ویتنام کے سب سے بڑے بینک فراڈ میں سزائے موت پانے والی ارب پتی پراپرٹی ٹائیکون کون ہیں؟،تصویر کا ذریعہEPA

  • مصنف, جوناتھن ہیڈ اور تھو بوئی
  • عہدہ, بینکاک
  • 11 اپريل 2024، 13:25 PKTاپ ڈیٹ کی گئی 8 منٹ قبل

یہ ویتنام کی تاریخ کا سب سے مشہور مقدمہ ہے جو دنیا کے ایک بہت بڑے بینک فراڈ کے شایان شان بھی ہے۔اس مقدمے کے اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں۔ 67 سالہ ٹرونگ مائی لان پر سائیگون کمرشل بینک سے 44 ارب ڈالر کے قرضے لینے کا الزام تھا۔ استغاثہ کا دعوی ہے کہ ان میں سے 27 ارب ڈالر کی واپسی کا امکان بہت کم ہے۔ٹرونگ مائی لان نے ویتنام کے سب سے بڑے بینک کو 11 سال کے دورانیے میں لوٹا اور اس جرم میں اب ان کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔عام طور پر ویتنام کی کمیونسٹ حکومت بہت رزاداری سے کام لیتی ہے تاہم اس معاملے میں انھوں نے حقائق کو میڈیا کے سامنے لانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔

حکام کے مطابق 2700 افراد کو گواہی کے لیے طلب کیا گیا۔ اس مقدمے میں 10 سرکاری وکیل اور مجموعی طور پر تقریباً 200 وکلا اس مقدمے کا حصہ بنے۔ویتنام میں طویل تجربہ رکھنے والے سابق امریکی محکمہ خارجہ کے اہلکار ڈیوڈ براون کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں کمیونسٹ دور میں ایسا کوئی مقدمہ نہیں ہوا جو اتنے بڑے پیمانے پر ہوا ہو۔‘یہ مقدمہ ویتنام کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل نگوئین فو ٹرونگ کی کرپشن کیخلاف مہم کا اب تک کا سب سے ڈرامائی باب ہے۔مارکسی نظریات پر یقین رکھنے والے قدامت پسند نگوئین فو ٹرونگ کا ماننا ہے کہ بے قابو کرپشن کیخلاف عوامی غصہ اقتدار پر کمیونسٹ جماعت کی گرفت کے لیے خطرہ ہے۔ انھوں نے 2016 میں اس مہم کا آغاز اس وقت کیا تھا جب وہ کاروبار دوست وزیر اعظم کو ہٹا کر جماعت کے اعلی عہدے پر براجمان ہوئے تھے۔اس مہم کے دوران دو صدور اور دو نائب وزرائے اعظم مستعفی ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں سرکاری اہلکار معطل یا قید ہوئے ہیں۔ اب ملک کی سب سے امیر خاتون بھی ان کے ساتھ شامل ہو سکتی ہیں۔ٹرونگ مائی لان شہر سائیگون (جو اب ہو چی منہ شہر ہے) کے ایک پرانے چینی ویتنامی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ شہر ویتنام کی معیشت کا اس وقت سے کمرشل انجن ہے جب جنوبی ویتنام کا حصہ ہوتے ہوئے یہ کمیونسٹ مخالف قوتوں کا گڑھ ہوا کرتا تھا اور یہاں ایک بڑی چینی آبادی ہوا کرتی تھی۔ٹرونگ نے اپنی کاروباری زندگی کا آغاز ایک چھوٹے سے کام سے کیا۔ وہ اپنی والدہ کے ساتھ بازار میں کاسمیٹکس بیچا کرتی تھیں۔ پھر انھوں نے کمیونسٹ جماعت کی جانب سے معاشی اصلاحات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زمینیں اور پراپرٹی خریدنا شروع کر دیں۔ 1990 تک وہ لاتعداد ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کی مالک بن چکی تھیں۔اگرچہ ویتنام دنیا میں چین کے متبادل اپنی مینوفیکچرنگ کی وجہ سے مشہور ہوا، زیادہ تر شہریوں نے پراپرٹی سے پیسہ کمایا۔ سرکاری طور پر تمام زمین حکومت کی ملکیت ہے اور اس تک رسائی سرکاری اہلکاروں سے روابط پر منحصر ہوتی ہے۔ جیسے جیسے معیشت ترقی کرتی گئی، کرپشن بھی بڑھتی چلی گئی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنمارکسی نظریات پر یقین رکھنے والے قدامت پسند نگوئین فو ٹرونگ کا ماننا ہے کہ بے قابو کرپشن کیخلاف عوامی غصہ اقتدار پر کمیونسٹ جماعت کی گرفت کے لیے خطرہ ہے
2011 تک، ٹرونگ مائی لان ہو چی منہ شہر کی ایک معروف کاروباری شخصیت بن چکی تھیں اور ان کو معاشی بدحالی کا سامنا کرنے والے تین چھوٹے بینکوں کو ایک بڑے بینک کی شکل میں اکھٹا کرنے کی اجازت ملی جو سائیگون کمرشل بینک بن گیا۔ویتنامی قوانین کسی فرد کو کسی ایک بینک کے پانچ فیصد سے زیادہ حصص کی ملکیت رکھنے کی ممانعت کرتے ہیں۔ تاہم استغاثہ کے مطابق سینکڑوں جعلی کمپنیوں اور افراد کی مدد سے ٹرونگ مائی لان اس بینک کے 90 فیصد سے زیادہ حصص کی مالک بن گئیں۔استغاثہ کا الزام ہے کہ اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ٹرونگ نے مرضی کے لوگوں کو مینیجر کے عہدوں پر تعینات کیا اور پھر انھیں حکم دیا کہ وہ ان کی کنٹرول کردہ کمپنیوں کے نام پر سینکڑوں کی تعداد میں قرضے جاری کریں۔ قرضوں کا حجم حیران کن ہے اور ٹرونگ کا قرض بینک کی جانب سے جاری کردہ تمام رقوم کا 90 فیصد بنتا ہے۔استغاثہ کے مطابق فروری 2019 کے بعد تین سال تک انھوں نے اپنے ڈرائیور کے ذریعے بینک سے چار ارب ڈالر کی رقم نکلوائی جسے ایک تہہ خانے میں محفوظ رکھا گیا۔ اس رقم کا مجموعی وزن دو ٹن بنتا ہے۔ٹرونگ پر یہ الزام بھی ہے کہ انھوں نے اپنے قرضوں کی جانچ پڑتال نہ ہونے کے لیے رشوت دی۔ بینک کے ایک سابق چیف انسپکٹر کو پانچ ملین ڈالر رشوت لینے کے الزام میں اس مقدمہ میں شامل کیا گیا ہے جن کو الزام ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔سرکاری طور پر اس مقدمے کی تشہیر کی وجہ سے کرپشن کے خلاف عوامی غصے کو ٹرونگ مائی لان کا چہرہ مل گیا ہے۔ عدالت میں پیشی کے دوران ٹرونگ کا حلیہ ماضی میں ان کی شاندار تصاویر سے بہت مختلف نظر آتا ہے۔لیکن یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اتنے طویل عرصے تک ٹرونگ باآسانی مبینہ طور پر اتنا برا فراڈ کیسے کرتی رہیں؟سنگا پور کے یوسف اسحاق انسٹیٹیوٹ میں ویتنامی سٹڈیز پروگرام چلانے والے لی ہونگ کہتے ہیں کہ ’میں کافی حیران ہوں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کوئی راز نہیں تھا۔ سب جانتے تھے کہ ٹرونگ مائی لان اور ان کا گروپ سائیگون کمرشل بینک کو سب سے اچھے مقامات پر واقع زمینیں اور پراپرٹی حاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔‘’یہ بھی واضح تھا کہ ان کو کہیں سے تو پیسہ حاصل کرنا تھا لیکن یہ طریقہ بھی بہت عام ہے۔ سائیگون کمرشل بینک واحد بینک نہیں جو اس طرح سے استعمال ہو رہا ہے۔ شاید حکومت اس وجہ سے نظر نہیں رکھ پائی کیوں کہ ایسے بہت سے کیسز ہیں۔‘ڈیوڈ براؤن کا ماننا ہے کہ ٹرونگ کو طاقتور شخصیات کا تحفظ حاصل تھا جو دہائیوں سے ہو چی منہ شہر میں کاروبار اور سیاست پر حاوی رہے ہیں۔ جس طریقے سے اس مقدمہ کو چلایا جا رہا ہے، اس میں ڈیوڈ ایک اور زاویہ بھی دیکھتے ہیں؛ ملک کے جنوب میں کاروباری کلچر پر کمیونسٹ جماعت کا اثر ورسوخ طاری کرنے کی کوشش۔وہ کہتے ہیں کہ ’نگوئین فو ٹرونگ اور ان کے اتحادیوں کی کوشش ہے کہ سائیگون پر دوبارہ اپنا کنٹرول قائم کریں یا کم از کم اسے اپنے کنٹرول سے باہر نکلنے سے روکیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ 2016 تک کمیونسٹ جماعت نے ’چینی ویتنامی مافیا کو اس شہر کے کاروبار پر کنٹرول رکھنے دیا۔ کمیونسٹ جماعت کے مقامی رہنما کسی حد تک اس بارے میں تنقید ضرور کرتے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اپنا حصہ بھی وصول کر رہے تھے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesجماعت کے سربراہ نگوئین فو ٹرونگ 79 سال کی عمر میں خرابی صحت کا سامنا کر رہے ہیں اور 2026 میں ہر حال میں ان کو ریٹائر ہو جانا ہے جب کمیونسٹ پارٹی کانگریس ایک نیا رہنما چنے گی۔وہ ویتنام میں کمیونسٹ جماعت کے سب سے طویل عرصہ تک سیکرٹری جنرل رہے ہیں جن کے زیراثر دورپا نتائج کے حامل فیصلے لیے گئے۔ ان میں سے سب سے اہم شاید جماعت کے قدامت پسند گروہ کی جانب سے اپنا اثرورسوخ پھیلانے کا قدم تھا جو 1980 کی اصلاحات کے بعد نہیں دیکھا گیا۔ واضح طور پر وہ ملکی سیاسی طاقت پر اپنی جماعت کا اثرورسوخ کھوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔تاہم وہ ایک تضاد میں بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کی جماعت نے 2045 تک ملک کو امیر ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کا ہدف رکھا ہوا ہے جس کی بنیاد ٹیکنالوجی اور علم پر مبنی معیشت ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ویتنام امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کر رہا ہے۔اس کے باوجود تیز تر ترقی نے کرپشن کو بھی جنم دیا۔ اگر اس کرپشن سے زیادہ لڑائی کی گئی تو معاشی ترقی سست روی کا شکار ہو سکتی ہے۔ پہلے ہی ایسی شکایات سامنے آ رہی ہیں کہ بیوروکریسی سست ہو چکی ہے کیونکہ افسران ایسے فیصلوں سے ہچکچا رہے ہیں جن کے باعث ان پر کرپشن کے الزامات لگ سکیں۔لی ہونگ ہائپ کا کہنا ہے کہ ’ویتنام کی معاشی ترقی کا ماڈل کرپشن پر انحصار کرتا رہا ہے۔ یہی وہ تیل ہے جو مشینری سے کام کرواتا ہے۔ اگر اس تیل کو روک دیا گیا تو شاید چیزیں کام کرنا بند کر دیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}