- مصنف, سیم کیبرال
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 2 گھنٹے قبل
’یہاں سب ٹھیک ہے‘ یہ ٹائٹن آبدوز کی جانب سے موصول ہونے والے آخری پیغامات میں سے ایک پیغام تھا۔ اس پیغام کے کچھ ہی دیر بعد آبدوز کے تباہ ہونے کے نتیجے میں اس میں سوار پانچوں افراد مارے گئے تھے۔امریکی کوسٹ گارڈ کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ یہ پیغام اس آخری مواصلات کا حصہ ہے جس کا تبادلہ ٹائٹن آبدوز کا اس مرکزی بحری جہاز پولر پرنس کے درمیان ہوا جس کے ذریعے اسے سمندر کی تہہ میں اتارا گیا تھا۔ تحقیقات کے مطابق اس آخری مواصلاتی رابطے کے بعد ان کا رابطہ ٹوٹ گیا تھا۔پیر کے روز شروع ہونے والی امریکی کوسٹ گارڈ کی انکوائری کی سماعت کے موقع پر ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی گاڑی سے لی گئی ٹائٹن آبدوز کی ایک تصویر بھی پہلی بار دکھائی گئی جس میں آبدوز کی ٹیل کون سمندر کی تہہ میں پڑی دیکھی جا سکتی ہے۔جون 2023 میں بحر اوقیانس میں ٹائٹن کو ٹائٹینک کے ملبے کی جانب سفر شروع کیے دو گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ آبدوز تباہ ہو گئی تھی۔
اس حادثے میں دو پاکستانیوں سمیت پانچ افراد مارے گئے تھے۔ اس پر سوار پانچ مسافروں میں پاکستانی نژاد کاروباری شخصیت شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان داؤد کے علاوہ برطانوی ارب پتی بزنس مین اور مہم جو ہمیش ہارڈنگ اور اس تفریحی مہم کا انتظام کرنے والی کمپنی اوشین گیٹ کے چیف ایگزیکیٹو سٹاکٹن رش اور فرانسیسی غوطہ خور شامل تھے۔گذشتہ برس جون میں ٹائٹینک کے ملبے کی جانب جانے والی ٹائٹن آبدوز کے زیرِ آب تباہ ہونے کی وجوہات جاننے کے لیے پیر کو امریکہ میں کوسٹ گارڈ کی جانب سے دو ہفتے پر محیط انکوائری کا آغاز کیا گیا ہے۔ان تحقیقات کا مقصد ٹائٹن واقعے کے حقائق سے پردہ اٹھانا اور مستقبل میں ایسے سانحات کی روک تھام کے لیے سفارشات پیش کرنا ہے۔
تفتیش کاروں نے ٹائٹن آبدوز کے سفر جیسے ایک فرضی سفر کا منظر پیش کیا۔ اس فرضی سفر میں ٹائٹن اور اس کے مرکزی جہاز پولر پرنس کے درمیان ہونے والے ٹیکسٹ پیغامات کا تبادلہ بھی شامل ہے۔ٹائٹن نے مقامی وقت کے مطابق 09:17 پر اپنے سفر کا آغاز کیا۔ پولر پرنس پر موجود معاون عملے نے ٹائٹن سے اس کی گہرائی اور وزن کے بارے میں پوچھا، اور ساتھ ہی یہ بھی کہ آیا وہ پولر پرنس کو اپنے آبدوز کے ڈسپلے پر اب بھی دیکھ سکتے ہیں یا نہیں۔اگرچہ ٹائٹن اور پولرپرنس بحری جہاز کے درمیان مواصلات رابطہ کافی خراب یا کمزور تھا تاہم سفر شروع ہونے کے تقریباً ایک گھنٹے بعد ٹائٹن کی جانب سے بہری جہاز پر پیغام موصول ہوا کہ ’یہاں سب اچھا ہے۔‘ٹائٹن سے آخری پیغام مقامی وقت کے مطابق 10:47 پر 3,346 میٹر کی گہرائی سے بھیجا گیا تھا، یہ بتانے کے لیے کہ انھوں نے ساتھ بندھے دو وزن گرا دیے ہیں۔ اس کے بعد رابطہ منقطع ہو گیا۔تفتیش کاروں نے ٹائٹن کا ایک تاریخی جائزہ پیش کیا۔ انھوں نے بتایا کہ آبدوز کے باہری خول کی کبھی بھی کسی تھرڈ پارٹی سے ٹیسٹنگ نہیں کروائی گئی اوراسے سٹوریج کے دوران موسم اور دیگر عناصر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا۔اس کے علاوہ تفتیش کاروں نے حادثے سے پہلے کی ٹائٹن کی مہمات کے دوران آبدوز کو پیش آنے والے سنگین مسائل کا بھی تذکرہ کیا۔ سنہ 2021 اور سنہ 2022 میں ٹائٹینک کے ملبے تک جانے والی 13 مہمات کے دوران ٹائٹن کو مجموعی طور پر 118 مرتبہ مختلف آلات میں خرابی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔،تصویر کا ذریعہShutterstockان میں پانی سے باہر نکالتے وقت آبدوز کے سامنے والے حصے کا گر جانا، اس کے تھرسٹرز کا 3,500 میٹر سے زیادہ گہرائی میں کام نہ کرنا اور ایک غوطے کے دوران اس کی بیٹریوں کا ختم ہو جانا جس کی وجہ سے اس کے مسافر 27 گھنٹوں تک اندر پھنسے رہ گئے تھے۔ٹائٹن کو بنانے والی کمپنی اوشن گیٹ کو اس سے قبل ٹائٹن کے ڈیزائن کے انتخاب، اس کے حفاظتی ریکارڈ اور ضوابط کی پابندی پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔کمپنی کے سابق انجینئرنگ ڈائریکٹر ٹونی نیسن کا کہنا ہے کہ انھوں نے جو شواہد دیکھے ہیں وہ پیشہ ورانہ اور ذاتی دونوں لحاظ سے کافی پریشان کن تھے۔ٹونی نیسن نے دعوی کیا کہ انجینئرنگ کے بیشتر فیصلوں پر اوشین گیٹ کے آنجہانی سی ای او سٹاکٹن رش کا فیصلہ حرفِ آخر ہوتا تھا اور ان کے ساتھ کام کرنا کافی مشکل تھا۔ سٹاکٹن خود بھی حادثے کا شکار ہونے والی آبدوز پر سوار تھے۔ان کا کہنا ہے کہ ’سٹاکٹن ہر اس بات کے لیے لڑتے تھے جو وہ چاہتے تھے اور وہ اس پر بالکل بھی سمجھوتہ کرنے کو راضی نہیں ہوتے تھے۔‘ٹونی نیسن کے مطابق زیادہ تر لوگ آخر کار سٹاکٹن سے ہار مان کر پیچھے ہو جاتے تھے۔ اس حادثے کے بعد اوشن گیٹ نے تمام مہمات اور کمرشل آپریشنز معطل کر دیے تھے۔کمپنی کا کہنا ہے کہ ان کے پاس فی الحال کوئی کل وقتی عملہ نہیں ہے لیکن انکوائری میں ایک وکیل ان کی نمائندگی کرے گا۔،تصویر کا ذریعہSupplied via Reuters / AFPیاد رہے کہ اس سے قبل بھی اوشیئن گیٹ کمپنی کے مالک سٹاکٹن رش کو ٹائٹن آبدوز سے متعلق متعدد بار خدشات سے آگاہ کیا گیا لیکن انھوں نے ان کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے رد کر دیا تھا۔ یہ انکشاف گذشتہ برس ٹائٹن آبدوز کے حادثے کے بعد ایک ماہر کی جانب سے سنہ 2018 میں بھیجی جانے والی ای میلز کے سامنے آنے کے بعد ہوا تھا۔راب مککلم نے اوشیئن گیٹ کے سی ای او سٹاکٹن رش سے کہا تھا کہ وہ اپنے کلائنٹس کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور انھوں نے آبدوز کا استعمال اس وقت تک روکنے کا مشورہ دیا تھا جب تک اسے کوئی خودمختار ادارہ جانچ نہیں لیتا۔بی بی سی نے یہ پیغامات دیکھے ہیں جن کے جواب میں سٹاکٹن رش نے کہا کہ وہ ایسے ماہرین سے تنگ آ چکے ہیں جو جدت کا راستہ روکنے کے لیے حفاظت کے موقف کو استعمال کرتے ہیں۔راب مککلم نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ پیغامات کا یہ تبادلہ اس وقت تھم گیا تھا جب اوشیئن گیٹ کمپنی کے وکلا نے قانونی کاروائی کی دھمکی دی تھی۔مارچ 2018 میں انھوں نے سٹاکٹن رش کو ای میل میں لکھا تھا کہ ’میرے خیال میں آپ خود کو اور اپنے کلائنٹس کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ٹائٹینک تک پہنچنے کی ریس میں آپ اسی مشہور محاورے کی مثال بن رہے ہیں کہ وہ ڈوب نہیں سکتی۔‘اپنے جوابی پیغامات میں سٹاکٹن رش نے ٹائٹن سے جڑے خدشات اور تنقید پر مایوسی کا اظہار کی تھا۔ سٹاکٹن رش اس آبدوز میں سوار تھے جو پانچ مسافروں سمیت زیر سمندر تباہ ہو گئی ہے۔پیر کو شروع ہونے والی سماعت 15 ماہ سے جاری تحقیقات کی پہلی عوامی سماعت ہے۔ٹائٹن حادثے کے بعد اٹھنے والے سوالات جن کے جوابات اب تک نہیں مل سکے ہیں نے حفاظت اور زیر سمندر کی نجی تلاش کے ضابطے پر ایک طویل بحث کو جنم دیا ہے۔توقع کی جا رہی ہے کہ کوسٹ گارڈ کے میرین بورڈ آف انویسٹی گیشنز (ایم بی آئی) اوشن گیٹ کے 10 سابق ملازمین بشمول شریک بانی گیلرمو سوہنلین، اور سمندری حفاظت اور سمندر کے اندر تلاش کے ماہرین کے بیانات قلمبند کرے گی۔اتوار کے روز ایم بی آئی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ میرین بورڈ آف انویسٹیگیشن امریکہ میں سمندری ہلاکتوں کے بارے میں انکوائری کا سب سے معتبر ادارہ ہے جو ہر سال تقریباً ایک سماعت کرتا ہے۔جیسن نیوباؤر کا کہنا ہے کہ ہزاروں تحقیقات میں سے ایک ٹائٹن کی سطح کا معاملہ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے کہ اس سماعت سے سانحے کی وجوہات پر روشنی ڈالنے میں مدد ملے گی اور مستقبل میں اس طرح کے حادثوں کو روکا جا سکے گا۔کوسٹ گارڈ اور نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ کے اعلیٰ عہدیداروں کے بورڈ کو دیوانی جرمانے کی سفارش کرنے یا فوجداری مقدمہ چلانے کے لیے امریکی محکمہ انصاف کو ریفرل کرنے کا اختیار ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.