ویمپائرز: جب لوگوں کو اس طرح دفن کیا گیا کہ وہ موت کے بعد دوبارہ زندہ نہ ہوسکیں
،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, وقار مصطفیٰ
- عہدہ, صحافی، محقق
بائیں پاؤں کے بڑے انگوٹھے کو جکڑ کر گردن کے عین اوپر ایک تیز دھار درانتی پیوست کی گئی تھی کہ اگر وہ موت کے بعد پھر بھی جی اٹھے تو سر قلم ہو جائے۔
یہ منظر پولینڈ میں اس نوجوان عورت کی 400 سال پہلے کی قبر کا تھا جسے کھدائی کر کے تحقیق کرنے والوں کے خیال میں ویمپائر ہونے کے شبہ میں اس طریقے سے دفن کیا گیا ہوگا۔
اس سال اگست میں اسی قبر سے چند فٹ دور ایک بچے کے اتنے ہی پرانے ڈھانچے کا پتا لگایا گیا۔ اس کے پاؤں میں بھی لوہے کا تالا لگا تھا، بظاہر اس کی زندہ ہو کر واپسی روکنے کے لیے۔
تدفین کی ایسی مثالیں مشرقی یورپ کے اس ملک یا 17ویں صدی ہی تک محدود نہیں۔ ابتدائی قرون وسطیٰ کی ایسی قبریں سلوواکیا، ہنگری، آسٹریا اور رومانیہ میں بھی نمودار ہوئی ہیں۔
ماضی میں انسانوں کو ویپمائر، انسان دشمن مخلوق سمجھتے ہوئے یا کسی وبا سے متاثرہ افراد کو ایسے طریقوں سے دفنانے کی روایات تھیں کہ اگر وہ دوبارہ زندہ ہو بھی جائیں تو کبھی قبر سے باہر نہ نکل سکیں۔
یہ سب مختلف غلط مفروضوں، نظریات اور توہم پرستی کے ساتھ ساتھ خوف کی وجہ سے تھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
’مَرے ہیں تو مَرے ہی رہیں‘
’ویمپائر کے راز‘ نامی کتاب میں جولی لیگر اور ایلسا وائٹ نے لکھا ہے کہ پورے یورپ میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین کو تدفین کے ایسے کئی ثبوت ملے ہیں جو قرونِ وسطیٰ میں اس عقیدے کو ظاہر کرتے ہیں کہ مرنے والے افراد واپس آتے ہیں اور اسی سے ایک خوف بھی جنم لیتا ہے۔
انھوں نے لکھا کہ ’موت کو تبدیلی کا عمل جانا جاتا یعنی آپ اسی شکل میں واپس نہیں آسکتے جس میں اس دنیا سے گئے ہیں۔ اس لیے یہ یقینی بنایا جاتا کہ مرنے والے ہر قیمت پر مرے ہی رہیں۔‘
صحافی میتھیو برون واسر لکھتے ہیں کہ بلغاریہ کے قصبے سوزوپول کے ایک قبرستان میں دو قبریں ایسی تھیں کہ جن میں ڈھانچوں میں سے ایک کی پسلی میں ہل کی طرح کی کوئی چیز تھی، جبکہ دوسرے میں ایک ناقابل شناخت دھاتی چیز تھی۔
برون واسر نے سوزوپول کے ماہر آثار قدیمہ دیمتر نیدیو کے حوالے سے لکھا ہے کہ بلغاریہ میں تقریباً 100 دیگر معروف ’ویمپائر‘ تدفینیں ہیں۔
نیدیو کے مطابق ایسا نہیں کہ ان کے ماتھے پر لفظ ’ویمپائر‘ لکھا ہوا ہو یا ان کے بہت لمبے دانت ہوں۔
جولی لیگر اور ایلسا وائٹ کی تحقیق ہے کہ ’رومن ایمپائر کے دور کے آثارِ قدیمہ میں قبروں میں جلے ہوئے جوتے بھی ملے یعنی نہ جوتے ہوں گے نہ لاش بھٹکے گی۔‘
‘قرونِ وسطیٰ سے 17ویں صدی تک کے کھدائی کیے گئے کئی ڈھانچے ایسے بھی ملے جن کے منھ میں پتھر ٹھونسے گئے ہیں، ٹھوڑی کے نیچے درانتی رکھی گئی ہے، یا یہاں تک کہ کیل گڑے ہیں، اور پیٹ کے بل دفن کیے گئے ہیں۔‘
‘ایسا لگتا ہے کہ 14ویں صدی کے ابتدائی سالوں سے الٹے منھ تدفین کا رجحان چلا۔ یہ وہ وقت تھا جب تباہ کن وبائیں یورپ کا احاطہ کیے ہوئے تھیں۔ مشہور واقعات میں 16ویں صدی میں وینس کے ایک ہسپتال میں ایک طاعون زدہ عورت کی تدفین ہے جسے منھ میں اینٹ رکھ کے قبرمیں دفن کیا گیا تھا۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
سیم اوبرائن کہتے ہیں کہ تدفین سے پہلے سر قلم کیا جانا، سینوں کو داغا جانا، یا میت کے منھ میں حفاظتی سکے رکھنا ایسے دورمیں ہوتا تھا جب بڑے سانحوں، وبائی امراض اور جنگوں میں لوگ یہ فرض کر لیتے کہ یہ برائی کا زور ہے۔
1990 کی دہائی میں، گریسوالڈ، کنیکٹی کٹ کے قریب 18ویں سے 19ویں صدی کے ایک چھوٹے سے قبرستان میں ماہرین نے ایک 50 سالہ شخص کی قبر دیکھی۔ اس کے سر اور ٹانگ کے اوپری حصے کی ہڈیاں باہر رکھی گئی تھیں۔
معائنے کے بعد ماہرینِ بشریات نے طے کیا کہ اس شخص کی موت کی وجہ وہ بیماری ہے جسے اب تپ دق کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مرنے والوں کو واپس دنیا میں آنے سے روکنے کے اور بھی طریقے رائج تھے۔
صحافی عدیلہ سلیمان نے پولینڈ میں تحقیق کرنے والے ماہرین کے سربراہ ڈیریوس پولنسکی کے حوالے سے لکھا ہے کہ مرنے والوں کی واپسی روکنے کے طریقوں میں سر یا ٹانگیں کاٹنا، میت کو پیٹ کے بل دفن کرنا کہ اس کے دانت زمین میں پیوست کرنا، اسے جلانا اور پتھر سے کچل دینا شامل تھے۔
ہیدر پرنگل نے 2013 میں ایسے قدیم ڈھانچوں کی دریافت کی خبر دی جن سے پتا چلتا تھا کہ تدفین کے قدیم سلاویک طریقوں کے مطابق لاشوں کے سر کاٹ کران کی ٹانگوں پر ٹکائے گئے ہوں گے، شاید اس امید پر کہ سر قلم کیے گئے افراد اپنی قبروں سے اٹھ نہیں سکیں گے۔
مارک لالانیلا لکھتے ہیں کہ ایک اور طریقہ لاش کے گلے میں رسی ڈال کر تب تک لٹکانا تھا جب تک کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بوسیدہ جسم سر سے الگ نہ ہو جائے۔
1990 کی دہائی میں، یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے ماہر آثارِ قدیمہ ہیکٹر ولیمز اور ان کے ساتھیوں نے 19ویں صدی کے یونانی جزیرے کے ایک قبرستان میں ایک بالغ مرد کا ڈھانچہ دریافت کیا۔ اس کی گردن، کمر اور ٹخنوں میں آٹھ انچ لمبے لوہے کے کئی کیل ٹھونکے گئے تھے۔ ’تابوت تو بھاری تھا ہی۔ واضح طور پر کوئی نہیں چاہتا تھا کہ یہ آدمی قبر سے بچ نکلے۔‘
پولینسکی نے کہا کہ اگرچہ گذشتہ سال ملنے والی عورت اور اب بچے پر’ویمپائر‘ کا لیبل لگا دیا گیا ہے، ویمپائر کا جدید تصور بعد میں شروع ہوا، اور اس وقت یہ اصطلاح استعمال نہیں ہوئی تھی۔
غلط فہمیاں
پولینسکی اور ان کی ٹیم کے نتائج بتاتے ہیں کہ عورت شدید بیمار ہوئی ہو گی۔ پرنگل کے مطابق جو لوگ تپ دق جیسی متعدی بیماری کا شکار ہوتے ہیں وہ پیلے ہو جاتے ہیں، وزن کم ہو جاتا ہے، اور یوں لگتا ہے جیسے گھن سا لگا ہو۔ یہ وہ علامات ہیں جو عام طور پر ویمپائر اور ان کے شکار دونوں سے جوڑی جاتی تھیں۔
اسی لیے اب زیادہ تر ماہرینِ آثارِ قدیمہ کا خیال ہے کہ ویمپائر پر یقین تپ دق جیسی بیماریوں کے بارے میں عام غلط فہمیوں اور گلنے سڑنے کے عمل کے بارے میں علم کی کمی سے پیدا ہوا۔
عدیلہ سلیمان نے سٹیسی ایبٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ 17 ویں صدی میں ویمپائر ہونے کے الزامات اکثر ان لوگوں کے خلاف لگائے جاتے تھے جو ’معاشرے کے معیار پر پورا نہ اترتے۔‘
ایبٹ نے کہا کہ ہوسکتا ہے پولینڈ کی اس عورت کو اس کی جنس، جسمانی خرابی یا کسی ’غیر اخلاقی‘ سمجھی جانے والی سماجی بے ضابطگی کی وجہ سے الگ کیا گیا ہو۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت پورے یورپ میں ویمپائرزم کے الزامات عام تھے، خاص طور پر جہاں اب سربیا، رومانیہ، یونان اور اٹلی ہیں۔
ایبٹ کے مطابق وقت کے ساتھ جیسے جیسے ہم بدلتے ہیں ہمارے خوف بدلتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ماہر بشریات میٹیو بورینی کی تحقیق ہے کہ اٹلی کے شہر وینس میں 16ویں صدی کے طاعون میں مرنے والی خاتون کے منھ میں اینٹ ٹھونسنا قرون وسطیٰ کا ایک مشہور طریقہ تھا کہ جس سے مشتبہ ویمپائر کو زندہ لوگوں کا خون پینے کے لیے واپس آنے سے روکا جاتا۔ یہ کسی آفت، جیسے طاعون یا فصل کی تباہی، کے بعد ویمپائرزم کے الزام کا ایک عام معاملہ تھا۔
’کسی فرد پر ویمپائر ہونے کا الزام لگانا کسی غیر معمولی تباہی کے لیے قربانی کا بکرا تلاش کرنے کا ایک غیر معمولی طریقہ تھا۔‘
ویمپائرز پر یقین موت کے بارے میں توہم پرستی اور لاش کے گلنے سڑنے کے بارے میں علم کی کمی دونوں سے پیدا ہوا تھا۔
’تاریخ کی زیادہ تر ویمپائر کہانیاں ایک ہی طرز کی ہیں جہاں ایک فرد یا خاندان کسی ناخوشگوار واقعے یا بیماری سے مر جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ سائنس ایسی اموات کی وضاحت کر سکے، لوگوں نے ان کا الزام ’ویمپائر‘ پر ڈال دیا۔‘
سائنس کے کالم نگار بنجمن ریڈفورڈ لکھتے ہیں کہ مثال کے طور پر اگرچہ عام لوگ یہ فرض کر سکتے ہیں کہ کوئی جسم فوری طور پر گل جائے گا، اگر تابوت کو سردیوں میں اچھی طرح سے بند کر کے دفن کیا جاتا ہے، تو اس کے گلنے میں ہفتوں یا مہینوں کی تاخیر ہو سکتی ہے، آنتوں کے گلنے سے اپھارا پیدا ہوتا ہے جس سے خون منھ تک پہنچ سکتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے کسی مردہ جسم نے حال ہی میں خون چوس لیا ہو۔
’اس عمل کو اب ڈاکٹر بخوبی سمجھتے ہیں، لیکن قرون وسطیٰ کے یورپ میں یہ واضح نشانیوں کے طور پر لیا جاتا تھا کہ ویمپائر حقیقی تھے اور لوگوں میں موجود تھے۔‘
توہم دور کرنے اور لاشوں کے پس منظر میں سماجی عمل جاننے کے لیے پولینسکی کی ٹیم جینیاتی جانچ کر رہی ہے۔ ہوسکتا ہے تب کے سماجی تناؤ کے وقت میں کوئی بھی ایسا تغیران رسومات کے پیچھے خوف کا باعث بنا ہو۔
سیم اوبرائن لکھتے ہیں کہ پولینسکی تحقیق تو کر رہے ہیں مگر وہ یہ جانتے ہیں کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ عورت اور بچے کے بارے میں کوئی غیر معمولی بات نہ ہو۔
وہ کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ پولینڈ کے دیہاتیوں کو کسی شخص کو مافوق الفطرت خطرہ قرار دینے کے لیے بڑی وجہ کی زیادہ ضرورت نہ ہو۔ بعض اوقات رنجش یا شاید قربانی کا بکرا بنانا ہی کافی ہو۔
’ہوسکتا ہے کہ وجہ اتنی ہی سادہ ہو جیسے کہ پڑوسیوں کے درمیان جھگڑا۔‘
Comments are closed.