وہ چار معمے جو ٹائٹینک ڈوبنے کے 111 سال بعد بھی موجود ہیں

ٹائٹینک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ایڈیسن ویگا
  • عہدہ, برازیل سے بی بی سی نیوز

آج سے ٹھیک 111 سال قبل ٹائٹینک ایک اندھیری رات میں ایک برفانی تودے (آئس برگ) سے ٹکرا گیا تھا۔ اس وقت جہاز پر سوار زیادہ تر مسافر نیند کی آغوش میں تھے۔

حادثے کے وقت ٹائٹینک 41 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے انگلینڈ کے شہر ساؤتھمپٹن سے امریکہ کے شہر نیویارک کی طرف بڑھ رہا تھا اور صرف تین گھنٹے کے اندر 14 اور 15 اپریل 1912 کی درمیانی رات ٹائٹینک بحر اوقیانوس میں ڈوب گیا تھا۔

وہ جہاز جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کبھی نہیں ڈوبے گا، نہ صرف چند گھنٹوں میں سمندر میں غرق ہو گیا بلکہ اس حادثے میں 1500 کے قریب افراد بھی ہلاک ہوئے تھے۔

111 سال بعد بھی اسے سب سے بڑا سمندری حادثہ سمجھا جاتا ہے۔ ستمبر 1985 میں اس جہاز کی باقیات کو بحر اوقیانوس میں جائے حادثہ سے ہٹا دیا گیا تھا۔

حادثے کے بعد یہ بحری جہاز کینیڈا سے 650 کلومیٹر کے فاصلے پر 3,843 میٹر کی گہرائی میں دو حصوں میں بٹ گیا اور دونوں حصے ایک دوسرے سے 800 میٹر کے فاصلے پر تھے۔

111 سال گزرنے کے بعد بھی اس حادثے کے بارے میں معمے موجود ہیں، بی بی سی نیوز برازیل نے کچھ ماہرین سے بات کر کے ان رازوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔

1. ’یہ جہاز کبھی ڈوب نہیں سکتا‘

اس بڑے بحری جہاز کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ’یہ ڈوب نہیں سکتا، خدا بھی اسے نہیں ڈبو سکتا۔‘ اس یقین کی کچھ وجوہات بھی تھیں۔

فیڈرل یونیورسٹی آف ریو ڈی جنیرو کے شعبہ بحریہ اور اوشن انجینئرنگ کے پروفیسر اور انجینئر الیگزینڈر ڈی پنہو الہو کہتے ہیں کہ ’انجینئرنگ کے لحاظ سے یہ ڈیزائن کی بنیاد پر تیار کردہ پہلا جہاز تھا۔ کئی واٹر ٹائٹ کمپارٹمنٹس بنائے گئے تھے یعنی جہاز کا ایک کمرہ پانی سے بھر جائے تو دوسرے کمرے کو غرق نہیں کر سکتا تھا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ اس جہاز کی تیاری کے دوران کچھ مشکلات پیش آئیں تھیں جیسا کہ جہاز کی اونچائی کتنی رکھی جائے تاکہ بجلی کی تاریں اور پانی کے پائپ ٹھیک سے کام کر سکیں، اس پر بہت سوچ بچار کی گئی۔

پروفیسر الہو کے مطابق ’اس پر غور کرنے کے بعد اس وقت کے انجینیئرز نے جہاز کی اونچائی کا تعین کیا یہاں تک کہ سیلاب کی صورت میں انھوں نے اندازہ لگایا کہ پانی چھت کی اونچائی تک نہیں پہنچے گا۔ انھوں نے چھت پر محفوظ کمپارٹمنٹ بھی بنائے تھے۔‘

لیکن تب کسی نے برف کے تودے سے زبردست ٹکراؤ کا سوچا بھی نہ ہوگا۔

ٹائٹینک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پروفیسر الہو کا کہنا تھا کہ ’تصادم اتنا زوردار تھا کہ جہاز کی مین باڈی میں جہاز کی نصف لمبائی تک سوراخ ہو گیا تھا۔ ایسی حالت میں پانی ڈیک تک پہنچ گیا تھا۔‘

’جہاز پانی سے بھرنے لگا تھا ایسی صورتحال میں ریسکیو ممکن نہیں ہوتا آپ پانی کو نکالنے کے لیے جہاز میں موجود تمام پمپس چالو کر سکتے ہیں، آپ سب کچھ آزما سکتے ہیں لیکن جس رفتار سے پانی اندر آ رہا ہوتا ہے اسی رفتار سے اسے واپس باہر نہیں پھینک سکتے۔‘

جہاز سازی اور نیویگیٹر سول انجینئر تھیری بتاتے ہیں کہ ’ٹائی ٹینک کی اس طرح تشہیر کی گئی تھی کہ وہ ڈوب نہیں سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت سے سیلرز بنائے گئے تھے جو واٹر ٹائٹ والز سے بنے تھے اور ان میں پانی داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ جہاز میں پانی داخل ہونے کی صورت میں بھی پانی اس سیلرز اور کمپارٹنمنٹس میں داخل نہیں ہو سکتا تھا لیکن برفانی تودے کے ساتھ ٹکرانے سے جہاز کو اچھا خاصا نقصان پہنچا تھا اور واٹر ٹائمٹ کمپارٹمنٹس کی بہت سی دیواریں تباہ ہو گئیں تھی۔‘

فلومینینس فیڈرل یونیورسٹی کے پروفیسر اور ٹرانسپورٹ انجینیئر اوریلو سوراس مرتا کے مطابق ’ٹائٹینک کا واٹر ٹائٹ کمپارٹمنٹ بند کرنے کا نظام بھی ٹھیک سے کام نہیں کر رہا تھا۔‘

اس وقت جہاز بنانے کے لیے جو دھات استعمال ہوتی تھی وہ موجودہ سٹیل کی طرح مضبوط نہیں تھی۔

سورس مرتا کا کہنا تھا کہ ’زبردست تصادم کے بعد جہاز کی ساخت میں تبدیلی آئی دروازے بند نہیں ہو رہے تھے وہ پھنس گئے تھے۔ ٹائی ٹینک کو اس دور میں بھی خالص سٹیل سے بنایا گیا تھا لیکن اس وقت کا سٹیل ایسا نہیں تھا۔ آج کے فولاد کی طرح مضبوط نہیں تھا۔‘

ساؤ پالو میں میکنزی پرسبیٹیرین یونیورسٹی کے پروفیسر اور میٹالرجیکل انجینئر جان ویتاووک بتاتے ہیں کہ 1940 کی دہائی تک جہاز کا مرکزی حصہ شیٹ میٹل سے بنا تھا۔

تاہم بعد میں دھاتوں کو پگھلا کر ان جہازوں کی مرکزی باڈی بنانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

ویتاووک بتاتے ہیں کہ ’اس کے بعد سے ٹیکنالوجی اور مواد بہت بدل چکے ہیں۔ اب دھات پگھل کر آپس میں جڑی ہوئی ہے۔ سٹیل بنانے میں کاربن کا استعمال کم ہونا شروع ہو گیا ہے اور مینگنیز کا استعمال بڑھنے لگا ہے۔ آج کا سٹیل بہت مضبوط ہے۔‘

جان ویتاووک کے مطابق آج کے بحری جہاز پانی، سمندری لہروں کے اتار چڑھاؤ اور سمندری طوفانوں سے ہم آہنگ ہونے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ٹائٹینک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

2. ’بلیو بینڈ‘ حاصل کرنے کی دوڑ

بڑے حادثوں کے بعد اس کی وجوہات میں انسانی غلطیاں ہمیشہ پائی جاتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق آئس برگ سے بھرے خطوں سے گزرنے میں مشکلات کے باوجود اس پر سفر کو تیزی سے مکمل کرنے کا شدید دباؤ تھا۔

دراصل یہ دباؤ ’بلیو بینڈ‘ کے حصول کے لیے تھا۔ 1839 میں شروع ہونے والا یہ اعزاز بحر اوقیانوس کو عبور کرنے والے تیز ترین جہاز کو دیا جاتا تھا۔ ٹائی ٹینک کو اس اعزاز کا سب سے مضبوط دعویدار سمجھا جاتا تھا۔

پروفیسر الہو کہتے ہیں کہ ’اس زمانے کے مطابق ٹائی ٹینک بنانے کے لیے بہترین انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا تھا۔ اس وقت دنیا کی بڑی کمپنیوں کے درمیان جہاز بنانے کا مقابلہ تھا۔ اس وقت انگلینڈ اور جرمنی کے درمیان مقابلہ تھا کہ سب سے بڑے اور تیز ترین جہاز بنائیں۔‘

سب سے بڑے اور تیز ترین جہاز کو سرکاری طور پر بلیو بینڈ مل گیا۔ اس کارنامے کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی جہاز کے لیے پہلا سفر سب سے اہم سمجھا جاتا تھا۔

الہو کے مطابق ’پہلے سفر کے دوران جہاز کی حالت سب سے بہتر ہوتی ہے، جہاز پہلے سفر میں تیز ترین رفتار حاصل کر سکتا ہے اور ٹائی ٹینک نے بھی تیز ترین رفتار حاصل کرنے کی کوشش کی۔‘

بچ جانے والوں میں سے بہت سے لوگوں نے بتایا کہ جہاز کے کپتان کو ارد گرد کے علاقے میں برف کے تودے کے بارے میں اطلاع دی گئی تھی لیکن اس نے جہاز کی رفتار کم نہیں کی کیونکہ وہ تیز رفتاری سے بحر اوقیانوس کو عبور کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

ٹائٹینک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ٹائٹینک جہاز تیار کرنے والی کمپنی وائٹ سٹار لائن کا تیارہ کردہ جہاز اولمپک جو پہلے سال ہی حادثے کا شکار ہوا

3. ٹائٹینک اکیلا نہیں تھا

ٹائٹینک اکیلا جہاز نہیں تھا۔ اس جہاز کو چلانے والی کمپنی وائٹ سٹار لائن کمپنی نے بیلفاسٹ شہر کے ہارلینڈ اور وولف شپ یارڈ کو 20ویں صدی کے اوائل میں تین جہاز بنانے کا حکم دیا تھا۔

توقع کی جا رہی تھی کہ عالمی معیار کے بنائے گئے ڈیزائن کے تینوں جہاز دنیا کے سب سے بڑے، محفوظ اور سہولیات سے آراستہ ہوں گے۔ انجینئر سٹمپ نے کہا کہ ’ان منصوبوں کی اس وقت خوب تشہیر بھی ہوئی تھی۔‘

سنہ 1908 اور 1915 کے درمیان بنائے گئے ان جہازوں کو اولمپک کلاس جہاز کہا جاتا تھا۔ پہلے دو بحری جہازوں 1908 میں اولمپک اور 1909 میں ٹائٹینک کی تیاری شروع ہوئی تھی۔ تیسرے جہاز دی جائگینٹک کی تیاری 1911 میں شروع ہوئی تاہم تینوں جہاز کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہوئے تھے۔

اولمپک جہاز جون 1911 میں بحری سفر کے لیے سمندر میں اتارا گیا اور اسی سال یہ ایک جنگی جہاز سے ٹکرا گیا تاہم مرمت کے بعد اس کی سروس دوبارہ شروع ہو گئی تھی۔

پہلی عالمی جنگ کے دوران برطانوی بحریہ نے اسے فوجیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے استعمال کیا۔ 1918 میں یہ ایک جرمن آبدوز سے ٹکرا گیا۔ مرمت کے بعد 1920 سے اس کا دوبارہ استعمال شروع ہوا۔ پرانا اور قابل اعتماد سمجھا جانے والا یہ جہاز 1935 تک استعمال ہوتا رہا۔

ٹائی ٹینک نے اپنا پہلا سفر 10 اپریل 1912 کو شروع کیا۔ یہ انگلینڈ کے شہر ساؤتھمپٹن کی بندرگاہ کے باہر ایک اور جہاز سے ٹکرانے سے بال بال بچا۔ یہ 14 اپریل کو ایک تاریخی حادثے کا شکار ہو گیا۔

جائگینٹک بریٹانک کو بھی زیادہ استعمال نہیں کیا جا سکا۔ اس کا نام بدل کر بریٹانک رکھ دیا گیا۔ برطانوی بحریہ نے پہلی عالمی جنگ کے دوران اسے ہسپتال میں تبدیل کر دیا۔ یہ جہاز نومبر 1916 میں ڈوب گیا تھا۔

یہ تینوں جہاز اپنے زمانے میں بہت بڑے تھے لیکن آج کے مقابلے میں بہت چھوٹے کہلائیں جائیں گے۔

مرتا کا کہنا ہے کہ ’وہ آج کے جہازوں کے مقابلے میں صرف ایک کشتی تھے۔‘

ٹائٹینک کی لمبائی 269 میٹر تھی۔ عملے اور مسافروں سمیت تقریباً 3300 افراد کو ٹھہرانے کی سہولت تھی۔ آج کا سب سے بڑا مسافر بردار جہاز ونڈر آف دی سی ہے جس کی لمبائی 362 میٹر ہے اور اس جہاز پر عملے کے 2300 ارکان کے ساتھ سات ہزار مسافر سفر کر سکتے ہیں۔

4۔ اتنی زیادہ اموات کی وجہ کیا تھی؟

ٹائٹینک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ٹائٹینک حادثے میں 1500 کے قریب افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد سمندری جہازوں کے حفاظتی نظام کو بہتر بنانے کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔ اس حادثے کے بعد سمندری جہازوں کی حفاظت کے لیے ریڈار جیسے آلات کی تیاری شروع کردی گئی۔

پروفیسر الہو بتاتے ہیں کہ ’ریڈار کا استعمال دوسری عالمی جنگ کے بعد ہی شروع ہوا تھا۔ اس سے پہلے سب کچھ کا انحصار سامنے کے منظر پر تھا۔ ایک ملاح کو اونچائی پر بٹھایا جاتا تھا جہاں سے وہ سامنے موجود آئس برگ وغیرہ کے بارے میں الرٹ کرتا تھا۔ یہ طریقہ اس وقت محفوظ نہیں ہوتا تھا جب جہاز تیز رفتاری سے چل رہا ہو۔‘

ٹائٹینک حادثے کے بعد بحری جہازوں میں حفاظتی انتظامات پر زور دیا گیا۔ ٹائٹینک کے حادثے میں بہت سے لوگ اس لیے مارے گئے کہ ان کے لیے لائف بوٹس نہیں تھیں۔

پروفیسر الہو بتاتے ہیں کہ ’یہ جہاز کبھی نہیں ڈوب سکتا، اس یقین کی وجہ سے جہاز میں صرف آدھی لائف بوٹس رکھی گئی تھیں۔‘

مرتا کا کہنا ہے کہ ’یہ حادثہ سمندری جہازوں کی حفاظت کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ سمندری جہازوں کی حفاظت کے لیے ادارہ جاتی فریم ورک بنایا گیا، تعمیر کے دوران حفاظتی پیرامیٹرز کا خیال رکھا گیا۔ اسے مسلسل بہتر بنانے کے منصوبے پر کام کیا گیا۔‘

’آج کے دور میں ریڈار اور سونار برف کے تودوں کا بہت پہلے کا پتا لگا لگاتے ہیں۔ آج سمندر کی نقشہ سازی یا نیوی گیشنل چارٹ سب سفر کے دوران بہت زیادہ جدید ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ