ٹائٹن آبدوز کے ملبے سے بظاہر ’انسانی باقیات‘ ملنے کا انکشاف، امریکی ماہرین باقاعدہ معائنہ کریں گے
- مصنف, میڈلین ہیلپرٹ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
امریکی کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ ان کا ماننا ہے کہ ٹائٹن آبدوز کے ملبے سے انھیں انسانی باقیات ملی ہیں۔
بحرِ اوقیانوس میں سنہ 1912 میں غرقاب ہونے والی ٹائٹینک تک تفریحی سفر کے لیے جانے والی آبدوز ٹائٹن 18 جون کو زیرِ آب دباؤ کے باعث دھماکے سے تباہ ہو گئی تھی جس کے باعث اس میں موجود پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
بدھ کو کینیڈا کے سینٹ جانز شہر کی بندرگاہ پر ٹائٹن آبدوز کے ملبے کو لایا گیا جس میں آبدوز کا لینڈنگ فریم اور پچھلی جانب موجود خول بھی شامل تھا۔
ایک بیان میں امریکی کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ امریکی طبی ماہرین اس حوالے سے ان مبینہ باقیات کا باقاعدہ معائنہ کریں گے۔
خیال رہے کہ امریکی کوسٹ گارڈ اس وقت ٹائٹن سانحے کے حوالے سے تحقیقات کے پہلے مراحل میں ہے۔ کوسٹ گارڈ کے شعبہ مرین بورڈ آف انویسٹیگیشن (ایم بی آئی) کو ان شواہد کو ایک امریکی بندرگاہ تک پہچانے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔
ایم بی آئی کے چیئر کیپٹن جیسن نیوباور نے ایک بیان میں کہا کہ ’ٹائٹن کی تباہی کن وجوہات جن وجوہات کی بنا پر ہوئی انھیں سمجھنے کے لیے اب بھی بہت زیادہ کام کرنا باقی ہے تاکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جا سکے کہ ایسا سانحہ دوبارہ نہ ہو۔
’میں شکرگزار ہوں اس بین الاقوامی اور بین الایجنسی تعاون کی جس کے باعث ہم ان اہم شواہد کو سمندر کی تہہ اور ساحلوں سے کئی میل دور سے نکالنے اور انھیں محفوظ کرنے میں کامیاب ہوئے۔‘
خیال رہے کہ ٹائٹن نامی تفریحی آبدوز اتوار کو بحرِ اوقیانوس میں 3800 میٹر گہرائی میں موجود تاریخی بحری جہاز ٹائٹینک کے ملبے تک تفریحی سفر پر روانہ ہوئی تھی لیکن سفر کے آغاز کے پونے دو گھنٹے بعد اس سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔
اس آبدوز پر سوار پانچ مسافروں میں پاکستانی نژاد کاروباری شخصیت شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان داؤد کے علاوہ برطانوی ارب پتی بزنس مین اور مہم جو ہمیش ہارڈنگ اور اس تفریحی مہم کا انتظام کرنے والی کمپنی اوشین گیٹ کے چیف ایگزیکیٹو سٹاکٹن رش بھی شامل تھے۔
حکام کو آغاز میں کسی بھی شخص کے جسم کے حصے ملنے کے امکانات نظر نہیں آ رہے تھے۔ کوسٹ گارڈ ایڈمرل جان ماگر نے آبدوز کے تباہ ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’سمندر کی تہہ پر ماحول انتہائی بے رحم ہے۔‘
کیپٹن نیوباور نے اس وقت کہا تھا کہ تفتیش کرنے والوں کو اگر انسانی باقیات ملیں تو وہ ’تمام احتیاطی تدابیر‘ اپنائیں گے اور اس حوالے سے ایک باضابطہ سماعت ہو گی جس میں گواہان کے بیانات قلمبند کیے جائیں گے۔
کوسٹ گارڈ کے مطابق تاحال آبدوز کے پانچ بڑے ٹکڑے سمندر کی تہہ میں موجود ملبے سے برآمد کیے گئے ہیں۔ بی بی سی کے سائنس نامہ نگار جوناتھن ایموس کے مطابق بندرگاہ پر لائے گئے ٹکڑوں میں ایک ٹائٹینیم کا خول، آبدوز کا پورٹ ہول جس کی کھڑکی نہیں بچ سکی، اور ٹائٹینیم رنگز، لینڈنگ فریم اور آلات کے لیے مختص ایک حصہ بھی شامل ہے۔
تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آبدوز کے ٹکڑوں کو ڈھکا گیا ہے اور انھیں کرینز کی مدد سے ٹرکس پر لادا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ اوشن گیٹ پر حفاظتی تدابیر کو ملحوظِ خاطر نہ رکھنے پر تنقید کی جاتی رہی ہے اور اس کے سابق ملازمین نے ٹائٹن آبدوز کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
بی بی سی نے ایسی ای میلز دیکھی ہیں جن میں اوشن گیٹ کے بانی سٹاکٹنرش نے ایک ماہر کی جانب سے آبدوز کے حوالے سے اٹھائے گئے خدشات کو مسترد کیا تھا اور کہا تھا کہ ’میں صنعت میں موجود ایسے افراد کے حوالے سے تھک چکا ہوں جو تحفظ کی دلیل کو استعمال کر کے جدت کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
آبدوز حادثے کی تحقیقات کیسے کی جاتی ہیں؟
برطانوی رائل نیوی کے سابق سب میرین کپتان رائن ریمزے کے مطابق یہ معلوم کرنے کے لیے کہ ایسا کیوں ہوا اور اسے روکنے کے لیے کیا کِیا جاسکتا تھا، حکام ملبے سے آبدوز کے ٹکڑے جمع کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس میں کوئی بلیک بوکس نہیں تو آپ آبدوز کی آخری مراحل میں نقل و حرکت کو ٹریک نہیں کرسکتے۔‘ اس کے علاوہ یہ تحقیقات کسی فضائی حادثے کی تحقیقات سے مختلف نہیں ہوگی۔
آبدوز کے ٹکڑے سطح سمندر پر لانے کے بعد تفتیش کار اس کے کابن فائبر سے بنے ڈھانچے میں ٹوٹ پھوٹ کے آثار کا جائزہ لیں گے۔ ان کے مطابق آخری مراحل کے دوران آبدوز کی حالت سمجھنے میں یہ اہم ہوگا۔
ملبے میں ہر ٹکڑے کا جائزہ مائیکروسکوپ کے ذریعے لیا جائے گا۔ کاربن فائبر سے بنے ڈھانچے میں ٹوٹنے کے نشانات سے ظاہر ہوگا کہ آبدوز کے پھٹنے کا آغاز کہاں سے ہوا۔
تفتیش کاروں کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہوگا کہ آیا یہ تفریحی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی آبدوز اپنے ڈھانچے میں خامیوں کی وجہ سے ناکام ہوئی۔
ہائیڈرو فونز کی مدد سے آبدوز کے پھٹنے کا تعین کیسے ہو گا؟
یونیورسٹی آف ساؤتھمپٹن کے پروفیسر بلیئر تھورنٹن کا کہنا ہے کہ آبدوز کو زیرِ سمندر بہت زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہوگا، جو کہ ایفل ٹاور کے وزن کے برابر دباؤ تھا۔
اس امکان پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’ہم بہت زوردار دھماکے سے (آبدوز کے) مرکزی حصے کے پھٹنے کی بات کر رہے ہیں۔‘
یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر آبدوز کے ڈھانچے میں خامیاں تھیں تو آیا اس کی وجہ نامناسب آزمائش ہے۔
امپریل کالج لندن کے پروفیسر روڈرک اے سمتھ کاربن فائبر کی بناوٹ میں اندرونی خامیوں کے خدشے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کاربن فائبر اور ٹائٹینیئم کے درمیان جوڑ کی بڑی احتیاط سے جانچ کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آبدوز پھٹنے سے اس کے ٹکڑے ہو گئے لہذا یہ پتا چلانا مشکل ہے کہ پہلے کیا ہوا ہو گا۔ ’اس لیے پہلے ان حصوں کو لایا جائے گا اور ہر حد تک ممکن تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔‘
خیال ہے کہ ہائیڈرو فونز (زیر آب مائیکرو فونز جن کی مدد سے ایٹمی ہتھیاروں کی آزمائش سنی جاسکتی ہے) نے حتمی مراحل میں ٹائٹن سے آنے والی آوازیں سنی ہوں گی اور اس سے حادثے کے وقت کا تعین ہوسکے گا۔
2017 میں ارجنٹینا کی آبدوز کے حادثے کے بعد انھیں ہائیڈرو فونز کی مدد سے آبدوز کے پھٹنے کا تعین کیا گیا تھا۔
Comments are closed.