کو لاکھوں مرتبہ پڑھا جا چکا ہے۔اس صارف کی پروفائل کے مطابق وہ آئرلینڈ کے جنوب مغربی ساحلی علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ اس پوسٹ کے بالکل نیچے ’ایکس‘ نے وضاحتی نوٹ چسپاں کیا کہ سابق صدر ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کا واقعہ حقیقت میں پیش آیا ہے۔ایک بار جب جلسے اور اس کے اطراف میں موجود لوگوں کی جانب سے حملے کی مزید ویڈیوز اور گواہیاں سامنے آئیں تو لوگوں کی گھبراہٹ اور ان کا خوف بالکل واضح نظر آیا۔ابتدائی فوٹیج کے بعد جو غیر معمولی تصاویر منظرِ عام پر آئیں ان سے سازشی نظریات میں مزید اضافہ ہو گیا۔ان تصاویر میں وہ تصویر بھی شامل تھی جو ایسوسی ایٹڈ پریس کے چیف فوٹوگرافر ایوان ووچی نے لی تھی جس میں ڈونلڈ ٹرمپ مکّا لہرا رہے تھے اور ان کے چہرے پر بہتا ہوا خون بھی واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ان کے پیچھے امریکی پرچم نظر آ رہا تھا۔ اس تصویر کی بڑے پیمانے پر تعریفیں ہوئیں۔امریکہ میں بنائے گئے ایک یوٹیوب اکاؤنٹ کی طرف سے لکھا گیا یہ تصویر ’بہت ہی زیادہ پرفیکٹ ہے‘ اور ’جھنڈا بہت ہی صحیح جگہ نظر آ رہا ہے اور باقی چیزیں بھی اپنی جگہ برابر ہیں۔‘یہی پوسٹ جب ایکس پر شیئر ہوئی تو اس کو تقریباً 10 لاکھ ویوز ملے۔تاہم بعد میں صارف نے اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کر دی اور انھوں نے ایک علیحدہ پوسٹ میں لکھا کہ جب آپ غلط ہوتے ہیں تو اس غلطی کو سُدھارنا بہت ضروری ہوتا ہے۔کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ جب گولیاں چلیں تو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا ہاتھ ہوا میں بلند کیا ہوا تھا۔ اس بات سے وہ یہ تاثر دینے چاہ رہے تھے کہ یہاں کوئی ڈرامہ رچایا گیا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
’خفیہ شیطانی سازشی گروہ‘
ڈونلڈ ٹرمپ پر حملے کے بعد ایکس پر جو کچھ سامنے آیا اسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے آپ نے سازشی ںظریات کی کوئی کتاب کھول لی ہو۔ اس سازشی نظریات کو ان صارفین نے ہوا دی جوکہ ماضی میں بھی کورونا وائرس کی موجودگی، جنگوں اور دہشتگرد حملوں کی حقیقت کو جھٹلاتے آئے ہیں۔بے بنیاد دعوے پھیلانے کے لیے مشہور امریکہ کے ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ وہ قیمت ہے جو آپ ادا کرتے ہیں جب آپ اشرافیہ کے شیطانی پیڈو فائلز (بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے مجرم) کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔‘ان صارف کا اشارہ کیو اے نان کی طرف تھا جو سازشی نظریات رکھنے والا انتہائی دوائیں بازو کا گروہ اور ڈونلڈ ٹرمپ کا حامی ہے۔ اس گروہ کا دعویٰ ہے کہ سکیورٹی ایجنسیاں اور حساس ادارے کے کچھ عناصر چھپ کر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف کام کر رہے ہیں اور سابق امریکی صدر ان عناصر کے خلاف ایک خفیہ جنگ لڑ رہے ہیں۔بغیر کسی ثبوت کے انھوں نے دعویٰ کیا کہ ٹرمپ پر حملے کا ’حکم ممکنہ طور پر سی آئی اے کی جانب سے آیا ہے‘ اور اس میں براک اوبامہ، ہیلری کنلٹن اور مائیک پینس شامل ہیں۔ بنا ثبوت کے لگائے گئے اس الزام پر بھی 47 لاکھ ویوز آ چکے ہیں۔ویسے تو اس طرح کی گفتگو اکثر سُننے میں آتی ہی رہتی ہے لیکن یہاں تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی کہ کہ اس طرح کی زبان اب عام سوشل میڈیا صارفین بھی استعمال کر رہے ہیں۔ان میں صرف وہ لوگ شامل نہیں جنھیں ٹرمپ ناپسند ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ یہ سب ڈرامہ ہے، بلکہ ان میں ٹرمپ کے وہ حمایتی بھی شامل ہیں جن کا ماننا ہے کہ سابق امریکی صدر پر ہونے والا حملہ ایک بہت بڑی سازش ہے۔اس گفتگو میں منتخب سیاستدانوں نے بھی حصہ لیا۔ امریکہ ریاست ریاست جارجیا سے رپبلکن رُکنِ کانگرس مائیک کولنز نے بھی سابق امریکی صدر پر حملے کے حوالے سے لکھا کہ’جو بائیڈن نے احکامت دیے تھے۔‘میڈیا، سیاستدان اور انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے جو زبان استعمال کی جاتی رہی ہے اس پر سوال اُٹھائے جا سکتے ہیں اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان تمام چیزوں کی وجہ سے کشیدگی بڑھی ہے۔ لیکن یہ تاثر دینا کہ قاتلانہ حملے کے احکامات صدر بائیڈن نے جاری کیے ایک الگ اور سمجھ سے بالاتر بات ہے۔رپبلکن کانگرس مین مائیک کالنز کی پوسٹ کو 60 لاکھ سے زیادہ صارفین نے دیکھا ہے۔ تاہم اس پوسٹ پر بھی ’کمیونٹی‘ گائیڈلائن کے تحت نوٹ لگا دیا گیا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ حملے میں صدر بائیڈن ملوث تھے۔،تصویر کا ذریعہCBS News
حملہ آور کی شناخت کے حوالے سے جھوٹے دعوے
حملہ آور کی شناخت کے بارے میں بھی بے بنیاد قیاس آرائیوں نے سازشی نظریات کو مزید فروغ دیا۔ایف بی آئی نے 20 سالہ حملہ آور کی شناخت تھامس میتھیو کروکس کے نام سے کی لیکن تحقیقاتی ادارے کے اس اعلان سے پہلے ہی بہت سارے دیگر لوگوں کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جا چکا تھا۔فُٹ بال کمنٹیٹر مارکو وولی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا جب کسی نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ وہ انتہائی بائیں بازو کی انتیفا نامی تنظیم سے مسلک ہیں اور وہ ٹرمپ پر ہونے والے حملے کے پیچھے وہ ہیں۔مارکو وولی نے آدھی رات کو انسٹاگرام پر پوسٹ کیا کہ یہ جھوٹ ہے، لیکن تب تک ایکس پر ان جھوٹے دعووں کو لاکھوں لوگوں نے دیکھ لیا تھا۔ایکس پر سیاسی کارکنان اور حامیوں نے ایک دوسرے کے ساتھ ایسی پوسٹس شیئر کیں جو ان کے سازشی نظریات کو سپورٹ کر رہی تھیں۔یہ تمام چیزیں ایلون مسک کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا ایک امتحان تھا اور یہ کہنا مشکل ہوگا کہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہوئے ہیں۔دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس طرح کی پوسٹس کا سیلاب نہیں آیا، شاید اس لیے کیونکہ ایکس کو سیاسی تبصروں کا مرکز سمجھا جاتا ہے اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی ٹارگٹڈ آڈینس مختلف ہے۔بی بی سی نے اس حوالے سے ایکس کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.