’جنسی ہیجان‘ کا شکار ڈولفن جو اپنی ’تنہائی‘ کا غصہ لوگوں پر حملہ کر کے اتار رہی ہے،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, کیلی این جی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 48 منٹ قبل

جاپان میں سمندر کے کنارے واقع ایک قصبے میں تیراکوں پر حملوں میں اضافے کا ذمہ دار ایک تنہا اور ممکنہ طور پر جنسی ہیجان کی شکار ڈولفن کو ٹھہرایا گیا ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ باٹل نوز ڈولفن رواں سال اب تک میہاما قصبے کے قریب ہونے والے 18 حملوں میں ملوث ہے۔ان حملوں میں سے ایک میں پرائمری سکول کے ایک بچے کی انگلی پر کم از کم 20 ٹانکے لگانے پڑے تھے۔گذشتہ سال ہونے والے حملوں میں کم از کم چھ افراد زخمی ہوئے تھے جبکہ ایک تیراک کی پسلیاں بھی ٹوٹ گئی تھیں۔

سنہ 2022 کے حملے میں ایک اور شخص زخمی ہوا تھا جس کے بعد حکام نے متنبہ کیا ہے کہ یہ ممالیہ جانور نہ صرف آپ کو اپنے تیز دانتوں سے کاٹ سکتے ہیں جس سے خون بہہ سکتا ہے بلکہ وہ ’آپ کو سمندر میں گھسیٹ سکتے ہیں جو جان لیوا ہوسکتا ہے۔‘اگرچہ ڈولفن کی شہرت انسان دوست جانور کی ہے تاہم اس کے حملے مہلک ہوسکتے ہیں۔سنہ 1994 میں برازیل میں ایک ڈولفن نے دو مرد تیراکوں پر حملہ کیا تھا جنھوں نے اس پر سوار ہونے کی کوشش کی تھی جس کے نتیجے میں ایک ہلاک اور دوسرا زخمی ہو گیا تھا۔خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تنہا ڈولفن جسے ٹیاؤ کا نام دیا گیا ہے اس سے پہلے کم از کم 22 افراد کو زخمی کر چکی ہے۔جاپان کی می یونیورسٹی میں سیٹولوجی کے پروفیسر تادمچی موریساکا کا کہنا ہے کہ مہاما کے قریب واقع ساحلی شہر سوروگا کے ساحل پرجس ڈولفن کو ایک شخص کی انگلیاں کاٹتے ہوئے دیکھا گیا تھا اس کا ڈورسل فِن گذشتہ سال فوکوئی صوبے کے ساحل پر دیکھی جانے والی 2.5 میٹر لمبی ڈولفن سے مماثلت رکھتا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesڈورسل فِن ڈولفن کے فنگر پرنٹ کی طرح ہوتا ہے کیونکہ ہر ایک میں الگ الگ ہیئت، لکیریں اور رنگت ہوتی ہے۔پروفیسر موریساکا نے این ایچ کے کو بتایا ’یہ سمجھنا غلط نہیں کہ یہ ایک ہی ڈولفن ہے کیونکہ اس کی دم پر پر زخم پچھلے سال ساحل پر دیکھی گئی ڈولفن سے ملتے جلتے ہیں اور ڈولفن جو عام طور پر گروپوں میں گھومتی ہیں ان کا اتنے لمبے وقت تک اکیلے رہنا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ نر بوٹل نوز ڈولفن ’ایک دوسرے کو کاٹ کر‘ بات چیت کرتے ہیں۔انھوں نے کہا ’وہ لوگوں کو زخمی کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں لیکن ڈولفن کے لوگوں کے ساتھ رابطے کا طریقہ استعمال کر رہے ہیں۔‘کچھ لوگوں نے ان حملوں کے پیچھے ایک ہی ڈولفن کے ہونے کے حوالے سے مختلف نظریات پیش کیے ہیں جن میں سے ایک جنسی خواہش بھی ہے۔شارک بے ڈولفن ریسرچ پروجیکٹ کے ماہرِ حیاتیات اور پرنسپل تحقیق کار ڈاکٹر سائمن ایلن کا کہنا ہے کہ ’بوٹل نوز ڈولفن انتہائی سوشل جانور ہیں اور وہ اپنی سماجی فطرت کا اظہار بہت جسمانی طریقوں سے کرتے ہیں۔‘’انسانوں اور دیگر سماجی جانوروں کی طرح ہارمونل اتار چڑھاؤ، جنسی مایوسی یا غلبہ حاصل کرنے کی خواہش ڈولفن کو ان لوگوں کو زخمی کرنے پر مجبور کر سکتی ہے جن کے ساتھ وہ رابطے میں آتی ہیں۔ چونکہ وہ کافی طاقتور جانور ہیں، اس لیے اس سے انسانوں کو شدید چوٹ لگ سکتی ہے۔‘ڈاکٹر ایلن کا مزید کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ ڈولفن کو اپنی ہی کمیونٹی سے نکال دیا گیا ہو اور وہ متبادل صحبت کی تلاش میں ہو۔

نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے سمندری ممالیہ جانوروں کے ماہر ڈاکٹر میتھیاس ہوفمین کوہنٹ کا کہنا ہے کہ ڈولفن اپنے دفاع میں بھی کام کر سکتی ہے۔انھوں نے ان معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’میرے تجربے کے مطابق زیادہ تر وقت یہ ایک دفاعی رویّہ ہوتا ہے جب انسان ان ڈولفنز کے قریب پہنچ جاتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ کیسا رویّہ رکھنا ہے۔‘انھوں نے ان معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’میرے تجربے کے مطابق زیادہ تر یہ ایک دفاعی رویہ ہوتا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ جانور پانی میں انسانوں کے خلاف جارحانہ یا کم از کم دفاعی رویّہ اختیار کر لیتے ہیں۔ڈاکٹر ہوفمین کوہنٹ نے کہا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ڈولفن کا پہلے کسی انسان کے ساتھ برا سامنا ہوا ہو اور اب وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ اس برے تعلق کا اظہار کرتی ہے۔انھوں نے کہا ’ان کی یادداشت اچھی ہے۔ وہ ہاتھی کی طرح یاد رکھتی ہیں کہ پہلے کِس نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی تھی۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}