ٹائٹینک کے پاس سمندر کی گہرائیوں میں پانی اتنا ناقابل اعتبار کیوں ہے؟

ٹایٹینک

،تصویر کا ذریعہAlamy

  • مصنف, رچرڈ گرے
  • عہدہ, بی بی سی فیوچر

بحرِ اوقیانوس کی گہرائیوں میں تاریخی بحری جہاز ٹائٹینک کے ملبے تک تفریحی سفر پر جانے والی آبدوز ٹائٹن کے حادثے اور اس میں سوار تمام افراد کی ہلاکت کی تصدیق نے یہ سوالات اٹھائے ہیں کہ ان گہرے پانیوں میں اس طرح کی مہمات میں کیا خطرات مضمر ہیں۔

سنہ 1911 کے موسم خزاں میں کسی وقت گرین لینڈ کی وسیع برفانی چادر کے جنوب مغرب میں موجود ایک گلیشیر سے برف کا ایک بہت بڑا ٹکڑا ٹوٹ کر الگ ہو گیا۔ اگلے مہینوں میں یہ دھیرے دھیرے سمندری لہروں اور ہوا کے زور پر جنوب کی طرف بڑھتا گیا اور بتدریج پگھلتا رہا۔

پھر 14 اپریل سنہ 1912 کو ایک سرد، اندھیری رات میں 125 میٹر قطر والا برف کا تودہ یا آغس برگ ایک جہاز سے ٹکرایا۔ یہ برف کا تودہ جب گرین لینڈ فجورڈ برفانی چٹان سے الگ ہوا تھا اس وقت وہ تقریبا 500 میٹر لمبا چوڑا تھا۔ اور اس کے بچے ہوئے برفانی تودے سے جو جہاز ٹکرایا وہ آر ایم ایس ٹائٹینک تھا جو برطانیہ میں ساؤتھمپٹن سے امریکہ کے شہر نیو یارک کے لیے اپنے پہلے سفر پر نکلا تھا۔

تین گھنٹے سے بھی کم وقت میں یہ جہاز ڈوب گیا تھا اور اس حادثے میں 1500 سے زیادہ مسافر اور عملہ موت کے منھ میں چلا گیا تھا۔ اب اس جہاز کا ملبہ سطح سمندر سے تقریباً 3.8 کلومیٹر (12,500 فٹ) نیچے نیو فاؤنڈ لینڈ کے ساحل سے تقریباً 640 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے۔

اس علاقے میں بر‌ف کے تودے یا آئس برگ اب بھی جہاز رانی کے لیے خطرہ ہیں۔ سنہ 2019 میں مارچ سے اگست کے دوران 1,515 آئس برگ یا برف کے تودے جنوب کی طرف اتنا آگے بہہ نکلے کہ وہ ٹرانس اٹلانٹک شپنگ لین میں داخل ہو گئے۔

لیکن ٹائٹینک کی آخری آرام گاہ کے ارد گرد اپنے ہی قسم کے خطرات ہیں، یعنی دنیا کے سب سے مشہور جہاز کے ملبے کا دورہ اہم چیلنجز پیش کرتا ہے۔ ٹائٹینک کے ملبے کے تفریحی سفر پر مسافروں کو لے جانے کے دوران پانچ افراد پر مشتمل آبدوز کے حادثے کے بعد بی بی سی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس خطے میں سمندر کا فرش کیسا ہے۔

سمندر کی گہرائی میں جہاز رانی

گہرائی میں جاکر سمندر میں اندھیرا ہو جاتا ہے۔ سورج کی روشنی پانی کے اندر بہت تیزی سے جذب ہو جاتی ہے اور سطح سے تقریباً 1,000 میٹر سے زیادہ گہرائی میں جانے سے قاصر رہتی ہے۔ اس مقام سے آگے سمندر میں مکمل تاریکی ہوتی ہے۔ اور ٹائٹینک کا ملبہ جہاں موجود ہے اسے اسی وجہ سے ’آدھی رات والا زون‘ کہا جاتا ہے۔

ملبے کے مقام تک جانے والی گذشتہ مہمات کا تجربہ یہ ہے کہ اسے مکمل اندھیرے میں دو گھنٹے سے زیادہ وقت تک نیچے اترنا پڑتا ہے اور پھر سمندر کا فرش آبدوز کی روشنیوں میں اچانک نمودار ہوتا ہے۔

یہ آبدوز ٹرک کے سائز کی ہوتی ہیں اور ان سے جو روشنی نکلتی ہے اس سے محض چند میٹر آگے تک ہی دیکھا جا سکتا ہے یعنی سامنے محدود بصارت ہوتی ہے۔ اور اس تاریک گہرائی میں آبدوز کا چلانا ایک مشکل کام ہے کیونکہ سمندر کی تہہ پر اس کا غیر متوازن ہونا آسان ہوجاتا ہے۔

ٹائٹینک کے ملبے والے مقام کے تفصیلی نقشے کئی دہائیوں کی ہائی ریزولوشن سکیننگ کے ذریعے اکٹھے کیے گئے ہیں اور وہ اس جگہ تک جانے کے راستے میں آنے والی چیزوں کا بتا سکتے ہیں۔ سونار کے ذریعے بھی عملے کو آبدوز کی محدود روشنی سے آگے کی چیزوں کا پتہ چلتا ہے۔

آبدوز کے پائلٹ انرشل نیویگیشن تکنیک پر بھی انحصار کرتے ہیں۔ اس کے تحت وہ ایک معلوم نقطہ آغاز اور رفتار کے حساب سے اپنی پوزیشن اور واقفیت کو ٹریک کرنے کے لیے ایکسلرومیٹر اور جائروسکوپس کے نظام کا استعمال کرتے ہیں۔

اوشین گیٹ ٹائٹن آبدوز پر ایک جدید ترین خود ساختہ انرشل نیویگیشن سسٹم موجود تھا جو اسے ایک صوتی سینسر کے ساتھ جوڑتا ہے جسے ڈاپلر ویلوسیٹی لاگ کہا جاتا ہے تاکہ سمندر کے فرش کے ساتھ آبدوز کی گہرائی اور رفتار کا اندازہ لگایا جا سکے۔

اس کے باوجود اوشین گیٹ کے ساتھ ٹائٹینک کے ملبے تک جانے والے پچھلے دوروں پر سوار مسافروں نے بتایا ہے کہ سمندر کے فرش تک پہنچنے کے بعد اپنا راستہ تلاش کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔

ٹی وی کامیڈی مصنف مائیک ریس نے دی سمپسنز پر کام کیا ہے اور گذشتہ سال انھوں نے اوشین گیٹ کے ساتھ ٹائٹینک کے سفر میں حصہ لیا تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’جب آپ پیندے کو چھوتے ہیں، تو آپ واقعی نہیں جانتے کہ آپ کہاں ہیں۔ سمندر کی تہہ میں ہم اندھوں طرح یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ٹائٹینک یہیں کہیں موجود ہے۔ لیکن وہاں اتنا اندھیرا ہوتا ہے کہ سمندر کے نیچے سب سے بڑی چیز جو صرف 500 گز دور تھی اسے ہمیں ڈھونڈنے میں 90 منٹ لگ گئے۔‘

ٹائٹن

،تصویر کا ذریعہAlamy

دبا دینے والی گہرائیاں

سمندر میں کوئی چیز جتنی گہرائی میں جاتی ہے اس کے ارد گرد پانی کا دباؤ اتنا ہی زیادہ بڑھتا جاتا ہے۔ 3,800 میٹر گہرے پانی کے اندر موجود ٹائٹینک اور اس کے آس پاس کی ہر چیز پر تقریباً 40 ایم پی اے کا دباؤ ہوتا ہے جو کہ سطح پر موجود دباؤ سے 390 گنا زیادہ ہے۔

سٹاک ہوم یونیورسٹی کے سٹاک ہوم ریزیلینس سینٹر کے سمندری تحقیق کار رابرٹ بلاسیاک نے بی بی سی ریڈیو فور کے ٹوڈے پروگرام کو بتایا کہ ’اسے اگر اس تناظر میں دیکھا جائےکہ یہ گاڑی کے ٹائر میں موجود دباؤ سے 200 گنا زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو ایک سبمرسیبل کی ضرورت ہے جس میں واقعی موٹی دیواریں ہوں۔ ‘

ٹائٹن سبمرسیبل کی کاربن فائبر اور ٹائٹینیم کی دیواروں کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ اسے زیادہ سے زیادہ 4،000 میٹر گہرائی میں آپریٹنگ کے قابل بناتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

زیر آب لہریں

پانی کی سطح پر تیز لہریں جو کشتیوں اور تیراکوں کو آگے بڑھاتی ہیں، شاید ہمارے لیے زیادہ جانی پہچانی ہیں، لیکن گہرا سمندر زیر آب لہروں سے بھی بھرا ہوا ہے۔ اگرچہ یہ عام طور پر سطح پر پائے جانے والے پانی کی طرح طاقت ور نہیں ہیں، پھر بھی ان میں بڑی مقدار میں پانی کی نقل و حرکت شامل ہوسکتی ہے۔

وہ سطح پر ہواؤں کی وجہ سےبن سکتی ہیں جو نیچے پانی کے ستون کو متاثر کرتی ہیں، گہرے پانی کی لہریں یا درجہ حرارت اور نمکیات کی وجہ سے پانی کی کثافت میں فرق کو تھرموہیلین کرنٹ کہا جاتا ہے۔

کچھ نایاب واقعات جنھیں بینٹک طوفان کہا جاتا ہے جن کی وجہ عام طور پر سطح پر آنے والے گرداب ہوتے ہیں، یہ طاقتور لیکن وقفے وقفے سے بننے والی لہروں کا سبب بھی بن سکتے ہیں جو سمندر کی تہہ پر موجود مواد کو بہا کر لے جا سکتی ہیں۔

ٹائٹن

ٹائٹینک کے گرد زیر آب دباؤ سے متعلق معلومات فرشِ بحر اور ملبے کے پاس سکویڈ کی حرکت پر تحقیق سے آتی ہے۔ ٹائٹینک کے ڈوبنے کے دوران جہاز کا دخش (بو) اور عقبی حصہ الگ ہوگئے تھے۔

ٹائٹینک کا ملبہ فرش بحر کے اس حصے کے قریب ہے جہاں سرد اور جنوب کی جانب بڑھتی لہریں اثر انداز ہوتی ہیں جنھیں ویسٹرن باؤنڈری انڈر کرنٹ کہتے ہیں۔

سائنسدانوں کو زیرِ آب بہاؤ کی شدت کا اندازہ اس وقت ہوا جب انھوں نے اس سے سمندر کی تہہ میں بننے والی لہروں کا مشاہدہ کیا۔ تہہ میں بننے والی تشکیل کمزور یا درمیانے دباؤ کا نتیجہ ہوتی ہیں۔

ریت کی لہریں ٹائٹینک کے ملبے کے مشرقی کونے میں بنتی ہیں۔ یہاں جہاز کی چیزیں جیسے فٹنگز اور کوئلہ پھیلا ہوا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہہ میں مشرق سے مغرب کی طرف جانے والا بہاؤ ہے۔

ملبے کے مرکزی مقام کے بارے میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بہاؤ شمال مغرب سے جنوب مغرب کی جانب ہے۔ شاید اس کی وجہ ملبے میں جہاز کے بڑے حصے ہیں جو بہاؤ کی سمت میں تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔

واضح رہے کہ ٹائٹینک کے ملبے میں لوگوں کی اشیا، جہاز کا سامان، کوئلہ اور پرزے شامل ہیں جو کافی دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔

کئی ماہرین کا ماننا ہے کہ سمندری تہہ میں پانی کا بہاؤ رفتہ رفتہ ٹائٹینک کے ملبے کو دفن کر دے گا۔

جیرہارڈ سیفرٹ میرین آرکیالوجسٹ ہیں جنھوں نے حال ہی میں ٹائٹینک کے ملبے کا جائزہ لینے کے لیے ایک مہم کی قیادت کی۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خیال میں اس علاقے میں پانی کی لہریں اتنی طاقتور نہیں ہیں کہ ٹائٹن آبدوز کے لیے خطرہ بنیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پراجیکٹ کے لیے، جس میں ٹائٹینک کے ملبے کی میپنگ کرنا تھی، یہ ایک چیلنج ضرور تھا لیکن یہ جان لیوا خطرہ نہیں تھا۔‘

جہاز کا ملبہ

ٹائٹینک

،تصویر کا ذریعہAlamy

سمندر کی تہہ میں سو سال تک موجود رہنے کے بعد ٹائٹینک رفتہ رفتہ خراب ہوتا چلا گیا۔ سمندر میں ڈوب جانے کے بعد جب جہاز کے دو بڑے حصے تہہ سے جا کر ٹکرائے تو اس کی وجہ سے ہی ڈھانچے کو کافی نقصان ہوا۔

دوسری جانب مائیکوربس کی وجہ سے زنگ لگنے کے بعد ملبہ مذید متاثر ہوا۔ جیرہارڈ سیفرٹ کا کہنا ہے کہ جہاز کا ملبہ مسلسل متاثر ہو رہا ہے۔ لیکن اگر آپ اس سے محفوظ فاصلہ رکھیں، براہ راست کسی چیز کو نہ چھیڑیں، کسی سوراخ سے داخل ہونے کی کوشش نہ کریں تو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

تاہم سمندر کی تہہ میں موجود مواد جسے ’سیڈیمنٹ‘ کہا جاتا ہے کبھی کبھار اچانک ایسے بہتا ہے کہ سمندری تہہ پر موجود کسی بھی چیز کو ساتھ بہا لے جاتا ہے۔

ایسا ہی ایک واقعہ 1929 میں پیش آیا تھا جب نیو فاوئنڈ لینڈ کے ساحل پر ٹرانس ایٹلانٹک کیبلز کٹ گئی تھیں۔ ایسے واقعات کی وجہ زلزلے ہوا کرتے ہیں۔ تاہم اس بات کا امکان کم ہے کہ ٹائٹن کی گمشدگی میں ایسے کسی واقعے کا ہاتھ ہو۔

محققین نے ایسے نشانات ضرور دیکھے ہیں جن کے مطابق ٹائٹینک کے قریب سمندر کی تہہ میں لینڈ سلائیڈ آ چکی ہیں جن کی وجہ سے یہ ایک غیر مستحکم علاقہ بن چکا ہے۔ ان کا اندازہ ہے کہ آخری بار ایسا ہزاروں سال قبل ہوا جب سیڈیمنٹ کی سو میٹر موٹی تہیں بن گئیں۔

ڈیوڈ پائپر کینیڈا کے جیولوجیکل سروے میں کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات بہت کم ہوتے ہیں۔

دوسری جانب ایک اور قدرتی عمل وہ ہوتا ہے جس میں پانی سیڈیمنٹ سے مل کر زمین کی اترائی سے نیچے کی جانب بہتا ہے۔ یہ طوفانوں کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔

ڈیوڈ پائپر کا کہنا ہے کہ ایسا پانچ سو سال بعد ہونا ممکن ہے۔ لیکن اس علاقے میں سمندر کی تہہ کی ساخت ایسی ہے کہ کوئی بھی بہاو ٹائٹینک کے ملبے تک نہیں پہنچ سکتا۔

ڈیوڈ پائپر اور جیرہارڈ سیفرٹ کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ ٹائٹن کی گمشدگی کا ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔

ٹائٹینک کے ملبے کے قریب کچھ اور جگہیں ایسی ہیں جہاں اب تک کوئی نہیں پہنچ سکا۔ اوشیئن گیٹ کی ایک اور مہم کے دوران پال ہینری نامی سابق فرانیسسی پائلٹ نے ایک ایسی جگہ کا دورہ کیا جس کی نشان دہی انھوں نے 1996 میں سونار کی مدد سے کی تھی۔ پتہ چلا کہ اس جگہ سمندری حیاتیات کی بھرمار تھی۔

BBCUrdu.com بشکریہ