وہ پہاڑ جہاں چھ سالہ برطانوی بچے نے سپین سے لاپتہ ہونے کے بعد چھ سال گزارے
،تصویر کا ذریعہGREATER MANCHESTER POLICE
فرانسیسی پولیس کے مطابق بیٹی چار روز سے پیدل چل رہا تھے، جس کے بعد کوئلان کی سڑکوں تک پہنچے۔
یورپی پہاڑی سلسلے پیرینیز کے دامن میں واقع، ’کوئلان‘ جنوبی فرانس کا ایک ایسا قبیلہ ہے جس کے درمیان بہتا دریائے اوڈی اپنی سُست رفتار اور قدرے دھیمی آواز سے اس علاقے کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتا ہے۔
مگر یہ اتنی تہمید علاقے کی خوبصورتی کا ذکر اب کیوں ہو رہا ہے کیا یہ علاقہ، یہ کمیونٹی یا ماحول کو خوبصورت بنانے والا دریا اگر سب پہلے سے ہے تو معاملہ کیا ہے؟
تو ہوا کُچھ یوں کے اس ہفتے کوئلان سب کی توجہ کا مرکز اس وجہ سے بنا کیونکہ 2017 میں اپنی والدہ اور دادا کے ہمراہ سپین سیر کے کے دوران گم ہو جانے والا 11 سالہ ایلکس بیٹی حیرت انگیز طور پر جنوبی فرانس میں سامنے آگئے۔ برطانوی پولیس کے مطابق وہ چھ سال تک اپنے والدین سے دور رہے۔
بیٹی چھ سال تک پہاڑوں میں رہنے کے بعد اس ہفتے اچانک سے نمودار ہوئے اور اب وہ 17 دسمبر کو چھ سال کہ بعد واپس برطانیہ پہنچ گئے ہیں۔
فرانسیسی پولیس کے مطابق بیٹی چار روز سے پیدل چل رہا تھے، جس کے بعد کوئلان کی سڑکوں تک پہنچے۔
اپنے تین سالہ کُتے مارٹن کے ساتھ چہل قدمی کرنے والی ریٹائرڈ مارٹن ونسینٹ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک بہت ہی افسوسناک اور دُکھی کر دینے والی کہانی تھی، لیکن کم از کم اس کا اختتام تو خوشگوار ہوا۔‘
’اگرچہ میں نفسیاتی طور پر اس کے بارے میں فکرمند ہوں، کہ اُس نے اتنے سال گھر سے دور ایک انجان جگہ پر گُزارے۔‘
مارٹن، جو ریٹائرمنٹ کے بعد مارسیل شہر سے یہاں منتقل ہوئیں، اس مقام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ فرانس اور سپین کے درمیان ایک راہداری کی سی حیثیت کا حامل ہے۔
ان دو تہذیبوں اور کائناتوں کا سنگم ایک ایسے چوراہے پر ہوتا ہے کہ جہاں ایک چرچ سب کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔
دوسرا، جو ہمارے ارد گرد تو ہے مگر نظروں سے اوجھل ہے، وہ ہیں بین الاقوامی خانہ بدوشوں کا وہ جُھنڈ ہے کہ جس نے ’عام زندگی اور لوگوں‘ کو چھوڑنے کا انتخاب کر رکھا ہے۔
ان علاقوں کو جوڑنے والے افراد کو مارٹن فرانس کے مشہور پین کیکس ’کریپ‘ فروخت کرتی ہیں، موسمِ گرما میں ان کمیونٹیز سے نیچے آنے والے ان کمیونٹیز کے لوگ انھیں پسند کرتے ہیں۔
مارٹن کہتی ہیں کہ ’یہاں بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ وہ ٹھگ ہیں، اور وجہ یہ ہے کہ وہ منشیات کا لین دین کرتے ہیں اور اپنے آپ کو خاص تصور کرتے ہیں، لیکن یہاں آپ کو ہر جگہ منشیات ملتی ہیں۔ دراصل وہ صرف ایک متبادل زندگی چاہتے ہیں۔‘
کچھ کے لیے یوٹوپیا، دوسروں کے لیے خطرہ
اس خطے کے سب سے بڑے شہر تولوز سے آپ جتنا آگے نکلیں گے فون سگنل اتنا ہی کمزور ہوتا جائے گا اور اتنا ہی غیر مستحکم ہو جائے گا۔
کئی دہائیوں سے پیرینیز کے اس پورٹل نے ایک مختلف راستہ دیا ہے، جس میں انگلینڈ کے شمال مغرب سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان کم از کم دو سال تک رہا۔
فرانس کے اس حصے میں کچھ برادریاں مذہبی ہیں، دیگر روشن خیالی پر توجہ مرکوز کرتی ہیں، اور کُچھ بس یوگا پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ تو اگر یہ کھا جائے کے فرانس کا یہ علاقہ ہر قسم کے لوگوں آماج گاہ ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے یوٹوپیا یعنی جہاں سب لوگ ہنسی خوشی ایک ساتھ رہتے ہوں اور انھیں نا پسند کرنے والوں کے لیے ایک خطرہ۔
’یہاں کے لوگ بہت مختلف ہیں‘ اگاتھی ہمیں ایسپیرازا شہر میں ہیلدی لائف ریستوراں کے باہر بیئر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بتاتی ہیں۔
26 سالہ خاتون کا کہنا ہے کہ انھوں نے نفسیات کا مطالعہ اس سے پہلے کیا تھا کہ وہ اپنی خصوصیت کا تجربہ کرنا چاہتی ہیں، نہ کہ درسی کتابوں میں اس کا مطالعہ کرنا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں یہاں سے تقریبا 20 کلومیٹر دور رہتی ہوں۔ یہ زمین کا ایک ایسا ٹکڑا ہے، جنگل کے ساتھ، اور ندی کے ساتھ۔ وہ کہتی ہیں کہ میں ’میں آگ جلاتی ہوں اور اپنے باغ سے جمع کی ہوئی کھانے کی چیزیں بناتی ہوں۔‘
اگاتھی کا کہنا ہے کہ جرمن، ہسپانوی اور برطانوی آتے جاتے ہیں، لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ بیٹی اپنی والدہ اور اپنے دادا کے ساتھ اس علاقے میں رہیں۔
کوئلن کی رہائشی مارٹین ونسنٹ کا کہنا ہے کہ قصبے کے قریب کمیون میں رہنے والے صرف ایک ’متبادل زندگی‘ چاہتے ہیں
ایک ایسی زندگی جو ’سب کے لیے نہیں ہے‘
میز کے دوسری طرف، نیم کُھلی آنکھوں سے دیکھتے اور سر ہلاتے ہوئے، جولین، جو اگاتھی کے ایک دوست ہیں، جو انھیں کی طرح چھ سال سے ایک غیر معمولی زندگی گزار رہے ہیں۔
وہ اپنے کالے بیگ پر ایک پالتو کوّا باندھے ہوئے ہیں۔
وہ جلد ہی دکانوں، بجلی اور ہر اس چیز کے بغیر دور دراز کے علاقے میں اپنی زندگی گُزارنے کے لیے واپسی کا سفر شروع کرنے والے تھے جسے وہ خاصی اہمیت دیتے ہیں۔
اگاتھی تسلیم کرتی ہیں کہ ’یہ میری خوشی کا ایک اہم ذریعہ ہے مگر ایسا سب کے لیے نہیں ہے۔
وادی کے نیچلے حصے میں، درجہ حرارت منفی ہونے والا ہے۔
’سینٹ مگدالین یہاں غسل کیا کرتے تھے‘، ایک خاتون نے ہمیں یہ سب تب بتایا کہ جب ہم انھیں یہ بتانے کی وضاحت کر رہے تھے کہ ہم کس کہانی پر کام کر رہے ہیں۔
وہ ہمیں مزید بتاتی ہیں کہ ’اس پانی میں جانے اور غسل کرنے سے آپ کو اپنے تمام مسائل کا حل مل جائے گا۔‘
یہ خاتون اپنے آپکو ’پلومی‘ یعنی قلم کہتی ہیں۔
وہ اور تین دیگر لوگ یہاں رینس، لیس، بینس میں قدرتی تھرمل حمام میں جانے سے پہلے پتھروں کی پینٹنگ کر رہے ہیں۔
ایک بچے کی ماں اس 32 سالہ خاتون نے ہمیں بتایا کہ ’میں نے سفر کیا ہے اور میں اب بھی سفر کرتی ہوں۔‘
مُجھے اس سب کے درمیان ایک دم سے ایکس کا خیال آیا کہ جس نے 11 سال کی عُمر سے 17 سال تک ان جنگلوں میں گُزارے، یہ وہ وقت تھا کہ جب وہ نہ صرف اپنے پیاروں سے دور تھا بلکہ وہ سکول اور تعلیم سے بھی دور رہے، جیسا کے فرانس کی پولیس نے ہمیں بتایا۔
جولین، جو اگاتھی کے ایک دوست ہیں، جو انھیں کی طرح چھ سال سے ایک غیر معمولی زندگی گزار رہے ہیں وہ اپنے کالے بیگ پر ایک پالتو کوّا باندھے ہوئے ہیں
میں نے ان سے ان کے بیٹے کے بارے میں پوچھا۔ ’میرا بیٹا نو سال کا ہے اور میں نو سال سے اس کی ہوم سکولنگ کروا رہی ہوں۔ اب اس کا سکول کا پہلا سال ہے کیونکہ یہ ایک متبادل سکول ہے۔‘
پلومی نے کہا کہ سکول میں نصاب کے علاوہ وہ انھیں سکھاتے ہیں کہ ’قدرت میں کیسے رہنا ہے، خیمے بنانے ہیں، لوہار کا کام کرنا ہے اور وہ بنیادی چیزیں جو سوسائٹی دوبارہ اپنانا چاہتی ہے۔‘
پلومی کا کہنا ہے کہ ان کے معمولات زندگی انھیں حقیقت سے دور نہیں رکھتے بلکہ اس سے وہ لوگوں کے لیے مزید حسّاس رویہ اختیار کر پاتی ہیں۔ ’مجھے نہیں لگتا یہاں دو دنیائیں ہیں۔ صرف ایک دنیا ہے جو تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ ہم نے کچھ چیزیں پیچھے چھوڑی ہیں مگر اب ہم ان کی طرف واپس آ رہے ہیں۔‘
حقیقت سے رابطہ منقطع ہونے کے حوالے سے تشویش
فرانس کے چوتھے سب سے بڑے شہر تولوز کے مقامی باشندے جدّت کی مخالفت کرتی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ پہاڑوں میں کئی سال قیام کرنے والے بیٹی کو جسمانی تشدد کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
تاہم نفسیاتی اثرات کا اندازہ لگانے میں کچھ مزید وقت لگے گا۔ لیکن پبلک پراسیکیوٹر کے مطابق اس کے کوئی شواہد نہیں کہ وہ کسی گروہ کے ساتھ رہے۔
تاہم کئی لوگوں کا خیال ہے کہ پہاڑوں میں تنہا رہنے سے آپ کا برین واش ہوسکتا ہے کیونکہ آپ اپنے خاندان اور حقیقت سے کٹ جاتے ہیں۔
کیتھرین کیٹز، جو ان خاندانوں کو سپورٹ کرتی ہیں جن کے بچوں نے گروہوں میں شمولیت اختیار کی، کہتی ہیں کہ ’ہم نے دیکھا ہے کہ یہ لوگ اپنے خاندان، سماجی رابطوں اور معاشرے سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔‘
ان کی تنظیم ایسے لوگوں کی مدد کرتی ہیں جو گروہ کی وجہ سے متاثر ہوئے۔ یہ تنظیم 50 سال پہلے بنی تھی جسے فرانس کی ریاست فنڈ کرتی ہے۔ کیٹز کو خدشہ ہے کہ انگلینڈ میں ٹرائل کی وجہ سے بیٹی کو نقصان برداشت نہیں کرنا۔ ’وہ سکول نہیں گئے لہذا وہ سماج سے کٹ کر رہ گئے۔‘
مگر بیٹی کی اپنی لیگل گارڈین ’دادی‘ سے علیحدگی وہ چیز تھی جسے وہ درست کرنا چاہتے تھے۔ چھ سال تک سب سے کٹ کر رہنے کے بعد انھوں نے پہلا پیغام اپنی دادی کو بھیجا۔ ’ہیلو گرینڈ ما، میں الیکس ہوں۔ میں فرانس، ٹولوز میں ہوں۔ امید ہے آپ کو میرا یہ پیغام موصول ہوگا۔ میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ میں گھر واپس جانا چاہتا ہوں۔‘
Comments are closed.