ٹرمپ نے خفیہ طور پر کورونا ٹیسٹ مشین روسی صدر کو بھیجی، نئی کتاب میں ٹرمپ اور پوتن میں تعلق سے متعلق دلچسپ دعوے،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنکتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صدارت کا عہدہ چھوڑنے کے بعد بھی ٹرمپ پوتن سے رابطے میں رہے (فائل فوٹو)
ایک گھنٹہ قبلکورونا کی عالمی وبا کے دوران سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خفیہ طور پر روسی صدر ولادیمیر پوتن کو اُن کے ذاتی استعمال کے لیے کووڈ 19 ٹیسٹ مشینیں بھیجی تھیں۔یہ دعویٰ واٹر گیٹ سکینڈل کو منظر عام پر لانے میں اہم کردار ادا کرنے والے سینیئر صحافی باب وڈورڈ کی نئی کتاب ’وار‘ میں کیا گیا ہے۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے ترجمان نے اس دعوے کی سختی سے تردید کی ہے۔امریکی میڈیا میں شائع کیے گیے اقتباسات کے مطابق، کتاب میں یہ دعویٰ بھی شامل ہے کہ ٹرمپ صدارتی عہدہ چھوڑنے کے بعد بھی خفیہ طور پر پوتن سے رابطے میں رہے۔ٹرمپ کی انتخابی مہم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس کتاب میں کیے گئے دعوؤں میں کوئی صداقت نہیں ہے اور یہ محض افسانوی کہانیاں ہیں۔

ترجمان سٹیون چیونگ نے بی بی سی کو دیے گئے بیان میں کہا ہے کہ ’صدر ٹرمپ نے اُن (باب وڈورڈ) کی فالتو کتاب کے لیے انھیں کوئی وقت نہیں دیا۔۔۔‘ بیان میں اس کتاب میں کیے گئے دعوؤں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کتاب کی جگہ ڈسکاؤنٹ سٹور کے فکشن سیکشن (افسانوی کتابوں کا سیکشن) میں موجود ردی کی ٹوکری ہے یا اسے ٹوائلٹ میں ٹشو کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔یاد رہے ’وار‘ نامی اس کتاب کے مصنف باب وڈورڈ وہ صحافی ہیں جنھوں نے واٹر گیٹ سکینڈل کا پردہ فاش کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا، یہ سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد امریکی صدر رچرڈ نِکسن کی صدارت کا خاتمہ ہوا تھا اور یہیں سے صحافی باب وڈورڈ کی شہرت کا آغاز ہوا تھا۔خیال کیا جاتا ہے کہ وڈورڈ کو امریکہ میں اعلیٰ عہدیداروں تک رسائی حاصل تھی جس نے انھیں کتاب لکھنے میں مدد کی۔ٹرمپ مہم کے ترجمان نے وڈورڈ کو ’بے وقوف‘ صحافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اُن کا ذہنی توازن درست نہیں ہے۔‘،تصویر کا ذریعہabbott.comٹرمپ کی انتخابی مہم کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’وڈورڈ دل میں کینہ رکھنے والے انسان ہے اور جیسا کہ نظر آ رہا ہے وہ خاصے پریشان ہیں کیونکہ صدر ٹرمپ نے اُن پر غیر قانونی طور پر کی گئی ریکارڈنگز شائع کرنے پر مقدمہ کر رکھا ہے۔‘یاد رہے ٹرمپ نے وڈورڈ سے اُن کی 2021 میں لکھی گئی کتاب ’ریج‘ کے لیے بات کی تھی۔بعد میں ٹرمپ نے صحافی پر مقدمہ دائر کر دیا تھا۔ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ وڈورڈ کو اُن کے انٹرویوز کی ریکارڈنگز پبلک کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ تاہم وڈورڈ نے اس الزام کی تردید کی تھی۔نئی کتاب میں سابق صدر اور پوتن کے درمیان مسلسل رابطے کا سہرا ٹرمپ کے ایک معاون کو دیا گیا ہے، اس معاون کا نام کتاب میں ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔

نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق کتاب میں ایک ایسا منظر ہے جس میں فلوریڈا کے مارا لاگو والے دفتر میں بیٹھے ٹرمپ اپنے معاون سے کہتے ہیں کہ وہ کمرے سے باہر چلا جائے تاکہ سابق صدر پوتن کو کال کر سکیں۔اس نامعلوم معاون نے مبینہ طور پربتایا کہ سنہ 2021 میں ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد سے دونوں رہنماؤں نے کم از کم نصف درجن بار بات کی ہو گی۔کتاب میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ دوںوں کے بیچ کیا بات چیت ہوئی تاہم اس میں ٹرمپ کی کیمپئین کے ایک اہلکار کا حوالہ دیا گیا ہے جنھوں نے مبینہ رابطے پر شک کا اظہار کیا ہے۔وڈورڈ نے دعویٰ کیا ہے کہ جس وقت ٹرمپ صدر کے عہدے پر فائز تھے انھوں نے ’پوتن کے ذاتی استعمال کے لیے انھیں خفیہ طور پر درجن بھر ایبٹ پوائنٹ آف کیئر کووڈ ٹیسٹ مشینیں بھیجیں۔‘امریکی میڈیا کے مطابق مبینہ طور پر پوتن کو ڈر تھا کہ وہ کورونا وائرس لگنے سے بیمار نہ پڑ جائیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنفائل فوٹو
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پوتن نے ٹرمپ سے کہا تھا کہ وہ عوامی طور پر اس بات کو شیئر نہ کریں کیونکہ اس سے ٹرمپ کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ٹائمز اخبار میں کتاب سے نقل کیے گئے اقتباس کے مطابق پوتن نے مبینہ طور پر ٹرمپ سے کہا کہ ’میں نہیں چاہتا کہ آپ کسی کو بتائیں کیونکہ مجھے تو کوئی کچھ نہیں کہے گا مگر لوگ آپ سے خفا ہوں گے۔‘ٹرمپ نے مبینہ طور پر کہا کہ ’اچھا، مگر مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے۔‘امریکہ میں 5 نومبر کے انتخابات سے کچھ ہفتے قبل سامنے آنے والے ان دعوؤں نے ٹرمپ اور پوتن کے درمیان تعلقات کے بارے میں کئی سوالات کو دوبارہ جنم دیا ہے۔ماضی میں بھی سابق صدر پر امریکی انتخابات میں مداخلت کے لیے روس کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے تاہم امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں اس الزام کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور محکمہ انصاف اس حوالے سے کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پایا کہ آیا ٹرمپ نے انکوائری میں رکاوٹ ڈالی تھی یا نہیں۔واشنگٹن پوسٹ کے مطابق کتاب میں گذشتہ چار سالوں کے دوران غیر ملکی تنازعات اور امریکہ کے تلخ سیاسی ماحول پر ٹرمپ کی طرف سے ڈالے گئے اثرات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔کتاب میں صدر جو بائیڈن کی اُن غلطیوں کا جائزہ بھی لیا گیا جنھیں انھوں نے خود تسلیم کیا جس میں ان کا میرک گارلینڈ کو اٹارنی جنرل بنانے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا ہے کہ ایک خصوصی پراسیکیوٹر گارلینڈ کی جانب سے ہنٹر بائیڈن کے خلاف ہونے والی قانونی چارہ جوئی کے حوالے سے بائیڈن نے اپنے ایک معاون سے کہا کہ ’گارلینڈ کو اس عہدے پر نہیں رکھنا چاہیے تھا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}