- مصنف, محمد صہیب
- عہدہ, بی بی سی اردو
- ایک منٹ قبل
مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے اسرائیل پر حالیہ بیلسٹک میزائل حملوں کے بعد خطے میں ’طوفان سے قبل خاموشی‘ جیسا ماحول ہے۔ایک جانب اسرائیل کے ردِ عمل کا انتظار ہو رہا تو دوسری جانب اس کی نوعیت کے حوالے سے ہزاروں میل دور موجود امریکی صدر جو بائیڈن سے سوال پوچھے جا رہے ہیں۔اس کی ایک وجہ امریکہ کا اسرائیل سے قریبی اتحاد اور خطے میں تاریخی کردار ہونے کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ میں موجود اس کی افواج بھی ہیں۔منگل کی شب جب ایران کی جانب سے اسرائیل پر 180 کے قریب میزائلوں سے حملہ کیا گیا تھا تو امریکہ کی ہی جانب سے اس بارے میں اسرائیل کو پیشگی اطلاع کر دی گئی تھی۔ صدر بائیڈن سمیت دیگر اہم امریکی عہدیداروں نے اس صورتحال کا وائٹ ہاؤس کے سچویشن روم میں براہِ راست جائزہ لیا تھا۔
امریکہ نے ان حملوں کے بعد فوری ردِ عمل دیتے ہوئے انھیں ’ناقابلِ قبول‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ امریکی جنگی بحری جہازوں نے متعدد ’ایرانی میزائلوں کو نشانہ بنایا۔‘صدر بائیڈن نے پہلے ہی مشرقِ وسطیٰ میں فوجیں بڑھانے کا حکم دے رکھا ہے اور اس سے قبل ستمبر کے اواخر میں مشرقی بحیرۂ روم میں امریکی طیارہ بردار بحری جہاز ’یو ایس ایس ہیری ایس ٹرومن‘ بھیجا گیا تھا جو اس ہفتے کے اختتام تک اپنی پوزیشن سنبھال لے گا۔امریکی محکمہ دفاع کے مطابق امریکہ کے 40 ہزار سے زیادہ فوجی مشرقِ وسطیٰ میں مختلف ممالک میں تعینات ہیں۔ لیکن امریکی افواج اپنے ملک سے ہزاروں میل دور مشرقِ وسطیٰ میں اتنی بڑی تعداد میں کیوں موجود ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اس تنازع کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیے اہم ہے۔اس تحریر میں یہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے کہ امریکی فوج کہاں کہاں موجود ہے اور ان کی موجودگی سے خطے میں طاقت کے توازن پر کیسے فرق پڑتا ہے۔
امریکی فوج خطے میں کہاں کہاں موجود ہے؟
باربرا سلاون واشنگٹن میں سٹمسن سینٹر میں فیلو اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں اور مشرقِ وسطیٰ کے امور پر گہری نظر رکھتی ہیں۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ امریکہ کی اس خطے میں موجودگی سنہ 1940 کی دہائی سے خلیج فارس میں رہی ہے اور اس میں سنہ 2001 کے ورلڈ ٹریڈ حملوں کے بعد بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ امریکہ نے سنہ 1945 میں سعودی شہر الظھران میں اس خطے میں اپنا پہلا فضائی اڈہ بنا لیا تھا۔ امریکی محکمۂ دفاع کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں لگ بھگ 40 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔خبررساں ادارے اے پی کے مطابق سات اکتوبر سے پہلے امریکہ کے مشرقِ وسطیٰ میں 34 ہزار کے لگ بھگ فوجی جن میں گذشتہ ایک سال کے دوران چھ ہزار فوجیوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔امریکی محکمہ دفاع کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑا امریکی اڈہ العدید ایئر بیس ہے جو قطر میں واقع ہے اور سنہ 1996 میں بنایا گیا تھا۔قطر کے علاوہ بحرین، کویت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، شام، اردن، مصر، قبرص اور عراق میں بھی امریکی فوجی موجود ہیں۔ امریکی کے کویت میں بھی متعدد فوجی اڈے ہیں جبکہ سعودی عرب میں بھی اس کے دو اڈے ہیں۔ باربرا سلاون کے مطابق ’سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، عمان کویت اردن اور بحرین امریکہ کی جانب سے فراہم کیے گئے تحفظ کا بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesخبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق عراق میں اب بھی امریکہ کے دو ہزار سے زیادہ اہلکار موجود ہیں جو عین الاسد ایئر بیس اور ’یونین تین‘ جیسی سہولیات کے ارد گرد تعینات ہیں۔امریکی پالیسی دستاویزات کے مطابق امریکی فوجی مختلف وجوہات کی بنا پر مشرقِ وسطیٰ میں تعینات کیے گئے ہیں اور شام کے علاوہ وہ ہر ملک کی حکومت کی اجازت سے وہاں موجود ہیں۔عراق اور شام جیسے ملکوں میں امریکی فوجیں نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے عسکریت پسندوں کے خلاف لڑنے کے لیے موجود ہیں۔ یہاں امریکی فوجی مقامی فورسز کو تربیت بھی دیتے ہیں۔امریکہ کے ایک اہم اتحادی ملک اردن میں سینکڑوں امریکی ٹرینرز ہیں جہاں وہ سال بھر وسیع مشقیں کرواتے ہیں۔امریکہ کا ’ٹاور 22‘ فوجی اڈہ اردن میں شمال مشرقی مقام پر واقع ہے۔ اس مقام پر اردن کی سرحدیں شام اور عراق سے ملتی ہیں۔ رواں سال 28 جنوری کو اس اڈے پر ایک ڈرون حملے میں امریکی آرمی ریزرو کے تین فوجی ہلاک ہوئے تھے جس کا الزام واشنگٹن نے ایرانی حمایت یافتہ عراقی ملیشیا کتائب حزب اللہ پر لگایا تھا۔فوجی اڈوں اور فوجیوں کی موجودگی کے علاوہ بحیرہ احمر، خلیجِ عمان اور بحیرہ روم میں امریکی بحریہ موجود ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے مطابق کچھ ہی روز میں یہاں دو امریکی طیارہ بردار جنگی بحری جہاز موجود ہوں گے۔ یو ایس ایس ابراہم لنکن پہلے ہی خلیج عمان کے قریب موجود ہے جبکہ کچھ ہی روز میں یو ایس ایس ٹرومین بحیرۂ روم کے پانیوں میں پوزیشن سنبھال لے گا۔ یوں خطے میں امریکی برّی، بحری، اور فضائی تینوں افواج موجود ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکی فوجی ہزاروں میل دور خطے میں کیوں موجود ہیں؟
دہائیوں سے امریکہ کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ میں ہزاروں میل دور اپنی افواج بٹھانے کے پیچھے متعدد وجوہات ہیں۔ ایشیا اور شمالی افریقہ کے بیچ میں موجود مشرقِ وسطیٰ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور اس کی عالمی نقشے پر ایک اہم پوزیشن اسے دوسرے ممالک کی خارجہ پالیسی خاص کر امریکہ کی خارجہ پالیسی کے لیے اہم ثابت ہوتی رہی ہے۔ تیلسنہ 1938 میں سعودی عرب کے مشرقی شہر الظھران سے تیل کا کنواں دریافت ہونے کے بعد سے تیل کی عالمی معیشت میں قدر میں دن بدن اضافہ دیکھنے کو ملا۔ برطانوی یونیورسٹی ایس او اے ایس میں ڈیولپمنٹ سٹڈیز کے پروفیسر گلبرٹ ایخکر نے بی بی سی ورلڈ سروس کو ایک ویڈیو میں بتایا کہ ’تیل کو جب عالمی معیشت میں اہمیت ملی تو ظاہر ہے کہ اس کی سٹریٹیجک اہمیت بھی بڑھ گئی۔ برطانیہ کے پالیسی انسٹیٹیوٹ چیٹھم ہاؤس میں اسوسی ایٹ فیلو ڈاکٹر لینا خطیب نے بی بی سی ورلڈ سروس کو ایک ویڈیو میں بتایا کہ ’اکثر افراد یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ امریکہ اس خطے میں صرف تیل کی وجہ سے ہے حالانکہ اس حوالے سے امریکہ خود کفیل ہے اور سنہ 2022 میں تیل کی سب سے زیادہ پیداوار امریکہ میں ہوئی تھی، جو اس سال سعودی عرب سے 30 فیصد زیادہ تھی۔پروفیسر گلبرٹ کے مطابق امریکہ ایسا یہاں دیگر یورپی ممالک اور چین کے مشرقِ وسطیٰ کے تیل تک رسائی پر نظر رکھنے کے لیے بھی کر سکتا ہے۔ تاہم چند دیگر اہم عوامل بھی ہیں۔اسرائیل خیال رہے کہ مشرقِ وسطیٰ روس اور امریکہ کی سرد جنگ کا شکار رہا ہے اور امریکہ میں یہ سوچ آج بھی موجود ہے کہ وہ جہاں بھی خلا چھوڑے گا اسے روس پر کر لے گا۔ تاہم امریکہ کی اسرائیل کے لیے ہمدردیاں سنہ 1948 میں اس کے قیام کے بعد سے ہیں۔ اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے معاہدے کے 12 منٹ بعد ہی اس پر دستخط کر دیے تھے۔ لینا خطیب کے مطابق ’امریکہ سمجھتا ہے کہ یہودیوں کے ساتھ جو کچھ بھی دوسری عالمی جنگ کے دوران ہوا وہ غلط تھا اور وہ اسے اپنا حق سمجھتا ہے کہ وہ یہودیوں اور ان کے ایک علیحدہ خودمختار ریاست کے خواب کو پورا کرے۔‘اسرائیل کے علاوہ امریکہ کے سعودی عرب، بحرین، قطر، اردن اور متحدہ عرب امارت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رہے ہیں۔ سکیورٹی اور ایرانلینا خطیب کے مطابق امریکہ نے دنیا میں خود کو ایک ’عالمی پولیس مین‘ کا کردار سونپ رکھا ہے اور کیونکہ مشرقِ وسطیٰ ایک اہم خطہ ہے جہاں سے عالمی بحری تجارتی راستے گزرتے۔اسی طرح 2001 کے ستمبر 11 کے حملوں کے بعد جب امریکہ نے عراق پر بھی حملے کا فیصلہ کیا تو ایک لاکھ سے زیادہ فوجیوں کو عراق جنگ میں بھیجا گیا تھا تاہم امریکی قبضے کے بعد پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال نے نام نہاد دولتِ اسلامیہ کو جنم دیا۔ یوں امریکہ نے شام اور عراق میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف بھی کارروائی کی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کا بڑا حریف ایران بھی اسی خطے میں موجود ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
خطے میں امریکی فوج کی موجودگی سے اسرائیل کو کیسے فائدہ پہچنتا ہے؟
امریکہ کی خطے میں عسکری موجودگی کے حوالے سے تو ہم آپ کو تفصیلات بتا چکے ہیں لیکن اس سے اسرائیل کو ایران کے خلاف کیسے فائدہ پہنچ سکتا ہے؟اس بارے میں ہم نے واشنگٹن میں پالیسی انسٹیٹیوٹ ولسن سینٹر میں مڈل ایسٹ پروگرام کے کوارڈینیٹر یوسف کین سے بات کی ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی موجودگی طاقت کا توازن اسرائیل کے حق میں کرنے میں چار طریقوں سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ’ایک تو امریکی سیاسی حمایت اسرائیل کی کسی بھی قسم کی کارروائیوں کو جائز قرار دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، خاص کر عالمی اداروں میں۔ دوسرا امریکہ کی خطے میں موجودگی کی وجہ سے مقامی اور خطے میں موجود تنازعات کو محدود کرنے میں مدد ملتی ہے اور شام جیسے ممالک جو سالوں سے تنازعات کا شکار تھے میں استحکام آتا ہے اور اسرائیل کو مزید آزادی ملتی ہے۔‘ ’تیسرا یہ کہ اسرائیلی اور امریکی مفادات خاص کر معاشی اعتبار سے ایک جیسے ہیں، اور آخری یہ کہ اسرائیل کو امریکہ کی موجودگی کے باعث تحفظ ملتا ہے، انٹیلیجنس شیئر ہوتی ہے اور سٹریٹیجک سپورٹ ملتی ہے۔‘ قائد اعظم یونیورسٹی میں امریکہ کی بین الاقوامی پالیسی پر گہری نظر رکھنے والے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد شعیب کے مطابق ’اسرائیل ایک چھوٹی ریاست ہے اور چھوٹی ریاستوں کا ایک مسئلہ ان کی ’سٹریٹیجک ڈیپتھ‘ کی کمی ہوتی ہے۔ یعنی ان کے پاس خطے میں اپنے دشمنوں کے خلاف لڑنے کے لیے وہ وسعت نہیں ہوتی جو بڑی طاقتوں کے پاس ہوتی ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ میں موجودگی ایران اور اس کے حمایت یافتہ گروہوں یعنی پراکسیز کے لیے ایک ڈیٹیرنس (یعنی ڈر پیدا کرنے کے لیے) ہے۔ امریکی بحری بیڑے خطے میں بحیرۂ احمر، بحیرۂ روم اور بحرِ ہند میں بھی موجود ہیں اور یہ ایک مربوط نیٹ ورک ہے۔‘ ’اسی وجہ سے ایران جب بھی حملہ کرتا ہے تو امریکہ کو اس بات کا فوری علم ہو جاتا ہے اور وہ اسرائیل کو اس حوالے سے خبردار کر دیتا ہے یا وہ خود بھی ان میزائلوں کو روک دیتا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیا امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک اور جنگ چاہے گا؟
امریکہ رواں صدی میں مشرقِ وسطیٰ میں عراق اور شام کی جنگ میں براہ راست جبکہ متعدد جنگوں میں بالواسطہ یعنی پراکسی کردار ادا کرتا آیا ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کے نزدیک ماضی کے تجربے کو دیکھتے ہوئے امریکہ اب مشرقِ وسطیٰ میں کسی بڑی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہے گا۔ڈاکٹر شعیب کے مطابق ’امریکہ کا قومی مفاد تو یہی ہے کہ یہ جنگ طویل نہ ہو اور یہیں تک محدود ہو جائے۔ ایرانی بھی ’سٹریٹیجک صبر‘ کا مظاہرہ کرتے ہیں، اور جو ایک غیر اعلانیہ معاہدہ تھا اسرائیل اور ایران کے درمیان کہ وہ ایک دوسرے کی پراکسیز پر تو حملہ کر سکتے ہیں، لیکن ایک دوسرے پر براہ راست نہیں اور امریکہ چاہے گا کہ یہ توازن برقرار رہے۔‘تاہم ڈاکٹر شعیب کہتے ہیں کہ ’نیتن یاہو نے اپنا اور اسرائیل کا مفاد دیکھا، امریکہ کا نہیں اور انھوں نے امریکہ میں الیکشن سیزن کو جنگ کو وسیع کرنے کے لیے استعمال کیا ہے جب انھیں معلوم ہے کہ انھیں امریکہ میں ڈیموکریٹ اور رپبلکن دونوں ہی طرف سے حمایت ملے گی، اور جیسے ہی نئی امریکی حکومت آئے گی، تو خاص کر ڈیموکریٹس کے پاس اسرائیل کو روکنے کا مینڈیٹ ہو گا۔‘’امریکہ کی قومی سلامتی کے دستاویزات دیکھیں تو اس کا سٹریٹیجک مقصد اس وقت تیزی سے ترقی کرتے چین کو قابو کرنا ہے، تو ہر وہ مسئلہ جو اس سے ان کا دھیان ہٹاتا ہے وہ دراصل ان کے قومی مفاد میں نہیں ہے۔‘امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں پولیٹکل سائنس کی پروفیسر الزبتھ شیکمین ہرڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’چین امریکہ کے لیے جتنا بھی اہم کیوں نہ ہو لیکن امریکہ ہمیشہ دنیا میں ایسے مواقعوں کی تلاش میں رہے گا جہاں اسے اپنا اثرورسوخ دکھانے کا موقع مل سکے۔‘ ’یہ صورتحال تبدیل بھی ہو سکتی ہے لیکن اس وقت امریکہ پوری طرح سے اسرائیل کے پیچھے کھڑا ہے اور جب تک ایسا رہے گا اسرائیل کو اپنی نسلی قوم پرست اور اپنا اثرورسوخ بڑھانے جیسے اہداف کو حاصل کرنے میں مدد ملتی رہے گی۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.