ٹائٹن آبدوز اور یونان کشتی حادثے پر میڈیا کوریج: ’یہ اس دنیا کی عکاس ہے جس میں ہم رہتے ہیں‘

ٹائٹن آبدوز

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

’پرے فار ٹائٹن‘ نامی اس فنپارے میں آبدوز میں سوار افراد کے زندہ ہونے کی امید ظاہر کی گئی

  • مصنف, سحر بلوچ
  • عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد

یہ کہانی اسی ماہ بحر اوقیانوس سے جڑے دو حادثوں کی ہے۔

پہلا اس وقت سامنے آیا جب بحیرۂ روم کے ذریعے لیبیا سے اٹلی جانے والی کشتی جنوبی یونان کے ساحل کے قریب سینکڑوں تارکین وطن کے ساتھ ڈوب گئی۔

دوسرے حادثے میں ایک تفریحی آبدوز ممکنہ طور پر سمندری دباؤ سے تباہی کا شکار ہوئی جس میں سوار پانچ لوگوں کو ٹائٹینک کا ملبہ دکھانے کے لیے لے جایا جا رہا تھا۔

دونوں ہی واقعات پر عالمی سطح پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے مگر لوگوں کے لیے یہ قابل غور ہے کہ ان دونوں واقعات پر امدادی کارروائیاں، میڈیا کی کوریج اور دلچسپی یکساں نہیں۔

ٹائٹن آبدوز میں سفر کرنے والے ہر اس شخص کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہے جس نے ٹائٹینک کا ملبہ دیکھنے کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر ادا کیے تھے۔ جبکہ اس حادثے پر امریکی کوسٹ گارڈ کی نیوز کانفرنسز اور ٹی وی چینلوں کی لائیو نشریات نے لاکھوں ویوز بٹورے ہیں۔

اس معاملے پر اوشین گیٹ کمپنی کی بنائی اس آبدوز کا بھی ذکر ہو رہا ہے اور اس کے مالک کے سابقہ انٹرویوز گردش کر رہے ہیں جس میں انھوں نے عالمی میڈیا کے ذریعے ان تفریحی دوروں کی تشہیر کروائی تھی۔

Thin line

’تارکین وطن کو نظر انداز کیا گیا‘

غربت کے ستائے تارکین وطن کے یورپ جانے کا سفر اور تفریح کی غرض سے ٹائٹینک دیکھنے کے خواہشمند امرا کی کہانیاں ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ تاہم ان دونوں واقعات کے بارے میں انٹرنیٹ پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔

اکثر لوگ ان حادثوں پر ریسکیو حکام کا ردعمل اور میڈیا کی کوریج کو تنقید کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو سمجھتا ہے کہ تارکین وطن، جن کی سینکڑوں کی تعداد میں ہلاکت کا خدشہ ہے، انھیں نظر انداز کیا گیا۔

کشتی سے بچائے گئے لوگوں نے یہاں تک بتایا ہے کہ اس پر 100 بچے بھی سوار تھے اور انھوں نے کئی بار وہاں گزرنے والے مسافر اور کارگو جہازوں سے مدد مانگی تھی مگر انھیں پانی اور کھانا دینے کے علاوہ ان کی کوئی مدد نہیں کی گئی تھی۔

یونان کے کوسٹ گارڈ کا دعویٰ ہے کہ کشتی اٹلی کی جانب روانہ تھی اور اسے مدد کی ضرورت نہیں تھی مگر بی بی سی کو موصول ہونے والی شہادتیں اور ٹریکنگ ڈیٹا اس کی نفی کرتی ہیں۔

پاکستان میں کئی لوگوں نے یہ محسوس کیا ہے کہ تارکین وطن کی اموات میں اس قدر دلچسپی ظاہر نہیں کی گئی جتنی آبدوز کے ڈوبنے میں۔

جیسے مریم نامی ایک صارف نے ٹوئٹر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’امیر سیاحوں کی تلاش کے عمل کو دی جانے والی پریس کوریج سے لے کر تلاش کا عمل اور دوسری جانب ڈوبنے والے تارکینِ وطن کی کوریج نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ اس دنیا کی عکاس ہے جس میں ہم سب رہتے ہیں۔‘

جبکہ شمس خان کہتے ہیں کہ دونوں حادثوں کی ایک جیسی رپورٹنگ ہوئی نہ ایک جیسا عالمی ردعمل سامنے آیا۔ ان کے خیال میں یہ موازنہ بلا جواز نہیں ہے۔

مگر ایمن شنواری کہتی ہیں کہ ٹائٹن آبدوز میں مرنے والوں کا مذاق اڑانا افسوسناک ہے تاہم ’اس کا موازنہ یونان کشتی حادثے سے نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں واقعات تکلیف دہ ہیں اور یہ نہیں ہونے چاہیے تھے۔‘

امل خان کی رائے ہے کہ یونان میں کشتی ڈوبنے سے سینکڑوں تارکین وطن کی ہلاکت اور ٹائٹیٹنک دکھانے والی آبدوز میں پانچ مسافروں کی موت دونوں ہی واقعات پر درد اور افسوس محسوس کرنا ممکن ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہاں بہت سے سیاسی معاملات کا تذکرہ ہوسکتا ہے مگر یہ لمحہ اس سب کے لیے نہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

یونان کشتی حادثہ

،تصویر کا ذریعہHellenic Coast Guard

،تصویر کا کیپشن

یونان کے ساحل کے قریب ڈوبنے والی کشتی

’سوشل میڈیا پر کوئی کسی کے بارے میں کچھ بھی کہہ دیتا ہے‘

صحافی اور تجزیہ کار ضرار کھوڑو انٹرنیٹ پر ہونے والے تبصروں سے متفق نہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اکثر کسی بڑے حادثے کے بعد آپ کو انسانیت کا اچھا اور بُرا چہرہ دکھائی دیتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جہاں ایک طرف ہم نے دیکھا کہ کیسے کوسٹ گارڈز نے ڈوبتے تارکینِ وطن افراد کی مدد نہیں کی وہیں دوسری جانب ہم نے سینکڑوں لوگوں کو یونان کے دارالحکومت ایتھنس میں تارکینِ وطن کے لیے بُرا رویہ رکھنے والوں کے خلاف احتجاج کرتے دیکھا۔‘

ضرار نے کہا کہ ’اسی طرح اس وقت ہم سب ایک آبدوز میں پانچ افراد کو سانس کی کمی ہونے سے ایک دردناک موت مرتا دیکھ رہے ہیں۔

’سوشل میڈیا کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر کسی قسم کا احتساب نہیں ہے جس کے نتیجے میں کوئی بھی، کسی کے بھی بارے میں بہت ہی دلخراش بات کرسکتا ہے۔ اور بچ کر نکل سکتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ایک بیانیہ گردش کر رہا ہے کہ چونکہ آبدوز میں ہلاک ہونے والے پانچ لوگ امیر ہیں تو ان کے ساتھ ایسا ہونا چاہیے۔

’اس آبدوز میں ایک 19 سال کا نوجوان بھی تھا اور آپ چاہتے ہیں کہ وہ ایک دردناک موت صرف اس لیے مرے کیونکہ اس کے والد امیر ہیں؟ صرف سوچ کر دیکھیں کہ یہ بات کیسی لگ رہی ہے۔‘

Suleman Dawood, 19, and father Shahzada Dawood

،تصویر کا ذریعہDawood family

،تصویر کا کیپشن

ٹائٹن حادثے میں پاکستانی بزنس مین شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے

Thin line

ٹائٹن آبدوز کا حادثہ: ہم اب تک کیا جانتے ہیں؟

  • اوشین گیٹ کمپنی کی ٹائٹن آبدوز میں پانچ افراد سوار تھے جن کی ایک حادثے میں موت ہوئی۔
  • ان میں برطانیہ میں مقیم پاکستانی بزنس مین شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان شامل ہیں۔
  • یہ تفریحی آبدوز ٹائٹینک کا ملبہ دکھانے کے لیے بحر اوقیانوس کی گہرائیوں تک گئی تھی۔ اس کی ٹکٹ کی قیمت ڈھائی لاکھ ڈالر ہے۔
  • 18 جون کو ٹائٹن کا رابطہ منقطع ہوگیا تھا اور ریسکیو مشن کے لیے امریکی، کینیڈین اور فرانسیسی حکام نے مشترکہ آپریشن کیا۔
  • امریکی حکام کے مطابق یہ آبدوز سمندری دباؤ کی وجہ سے تباہ ہوئی اور اس میں سوار پانچوں مسافروں ہلاک ہو گئے۔

Thin line

’کیا دنیا میں انصاف ہے؟ نہیں‘

جہاں ضرار کا خیال ہے کہ آبدوز حادثے میں ہلاکتوں کو محض اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا کیونکہ وہ امیر تھے، وہیں تجزیہ کار فرح ضیا کہتی ہیں کہ ’یونانی کشتی کا واقعہ اور امریکی آبدوز کا واقعہ آگے پیچھے پیش آئے اور لوگوں کی ان دونوں واقعات میں دلچسپی اور میڈیا کی کوریج میں فرق کی واضح وجوہات ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اس میں میڈیا کا کردار ’زیادہ غور طلب ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’عمومی طور پر دنیا بھر میں امیر اور طاقتور افراد کی زندگیوں میں لوگوں کی زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ اور جب وہ کسی حادثے سے دوچار ہوتے ہیں تو اسے ایک بڑے سانحہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘

’اچھا ہے کہ امریکی اور برطانوی میڈیا میں یہ بحث چھڑ چکی ہے کہ میڈیا کس طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو زیادہ توجہ دیتا ہے۔ آنے والے دنوں میں ان کی کوریج پر اثر پڑسکتا ہے۔‘

لیکن ضرار کے مطابق اس وقت دنیا میں دو حادثے ہوئے ہیں اور دونوں میں انسانی جانوں کا ضیاں ہوا ہے۔ ’یہ نہ ختم ہونے والی بحث ہے۔‘

وہ اس کی مثال کچھ ایسے دیتے ہیں کہ ’جب پیرس میں نوٹر ڈام میں آگ لگی تھی تو پوری دنیا نے پیسے جمع کر کے اسے دوبارہ بنوایا تھا۔ کیا ہم نے ایسا کبھی ترقی پذیر ممالک میں ہونے والی تباہ کاریوں کے بعد دیکھا ہے؟

’کیا ہمیں بُرا لگنا چاہیے؟ بالکل۔ لیکن کیا دنیا میں انصاف ہے؟ نہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ