روس کا ویگنر گروپ پر ’مسلح بغاوت‘ کا الزام، ماسکو سمیت کئی روسی علاقوں میں سخت حفاظتی اقدامات
روس کی پرائیوٹ آرمی یا کرائے کے لڑاکا گروپ ویگنر کے سربراہ نے روس کی فوجی قیادت کو ’ہر طرح سے گرانے‘ کا عزم کیا ہے۔ انھوں نے یہ اعلان کریملن کی جانب سے اس پر ‘مسلح بغاوت’ کا الزام لگانے کے چند گھنٹے بعد کیا ہے۔
روس کی فوج اور اس کی کرائے کی ویگنر فورس کے جنگجوؤں کے درمیان لڑائی میں ڈرامائی طور پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جس کے بعد جمعے کی رات سے روس میں سکیورٹی سخت کر دی گئی، انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی گئی اور ماسکو کی سڑکوں پر فوجی ٹرک دیکھے گئے ہیں۔
جبکہ سنیچر کی صبح منظر عام پر آنے والی ویڈیوز میں مبینہ طور پر ویگنر کی افواج کو روسی شہر روسٹوو آن ڈان میں داخل ہوتے دکھایا گیا ہے۔
ویگنر گروپ کے سربراہ یوگینی پریگوزِن نے کہا کہ ان کے ویگنر جنگجو یوکرین سے روس کی سرحد عبور کر کے روسٹوو آن ڈان شہر میں داخل ہوگئے ہیں۔ اور انھوں نے کہا کہ ان کے آدمی ان کے راستے میں کھڑے ہونے والے ہر شخص کو تباہ کر دیں گے۔
انھوں نے ایک ویڈیو بیان بھی جاری کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ویگنر کے جنگجو شہر کی ناکہ بندی جاری رکھیں گے اور ماسکو کی طرف بڑھیں گے جب تک کہ دفاعی سربراہ سرگئی شوئیگو اور ویلری گیراسیموف آکر ان سے ملاقات نہ کریں۔
مقامی گورنر نے وہاں کے شہریوں پر زور دیا کہ وہ پرسکون رہیں اور گھروں کے اندر رہیں۔
مسٹر پریگوزِن نے دعویٰ کیا کہ ان کی فورسز نے ایک روسی فوجی ہیلی کاپٹر کو مار گرایا ہے جس نے ’ایک شہری قافلے پر فائرنگ کی’ تھی۔ انھوں نے اس کے متعلق زیادہ تفصیل نہیں اور ان کے اس دعوے کی فوری تصدیق نہیں ہو سکی۔
ویگنر گروپ کرائے کے فوجیوں پر مشتمل ایک نجی فوج ہے جو یوکرین میں باقاعدہ طور پر روسی فوج کے ساتھ مل کر لڑ رہی ہے۔
یوکرین کے خلاف جنگ کیسے لڑی جائے اس پر ان کے درمیان تناؤ بڑھتا جا رہا ہے، مسٹر پریگوزن نے حالیہ مہینوں میں روس کی عسکری قیادت پر شدید تنقید کی ہے۔
جمعہ کے روز 62 سالہ یوگینی پریگوزِن نے روسی فوج کی جانب سے اپنے فوجیوں پر مہلک میزائل حملہ کرنے کا الزام لگایا اور انھیں سزا دینے کا عزم کیا۔ تاہم انھوں نے شواہد فراہم نہیں کیے۔
روس کے حکام نے حملے کی تردید کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ویگنر گروپ اپنے ’غیر قانونی اقدامات‘ کو روکے۔
’انصاف کے لیے مارچ‘
مسٹر پریگوزن نے کہا کہ روس کی فوجی قیادت کی ’برائی‘ کو روکنا چاہیے اور انھوں نے ’انصاف کے لیے مارچ‘ کرنے کا عزم کیا۔
دریں اثنا کریملن مخالف ٹائیکون نے روسیوں سے ویگنر کے سربراہ کی حمایت کرنے کی اپیل کی ہے۔ کریملن مخالف شخصیت میخائل خودورکووسکی نے روسیوں پر زور دیا ہے کہ وہ ویگنر کے سربراہ یوگینی پریگوزن کی حمایت کریں جنھوں نے ماسکو کی فوجی قیادت کو گرانے کا عزم کیا ہے۔
میخائل خودورکووسکی کبھی روس کے امیر ترین اولیگارک ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہمیں ابھی ان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے اور اگر ضرورت پڑی تو ہم ان سے بھی لڑیں گے۔‘
ولادیمیر پوتن کے ساتھ نااتفاقی کے بعد انھوں نے 10 سال روسی جیل میں گزارے اور حال ہی میں انھوں نے روسی صدر کے خلاف سخت پابندیوں کا مطالبہ کیا ہے۔ خودورکووسکی نے کہا کہ اگر پریگوزن نے کریملن کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا تو ان حالات میں ’شیطان کی بھی‘ حمایت کرنا ضروری ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ تو صرف شروعات ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
ماسکو کے میئر نے اعلان کیا ہے کہ دارالحکومت میں سکیورٹی کو مضبوط بنانے کے لیے انسداد دہشت گردی کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ماسکو کے میئر سرگئی سوبیانین نے ٹیلیگرام پر لکھا کہ ’موصول ہونے والی معلومات کے پیش نظر ماسکو میں انسداد دہشت گردی کے اقدامات کیے جا رہے ہیں جس کا مقصد حفاظتی اقدامات کو مضبوط بنانا ہے۔ سڑکوں پر اضافی سکیورٹی تعینات کی جا رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے میں عوامی تقریبات کے انعقاد کو ممکنہ طور پر محدود کیا جا سکتا ہے۔ براہ کرم سمجھ بوجھ کے ساتھ اٹھائے گئے اقدامات کی اہمیت کو سمجھیں۔‘
اس سے قبل ویگنر کے سربراہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلی گرام پر پوسٹ کیے گئے ایک آڈیو پیغام میں کہا کہ ’جن لوگوں نے ہمارے جنگجوؤں کو قتل کیا، اور دسیوں ہزار روسی فوجیوں کی (یوکرین کی جنگ میں) جانیں ضائع کیں، انھیں سزا دی جائے گی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’میں آپ سے کہتا ہوں کہ (ہماری) مزاحمت نہ کریں۔ جو بھی ایسا کرے گا اسے خطرہ سمجھا جائے گا اور تباہ کر دیا جائے گا۔ یہ (تنبیہ) ہمارے راستے میں آنے والی کسی بھی چوکی اور پرواز کے لیے ہے۔ یہ فوجی بغاوت نہیں ہے، بلکہ انصاف کا مارچ ہے۔ ہمارے اقدامات فوجیوں میں کسی بھی طرح کی مداخلت نہیں ہیں۔‘
روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ترجمان نے کہا کہ روسی صدر صورتحال کے بارے میں 24 گھنٹے اپ ڈیٹس حاصل کر رہے ہیں۔
روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی تاس نے کہا کہ جمعہ کی رات سے ماسکو میں سرکاری عمارتوں اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات سمیت اہم مقامات پر سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ روس کے لیپٹسک علاقے کے گورنر بھی رہائشیوں سے جنوب کا سفر نہ کرنے کو کہہ رہے ہیں۔
لپیٹسک قریب ترین یوکرینی سرحد کے شمال مشرق میں تقریباً 280 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور روستوف سے یہ 500 کلومیٹر سے زیادہ شمال میں ہے۔
ٹیلی گرام پر لکھتے ہوئے گورنر ایگور آرٹامونوف نے کہا کہ خطے میں حفاظتی اقدامات کو سخت کیا جا رہا ہے، خاص طور پر بنیادی ڈھانچے کی اہم سہولیات کی حفاظت پر توجہ دی جا رہی ہے۔
جمعہ کو دیر سے کیے گئی ایک ٹویٹ میں یوکرین کی وزارت دفاع نے صرف اتنا لکھا کہ ’ہم صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘
ادھر اس صورتحا پر امریکی صدر کے دفتر وائٹ ہاؤس نے کہا کہ وہ صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور امریکہ اس پر اتحادیوں سے مشاورت کرے گا۔
یوکرین میں روسی افواج کے نائب سربراہ جنرل سرگئی سرووکین جن کی قیادت کی پریگوزن نے ماضی میں تعریف کی ہے انھوں نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ ’قافلوں کو روکیں اور انھیں ان کے اڈوں پر واپس بھیج دیں۔‘
انھوں نے ایک ویڈیو میں کہا کہ ’ہم ایک خون ہیں، ہم جنگجو ہیں۔ آپ کو ایسے وقت میں جو ہمارے ملک کے لیے مشکل ہو دشمن کے ہاتھوں میں نہیں کھیلنا چاہیے۔‘
ایک اور سینیئر کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ولادیمیر الیکسیف نے ویگنر کے سربراہ کے اقدامات کو ’ملک اور صدر کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے‘ کے مترادف قرار دیا۔
ویگنر گروپ کیا ہے؟
سنہ 2014 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد یہ بات سامنے آنے لگی تھی کہ پریگوزِن کوئی عام تاجر نہیں تھے بلکہ ایک پرائیویٹ ملٹری کمپنی سے ان کے منسلک ہونے کی بات سامنے آئی۔ سب سے پہلے مشرقی ڈونباس کے علاقے میں اس نجی فوج کے یوکرین کی افواج سے لڑنے کی اطلاع ملی تھی۔
اسے عام طور پر ’ویگنر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یوکرین کے علاوہ ویگنر پورے افریقہ اور دیگر علاقوں میں سرگرم تھے۔ یہ گروپ ہمیشہ ایسے کام انجام دے رہا تھا جس سے کریملن کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا سکے۔
اس وقت اس گروپ کی کمان یوگینی پریگوزن کے ہاتھوں میں ہے۔
دی جیمسٹائن فاؤنڈیشن تھنک ٹینک کے سینیئر فیلو ڈاکٹر سرگئی سکھانکن کے مطابق ویگنر گروپ کو دمتری یوٹکن نامی شخص نے بنایا تھا۔
وہ سنہ 2013 تک روسی سپیشل ملٹری سکواڈ میں شامل رہے۔
سکھانکن کہتے ہیں کہ ’ویگنر گروپ میں انھوں نے 35 سے 50 سال کی عمر کے ایسے لوگوں کو بھرتی کیا جو خاندان یا قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔ وہ زیادہ تر چھوٹے شہروں سے آتے تھے اور جن کے پاس ملازمت کے مواقع کم تھے۔ ان میں سے کچھ چیچنیا کے تنازعات میں اور کچھ روس-جارجیائی جنگجوؤں میں شامل تھے۔ انھیں جنگ کا تجربہ تھا، لیکن وہ عام زندگی میں اپنی جگہ نہیں پا سکے۔‘
سرگئی کا کہنا ہے کہ انھیں روسی ملٹری انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کے قریب ایک جگہ پر تقریباً تین ماہ تک تربیت دی گئی۔ اس سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ اس گروپ کے تار روسی فوج سے جڑے ہوئے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ اس گروپ کے جنگجوؤں کو دنیا کے کئی سورش زدہ علاقوں میں بھیجا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں روس اس کا خواہشمند تھا کیونکہ وہ چیچنیا اور افغانستان کی غلطی کو نہیں دہرانا چاہتا تھا۔ پوتن کو ڈر تھا کہ اگر غیر ملکی سرزمین پر فوجی کارروائیوں میں مزید روسی فوجی مارے گئے تو اس سے لوگوں میں غصہ بڑھ جائے گا۔‘
چیچنیا اور افغانستان میں فوجی کارروائیوں میں ہزاروں روسی فوجی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ویگنر گروپ سرکاری طور پر فوج کا حصہ نہیں تھا، اس لیے اسے مہم میں شامل کرنے سے ہلاکتوں کی تعداد کو کم رکھنے میں مدد ملی۔
سرگئی کہتے ہیں کہ ’ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ روس ان کی ذمہ داری لینے سے انکار کر سکتا تھا۔ یعنی وہ کہہ سکتا تھا کہ اسے ان جنگجوؤں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کسی دوسرے ملک میں حساس مقامات پر فوج یا نیم فوجی دستے بھیجنا مشکل ہے۔‘
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کرائے کے اس گروہ نے بربریت کے لیے خوفناک شہرت حاصل کی۔ ویگنر کے ارکان پر الزام ہے کہ انھوں نے نہ 2017 میں ایک شامی قیدی کو ہتھوڑے سے تشدد کا نشانہ بنایا، اس کا سر قلم کیا اور پھر اس کے جسم کو آگ لگا دی۔
اگلے سال وسطی افریقی جمہوریہ میں ویگنر کی موجودگی کی تحقیقات کے دوران تین روسی صحافی مارے گئے۔
2022 میں ویگنر پر ایک بار پھر ایک شخص کو اس شبہ میں ہتھوڑے سے قتل کرنے کا الزام لگایا گیا کہ اس نے یوکرین میں گروپ کو ’دھوکہ دیا‘۔
یورپی پارلیمنٹ کے ارکان کی جانب سے ویگنر کو دہشتگرد گروپ کے طور پر نامزد کرنے کا مطالبہ کرنے کے بعد، پریگوزِن نے دعوی کیا کہ انھوں نے سیاستدانوں کو خون آلود ہتھوڑا بھیجا تھا۔
برسوں تک پریگوزِن نے ویگنر سے کسی قسم کے روابط رکھنے سے انکار کیا اور یہاں تک کہ ان لوگوں پر مقدمہ بھی چلایا جنھوں نے مشورہ دیا کہ انھوں نے ایسا کیا لیکن پھر ستمبر 2022 میں پریگوزِن نے کہا کہ انھوں نے 2014 میں گروپ قائم کیا تھا۔
امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ نے ویگنر پر کئی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں لیکن اسے روس میں کام کرنے کی اجازت ہے حالانکہ وہاں کا قانون کرائے کی فوج کی سرگرمیوں پر پابندی لگاتا ہے۔
Comments are closed.