اس کے باوجود بھی کرشنا کی رہائی ممکن نہ ہو سکی۔ سٹافورڈ نے برطانوی اخبار دی گارڈین کو بتایا کہ عدالت نے یہ تسلیم کیا کہ کرشنا کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد موجود ہیں، مگر یہ ان کی رہائی کے لیے کافی ثابت نہ ہو سکے۔‘اب کرشنا کی اہلیہ ماریتا اور وکیل ان کی لاش کو ان کے آبائی ملک بھیجنے کے انتظامات کر رہے ہیں۔،تصویر کا ذریعہReuters
میامی میں قتل
16 اکتوبر 1986 کو جمیکا نژاد ڈیرک مو یونگ اور ان کے بیٹے ڈوآن میامی کے ڈوپونٹ پلازہ ہوٹل کے ایک کمرے میں مردہ پائے گئے۔ دونوں کی لاشوں پر گولیوں کے نشانات تھے۔ اس دوہرے قتل کی تفتیش کا آغاز ہوا اور پھر اس کے نتیجے میں عدالت نے ملزم کرشنا مہاراج پر صرف واحد گواہ کی دی گئی گواہی کی بنیاد پر فرد جرم عائد کر دی۔کرشنا مہاراج ہندوستانی نژاد برطانوی تاجر تھے جو کیلے کی درآمد کے کاروبار سے کروڑ پتی بن چکے تھے، کا مو ینگ کے ساتھ کاروباری تنازع تھا۔پولیس کی معلومات کے مطابق کرشنا مہاراج نے ہوٹل کے ایک کمرے میں مو یونگ سے ملاقات کی تھی۔ عدالت میں گواہ نے بتایا کہ دراصل ہوٹل کے کمرے کے اندر کرشنا نے ہی باپ بیٹے پر گولیاں برسائیں۔ یہ دوہرا قتل لین دین کے تنازع پر ہوا۔ مبینہ طور پر مو یونگ سے کرشنا کی ٹرینیداد جزیرے پر کرشنا کے کچھ رشتہ داروں سے دھوکہ دہی سے پیسے لینے کے معاملے پر تلخی ہوئی۔ وہ ان سے ان پیسوں کی واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
کرشنا کو گرفتار کر لیا گیا اور ان پر دوہرے قتل کا الزام لگایا گیا اور صرف ایک سال سے کم عرصے میں اسے دوہرے قتل کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی۔کرشنا نے 2019 کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’میں وہاں نہیں تھا۔ کم از کم چھ لوگوں نے بتایا کہ اس دن میں ہوٹل سے 30 کلومیٹر سے زیادہ دور کسی اور مقام پر موجود تھا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ انھوں نے مجھے مجرم قرار دیا ہے۔‘انھوں نے یہ جملہ ایک بار پھر دہرایا کہ ’میں بے قصور ہوں۔‘چھ سال تک اپنی بے گناہی ثابت کرنے اور سزائے موت سے بچنے کی کوششوں کے باوجود کرشنا کو کوئی کامیابی نہ مل سکی۔ سنہ 1993 تک سٹافورڈ، جو انسانی حقوق کے وکیل کے طور پر کام کر رہے تھے انھوں نے یہ مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔
میڈیلن پوسٹر
سٹافورڈ نے پہلا کام یہ کیا کہ موت کی سزا کو عمر قید میں بدلنے کے لیے اپیل دائر کی جس میں وہ 2002 میں کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد انھوں نے کرشنا مہاراج کی بے گناہی ثابت کرنے پر توجہ مرکوز کر دی۔ یہ جرم 1980 کی دہائی میں میامی میں منشیات کی سمگلنگ کے عروج کے دنوں میں ہوا۔ جب کولمبیا کے مجرمانہ گروہ اور کیوبا کے منشیات فروشوں کے درمیان کاروبار کے تسلط کے لیے ایک خفیہ جنگ جاری تھی۔سٹافورڈ کو شواہد ملے کہ مو یونگ منشیات کے سمگلروں کے لیے ایک مشہور فرنٹ مین تھا اور ان کا قتل ’میڈلین کارٹیل‘ کے ارکان نے کیا۔بنیادی طور پر اس کی منظوری پابلو ایسکوبار نے دی تھی اور پھر اس کے حواریوں نے یہ قتل کیا۔سٹافورڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کرشنا کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے میں نے کارٹیل کے سابق ممبران سے ملاقات کی کوشش کی۔‘کئی سالوں تک انھوں نے کرشنا کے لیے ایک نیا مقدمہ چلانے کا راستہ تلاش کیا، جمع کیے گئے تمام شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے جو اس بات کی نشاندہی کرتے تھے کہ مو یونگ کو قتل کرنے میں دلچسپی رکھنے والے اور بھی لوگ تھے اور سب سے بڑھ کر، وہ چھ شہادتیں جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ وہ جائے وقوعہ سے بہت دور تھے۔تاہم جب معافی کے لیے کوئی درخواست آتی یا اپیل کی کوشش کی جاتی تو اس میں کامیابی نہ ملتی۔سٹافورڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ وفاقی حکومت ایک بے گناہ کی رہائی کے ثبوت کو سننے کے لیے تیار نہیں تھی۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
پوپائی
نومبر 2017 میں ڈی ای اے کے ایک سابق ایجنٹ نے عدالت کو بتایا کہ پابلو ایسکوبار سے وابستہ لوگ قتل کے دن ڈوپونٹ پلازہ ہوٹل کے ایک کمرے میں ٹھہرے تھے۔سابق ایجنٹ کے بیان کے مطابق ایسکوبار نے مو یونگ کے قتل کا حکم دیا تھا کیونکہ وہ کارٹیل کو حصہ نہیں پہنچا رہے تھے اور منی لانڈرنگ کے ذریعے قانونی حیثیت حاصل کرنے میں مدد کی تھی۔انھوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ یہ معلومات جون جیرو ولاسکوز سے حاصل کی گئی تھیں، جنھوں نے پوپائی کے کردار سے شہرت حاصل کی۔ انھوں نے اگست 2014 میں 23 سال قید کی سزا کاٹ کر دوبارہ آزادی حاصل کی تھی۔پوپائی ایسکوبار کے اہم ساتھیوں میں سے ایک تھے اور سابق ایجنٹ کی گواہی کے مطابق وہ ایسا ’اپنے ضمیر کو مطمن کرنے‘ اور یہ ظاہر کرنا کے لیے کر رہے تھے کہ کرشنا بے گنا ہیں۔اس کے بعد کرشنا کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے سٹافورڈ نے سر توڑ کی بازی لگائی مگر اس دوران کرشنا کی موت واقع ہو گئی۔ اب سٹافورڈ نے دی گارڈین کو بتایا کہ میں اسے اپنی بڑی ناکامیوں میں سے ایک کے طور پر دیکھتا ہوں۔‘ان کے مطابق وہ تصور نہیں کر سکتے تھے کہ ایک ایسے ناکردہ جرم میں کیسے کرشنا جیل میں رہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.