ٹائٹن آبدوز کا ملبہ ہمیں اس حادثے کے بارے میں کیا بتا سکتا ہے؟

titan

،تصویر کا ذریعہShutterstock

  • مصنف, جوناتھن ایموس اور وژوئل جرنلزم ٹیم
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

بحرِ اوقیانوس کی تہہ میں موجود ٹائٹن آبدوز کے ملبے سے ملنے والے تمام اہم پرزے ہاریزان آرکٹک نامی بحری جہاز نے ماہرین تک پہنچا دیے ہیں۔

بندرگاہ پر لائے جانے والے ان پرزوں کی تعداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ بحری جہاز سے منسلک انتہائی گہرے پانیوں میں کام کرنے والا روبوٹ انتہائی اہم پرزوں کو سطح تک لانے میں کامیاب ہوا۔ ان سے تحقیق کرنے والوں کو 11 روز قبل ٹائٹن کے زیرِ آب تباہ ہونے کی اصل وجہ معلوم ہو گی۔

نیوفاؤنڈلینڈ کی سینٹ جانز بندرگاہ پر اہلکاروں نے ان پرزوں کو ڈھکنے کی پوری کوشش کی لیکن اس کے باوجود بھی اکثر پرزوں کی شناخت کی جا سکتی تھی۔

ان میں آبدوز کا ٹائٹینیم سے بنا پورٹ ہول بھی تھا۔ یہ دھات کے بنے ڈونٹ جیسا نظر آتا تھا اور اس کے بیچ میں موجود سوراخ میں دراصل آبدوز سے باہر دیکھنے کے لیے موجود کھڑکی نصب ہونی چاہیے تھی۔

تصاویر میں جس کرین سے اسے اٹھایا گیا تھا وہ اس سوراخ میں سے گزر رہی ہے یعنی کھڑکی غائب ہے اور ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے۔

اس کی مضبوطی کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ آیا یہ چار کلومیٹر کی گہرائی پر موجود آبی دباؤ کو برداشت کر پائے گی تاہم اس کھڑکی کی غیر موجودگی کے حوالے سے تاحال کوئی نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہو گا۔

titan

اس کے علاوہ بندرگاہ پر لائے جانے والے پرزوں میں ٹائٹینیم کے رنگز بھی موجود ہیں۔ یہ آبدوز کی کاربن فائبر سے بنے مرکزی ڈھانچے کے دونوں اطراف پر موجود تھے اور یہ اس کے دونوں کناروں پر موجود کیپس سے جڑتے تھے۔

یہ رنگز اور ان کا کاربن فائبر کے ڈھانچے سے جڑنا ان تحقیقات میں مرکزی کردار ادا کرے گا۔ یہ تحقیقات امریکی اور کینیڈین حکام کی جانب سے مشترکہ طور پر کی جا رہی ہیں۔

titan

برطانیہ کی ساؤتھیمپٹن یونیورسٹی میں مرین اٹانوٹی کے پروفیسر بلیئر تھارنٹن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے نزدیک جو سب سے اہم پرزے ہیں جن پر توجہ ضروری ہے وہ کھڑکی اور ٹائینیم کے پارٹ ہول کے درمیان یا آبدوز کے دونوں کنارے اور وہ حصہ بھی جہاں کاربن فائبر سے یہ رنگز جڑتے ہیں۔‘

’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ دونوں پرزے مل گئے ہیں اور ان تحقیقات میں پیشرفت کے لیے کم از کم ہم اسی کی امید کر سکتے تھے۔‘ ان پرزوں کے علاوہ بھی ٹرکس پر ملبے کے کئی لفافے لادے گئے۔

ہمیں تاحال یہ معلوم نہیں کہ ان میں کیا ہے۔ کیا ان میں کاربن فائبر کے ڈھانچے کے ٹکڑے بھی موجود ہو سکتے ہیں؟

اگر ان کی موجودگی کی تصدیق ہو جاتی ہے تو تفتیش کرنے والوں کو اس کا معائنہ کرنے کے بعد یہ جانچنا ہو گا کہ کیا ایسے ثبوت موجود ہیں کہ کاربن کی تہیں علیحدہ ہو رہی تھیں، خاص طور پر اس جگہ پر جہاں رنگز اور کاربن فائبر جڑتے ہیں۔ اس سائنسی عمل کو ’ڈی لیمینیشن‘ کہا جاتا ہے۔

کاربن فائبر کے پرت انتہائی شدید ماحول میں علیحدہ ہو جاتے ہیں۔

titan

،تصویر کا ذریعہShutterstock

ایک بڑا پرزا جو بندرگاہ پر لایا گیا وہ آبدوز کے پچھلے حصے میں نصب تھا۔ جب آبدوز پانی میں جا رہی تھی تو اس پر ایک خول چڑھا ہوا تھا، اب یہ ایک کھلے ہوئے پنجرے کی طرح تھا۔ ت

صاویر سے واضح ہے کہ اسے اس دوران بہت زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا اور یہ آبدوز سے ٹوٹ کر علیحدہ ہو گیا۔

اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو ایک ڈنڈا نظر آئے گا جو باہر کی جانب نکلا ہوا ہے۔ یہ دراصل ایک انٹینا ہے جو عام طور پر اریڈیم سیٹیلائٹ فون نیٹ ورک کے ساتھ منسلک ہوتا ہے جب آبدوز پانی کی سطح پر ہوتی ہے۔

titan

یہ انٹینا خود بخود کام کرنے لگتے ہیں اور کیونکہ ٹائٹن کے زیرِ آب جانے کے بعد سے سسٹم کو اس حوالے سے کوئی پیغام نہیں ملا تھا تو یہ اسے ریسکیو کرنے کے دوران ایک اہم اشارہ تھا کہ یہ آبدوز کبھی پانی کی سطح پر آئی ہی نہیں۔

جو دھات کے بنے لمبے ڈنڈے ٹرکس پر منتقل کیے گئے وہ اس آبدوز کے لینڈنگ فریم کی باقیات تھیں جس کے ذریعے آبدوز ورکشاپ یا لانچ کی جگہ پر ایک جگہ کھڑی ہونے میں کامیاب ہوتی تھی۔ یہ باقیات ٹائٹینیم رنگز کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔

titan

اس دوران برآمد ہونے والے بڑے سفید رنگ کے پینلز آبدوز کی باہری سطح کا حصہ ہیں۔ یہ ان تاروں اور ٹیوبز کو ڈھکنے کے لیے لگائے گئے تھے جو کاربن فائبر ڈھانچے کے اوپر موجد تھے۔

کچھ افراد نے ان پینلز کے بارے میں کہا ہے کہ یہ دراصل کاربن فائبر ڈھانچے کا حصہ ہیں لیکن وہ تو کالے رنگ کے، موٹائی میں اسے کہیں زیادہ اور سخت ہوتے۔ یہ سفید پینلز اس کے مقابلے میں مڑے ہوئے تھے۔

titan

ہم نے بحری جہاز سے کوئی ایسے کنٹینرز اترتے نہیں دیکھے، جن میں عام طور پر انسانی باقیات کو منتقل کیا جاتا ہے۔

امریکی کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ممکنہ طور پر ایسی باقیات آ گئی ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ