ٹائٹن حادثہ: آبدوز ’پھٹنے‘ کی تحقیقات میں آگے کیا ہو گا؟
ٹائٹن آبدوز کی تلاش میں سمندر کے فرش پر چلائی جانے والی گاڑی
- مصنف, کیتھرن آرمسٹارانگ، جوناتھن ایموس اور پالب گوش
- عہدہ, بی بی سی نیوز
ریسکیو حکام نے ٹائٹن آبدوز کے ملبے کے حصے بحر اوقیانوس کے فرش سے برآمد کیے ہیں اور اب تفتیش کاروں کی توجہ امدادی کارروائیوں کی بجائے حادثے کی وجوہات پر ہوں گی۔
امریکی کوسٹ گارڈ کے ریئر ایڈمرل جان میگر کے مطابق یہ حادثہ آبدوز کے اندر دھماکے سے ہوا جس میں پانچ مسافروں کی موت ہوئی۔
ریسکیو حکام کو ملبے میں ٹائٹن کے دو اہم حصے ملے ہیں: اس کی پشت کا حصہ اور لینڈنگ فریم۔ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ زیر آب سمندر کے دباؤ سے آبدوز میں دھماکہ ہوا اور یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔
آبدوز حادثے کی تحقیقات کیسے کی جاتی ہیں؟
برطانوی رائل نیوی کے سابق سب میرین کپتان رائن ریمزے کے مطابق یہ معلوم کرنے کے لیے کہ ایسا کیوں ہوا اور اسے روکنے کے لیے کیا کِیا جاسکتا تھا، حکام ملبے سے آبدوز کے ٹکڑے جمع کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس میں کوئی بلیک بوکس نہیں تو آپ آبدوز کی آخری مراحل میں نقل و حرکت کو ٹریک نہیں کرسکتے۔‘ اس کے علاوہ یہ تحقیقات کسی فضائی حادثے کی تحقیقات سے مختلف نہیں ہوگی۔
آبدوز کے ٹکڑے سطح سمندر پر لانے کے بعد تفتیش کار اس کے کابن فائبر سے بنے ڈھانچے میں ٹوٹ پھوٹ کے آثار کا جائزہ لیں گے۔ ان کے مطابق آخری مراحل کے دوران آبدوز کی حالت سمجھنے میں یہ اہم ہوگا۔
ملبے میں ہر ٹکڑے کا جائزہ مائیکروسکوپ کے ذریعے لیا جائے گا۔ کاربن فائبر سے بنے ڈھانچے میں ٹوٹنے کے نشانات سے ظاہر ہوگا کہ آبدوز کے پھٹنے کا آغاز کہاں سے ہوا۔
تفتیش کاروں کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہوگا کہ آیا یہ تفریحی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی آبدوز اپنے ڈھانچے میں خامیوں کی وجہ سے ناکام ہوئی۔
یونیورسٹی آف ساؤتھمپٹن کے پروفیسر بلیئر تھورنٹن کا کہنا ہے کہ آبدوز کو زیرِ سمندر بہت زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہوگا، جو کہ ایفل ٹاور کے وزن کے برابر دباؤ تھا۔
اس امکان پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’ہم بہت زوردار دھماکے سے (آبدوز کے) مرکزی حصے کے پھٹنے کی بات کر رہے ہیں۔‘
یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر آبدوز کے ڈھانچے میں خامیاں تھیں تو آیا اس کی وجہ نامناسب آزمائش ہے۔
امپریل کالج لندن کے پروفیسر روڈرک اے سمتھ کاربن فائبر کی بناوٹ میں اندرونی خامیوں کے خدشے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کاربن فائبر اور ٹائٹینیئم کے درمیان جوڑ کی بڑی احتیاط سے جانچ کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آبدوز پھٹنے سے اس کے ٹکڑے ہو گئے لہذا یہ پتا چلانا مشکل ہے کہ پہلے کیا ہوا ہو گا۔ ’اس لیے پہلے ان حصوں کو لایا جائے گا اور ہر حد تک ممکن تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔‘
یہ غیر واضح ہے کہ کون سی ایجنسی اس تحقیقات کی سربراہی کرے گی کیونکہ آبدوز حادثوں کے بارے میں کوئی قوائد و ضوابط موجود نہیں۔
ایڈمرل میگر نے کہا ہے کہ یہ صورتحال پیچیدہ اس لیے بھی ہے کیونکہ واقعہ سمندر کے ویران حصے میں ہوا جس میں کئی ملکوں کے شہری شامل تھے۔
چونکہ امریکی کوسٹ گارڈ نے امدادی آپریشن کی سربراہی کی ہے اس لیے خیال ہے کہ تحقیقات میں بھی اس کا کردار اہم ہوگا۔
کیا سمندر کی گہرائی سے لاشوں کو نکالا جائے گا؟
ریئر ایڈمرل میگر نے کہا کہ وہ اس کی تصدیق نہیں کرسکتے کہ آیا امریکی کوسٹ گارڈ متاثرین کی لاشیں ڈھونڈ سکے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بہت مشکل ماحول ہے۔‘
آبدوز کے مسافروں میں برطانوی بزنس مین ہیمش ہارڈنگ، شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان شامل ہیں۔
عملے میں اوشین گیٹ کمپنی کے سربراہ سٹاکٹن رش اور فرانسیسی نیوی کے سابقہ غوطہ خور ہنری نارجیولٹ شریک تھے۔
اوشین گیٹ کے آبدوز کے ساتھ زیر آب کیا ہوا، اس حوالے سے کئی سوال پائے جاتے ہیں
ٹائٹن حادثے پر تحقیقات حتمی مراحل تک کیسے پہنچے گی؟
امریکی کوسٹ گارڈ نے کہا ہے کہ وہ ملبے کی جگہ پر تحقیقات جاری رکھیں گے۔ جائے وقوعہ پر بحری جہاز، طبی عملہ اور ٹیکنیشیئن تاحال موجود ہیں۔ آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران ٹیموں کو واپس بلایا جائے گا۔
فرشِ سمندر پر ٹائٹینک کے قریب ریموٹ آپریٹنگ ہیکل (آر او ویز) اب بھی موجود ہیں۔
ایڈمرل میگر نے کہا ہے کہ ’میرے پاس اس کی کوئی ٹائم لائن نہیں کہ ہم سمندر کے فرش پر کب ریموٹ آپریشن روک دیں گے۔‘
ملبے میں کاربن فائبر سے بنی آبدوز کے زیادہ سے زیادہ حصے اوپر لانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس سے حکام یہ فیصلہ کر سکیں گے کہ حادثہ کیسے ہوا۔
جس جس جگہ ٹائٹن کے ٹکڑے پائے جائیں گے اس کی نشاندہی ہو گی۔
زیرِ سمندر امور کے ماہر پال ہینکن کا کہنا ہے کہ کھوج میں اب تک ٹائٹن کے پانچ بڑے پرزے ملے ہیں۔
خیال ہے کہ ہائیڈرو فونز (زیر آب مائیکرو فونز جن کی مدد سے ایٹمی ہتھیاروں کی آزمائش سنی جاسکتی ہے) نے حتمی مراحل میں ٹائٹن سے آنے والی آوازیں سنی ہوں گی اور اس سے حادثے کے وقت کا تعین ہوسکے گا۔
2017 میں ارجنٹینا کی آبدوز کے حادثے کے بعد انھیں ہائیڈرو فونز کی مدد سے آبدوز کے پھٹنے کا تعین کیا گیا تھا۔
Comments are closed.