- مصنف, ایتھاریا پرونگیائم
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
- ایک گھنٹہ قبل
امریکہ نے ویتنام جنگ کے دوران شمالی ویتنام پر بمباری کے لیے تھائی ایئر بیس کا استعمال کیا تھا۔ اس وقت ہزاروں امریکی فوجی تھائی لینڈ میں مقیم تھے۔ اس دوران انھوں نے مقامی خواتین کے ساتھ رشتے بنائے اور ان سے بچے پیدا ہوئے۔ لیکن زیادہ تر فوجی جنگ کے بعد واپس امریکہ چلے گئے۔ ان بچوں میں سے کچھ پچاس سال بعد نئے ڈی این اے ٹیسٹ کی وجہ سے اپنے اصل والدین کے ساتھ دوبارہ مل رہے ہیں۔جینی سٹوبر سنہ 1970 میں ایک نوجوان تھائی خاتون کے ہاں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی والدہ اس وقت بینکاک سے کوئی 140 کلومیٹر جنوب مشرق میں یو-تاپاؤ ایئر بیس کے قریب کہیں قیام پذیر تھیں۔جینی اپنی آپ بیتی بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ولادت کے بعد ’میری ماں مجھے نہیں رکھ سکی۔ انھوں نے مجھے اپنی ایک دوست کو دے دیا لیکن وہ بھی مجھے نہیں پال سکیں۔‘لہٰذا جینی کو ’جنگ کے پیدا ہونے والے ان چاہے بچوں‘ کی امداد کرنے والی بین الاقوامی تنظیم پرل ایس بک فاؤنڈیشن کے حوالے کر دیا گیا۔
،تصویر کا ذریعہJenny St ber
جنگ اور سیکس ٹورزم
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ٹی وی پر اپیل
جینی اسٹوبر کی پیدائش سے چند سال قبل ایک ایسے ہی واقعے میں مورس کے پلے رابرٹس کو بھی گود لیا گیا تھا۔ وہ بھی ایک امریکی فوجی کے تھائی خاتون سے تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے۔رابرٹس کی ماں نے اپنے بچے کو عالمی تنظیم پرل ایس بک کے حوالے کیا۔ یہ وہی فاؤنڈیشن تھی جس نے جینی کو گود لینے میں سوئس خاندان کی مدد کی تھی۔فاؤنڈیشن کے تخمینے کے مطابق 1968 تک وہاں ’2000 سے زیادہ‘ ایسے بچھے تھے جو نیم تھائی اور نیم امریکی تھے اور ان کے حیاتیاتی باپ جنگ کے دوران تھائی لینڈ میں تعینات امریکی اہلکار تھے۔یہاں تک کہ ایسے بچوں کے لیے ’امریکن‘ کی اصطلاح گڑھ لی گئی تھی۔ یعنی مشرقی یا جنوب مشرقی ایشیاء میں پیدا ہونے والوں بچوں کو ’امریکن‘ کہا جانے لگا جن کی ماں مقامی اور بات امریکی فوجی تھے۔فاؤنڈیشن نے بی بی سی کو بتایا کہ جنگ کے بعد امریکہ واپس جانے والے فوجیوں میں سے صرف پانچ فیصد نے تھائی لینڈ میں اپنے بچوں کو مالی مدد فراہم کی اور جن لوگوں نے ابتدا میں ایسا کیا ان میں سے بھی اکثریت نے ایک سال بعد مالی اعانت بند کر دی۔،تصویر کا ذریعہMorris K Ple Roberts
’کرایے کی بیویاں‘
لو، منی آبلیگیشن: ٹرانس نیشنل میرج ان اے نارتھ ایسٹرن تھائی ولیج یعنی ’محبت، پیسہ، ذمہ داری: شمال مشرقی تھائی گاؤں میں ملک سے باہر کی شادیاں‘ نامی کتاب کی مصنفہ پیٹچارن لاپانن بتاتی ہیں کہ تھائی خواتین اور امریکی فوجی مردوں کے درمیان پیچیدہ تعلقات تھے۔مصنف کا کہنا ہے کہ کچھ معاملات میں ’وہ چند ماہ تک ایک جوڑے کے طور پر ساتھ رہتے اور ان کا رشتہ اس وقت تک قائم رہتا جب تک کہ انھیں جنگی محاذ پر یا امریکہ واپس نہیں بھیج دیا جاتا تھا۔‘تھائی معاشرے میں کچھ لوگوں نے ان خواتین کو ’کرائے کی بیویوں‘ کے طور پر دیکھا۔مورس کی والدہ ان کی پہلی ملاقات کے تقریبا دس سال بعد فوت کر گئیں تو ٹی وی پریزینٹر نے سوچا کہ یہ ان کے حیاتیاتی والد سے ملنے کی ان کی جستجو کا خاتمہ ہے۔لیکن برسوں بعد انھوں نے ایک امریکی کمپنی میں ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا۔ وہ کمپنی کسی کے آباؤ اجداد کا پتہ لگانے کی پیشکش کرتی ہے۔نتائج سامنے آئے اور آخر کار ان کے ایک کزن کی شناخت ہوئی۔ انھوں نے اپنے کزن سے یہ پوچھنے کے لیے رابطہ کیا کہ آیا ان کے خاندان کا کوئی فرد سنہ 1964 اور 1966 کے درمیان تھائی لینڈ میں رہا تھا۔ان کے خاندان کا ایک شخص ایسا تھا اور ان کا نام عیسائیہ رابرٹس تھا۔ سنہ 2019 میں ان کے کزن نے مورس اور رابرٹس کے درمیان پہلی ویڈیو کال کا بندوبست کرنے میں مدد کی۔ رابرٹس کے تین دوسرے بڑے بچے ہیں۔کووڈ وبا کی وجہ سے کئی سال کی تاخیر کے بعد بالآخر مورس سنہ 2022 میں پہلی بار اپنے 85 سالہ والد سے ملنے الاباما پہنچے۔ڈی این اے ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ ان کا 99.6 فیصد جینیاتی میل تھا۔ مورس کہتے ہیں کہ ’میرے والد نے کہا کہ ہمیں مزید ڈی این اے ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہے، ان کا ڈی این اے میرے چہرے پر موجود ہے۔‘رابرٹس نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ’میں جانتا ہوں کہ وہ ممکنہ طور پر میرا خون ہے کیونکہ میرا اس کی ماں کے ساتھ رشتہ تھا۔ میں اسے مسترد نہیں کروں گا۔ میں اسے قبول کرتا ہوں اور ذمہ داری لیتا ہوں۔‘رواں سال کے اوائل میں مورس نے تھائی لینڈ میں اپنا ٹی وی کریئر چھوڑ دیا اور اپنے والد کے ساتھ رہنے کے لیے امریکہ چلے گئے۔ وہ اپنی نئی زندگی کی ویڈیوز آن لائن شیئر کرتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
نام کا بھی پتا نہیں
جینی اسٹوبر مورس کی اپنے والد کو گلے لگاتے ہوئے ویڈیوز دیکھتی ہے اور اس کی آنکھیں چھلک آتی ہیں۔انھوں نے بھی سنہ 2022 میں ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے اپنے والد کا پتا چلا لیا ہے لیکن وہ ابھی تک نہیں ان سے نہیں ملی ہیں۔ اب ان کے والد 78 سال کے ہیں۔ وہ امریکی جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ وہ خطوط اور تصاویر کا تبادلہ کرتے ہیں اور انھیں یقین ہے کہ وہ واقعی ان کی بیٹی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں نے ان سے پوچھا کہ میری ماں کون ہے تو وہ کہتے ہیں وہ ان کا پورا نام نہیں جانتے۔‘(اور اس کے ساتھ ہی) وہ دروازہ جو مجھے میری ماں تک لے جا سکتا تھا، بند ہو گیا ہے۔‘اپنے خطوط میں جینی کے والد نے یاد کیا کہ ان کی ماں یو-تاپاو ایئر بیس کے باہر کھانے کے سٹال پر کام کرتی تھیں۔ جب وہ تھائی لینڈ میں تعینات تھے تو وہ تقریباً 10 ماہ تک ایک دوسرے سے ملتے رہے۔’پھر میرے والد کو 1970 میں امریکہ واپس بلایا گیا کیونکہ فوج ان کے چھوٹے بھائی کو سائگون بھیجنا چاہتی تھی اور (امریکی فوج میں) ایک اصول تھا کہ ایک ہی خاندان سے ایک سے زیادہ فوجیوں کو بیک وقت ملک سے باہر تعینات نہیں کیا جا سکتا تھا۔‘انھں کبھی پتہ نہیں چلا کہ فوڈ سٹال پر کام کرنے والی تھائی خاتون حاملہ تھی۔جینی اپنے والد کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ کبھی میری ماں کا پورا نام نہیں جان سکے۔ انھیں افسوس ہے کہ انھوں نے کبھی نہیں پوچھا۔‘ان کے والد نے بعد میں شادی کر لی اور ان کی طلاق بھی ہو گئی ہے اور ان کے دو بالغ بچے ہیں۔،تصویر کا ذریعہJenny St ber
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.