وہ پرفیوم برینڈ جن کی ’مہنگی خوشبو‘ کے پیچھے بچوں سے کروائی جانے والی مشقت چھپی ہے
،تصویر کا کیپشنبسمہ اللہ کو آنکھوں میں شدید الرجی کی تشخیص ہوئی ہے۔ ڈاکٹر کے مطابق اگر وہ آنکھوں کی سوجن کا علاج کیے بغیر چنبیلی کے پھول چننا جاری رکھیں گی تو ان کی بینائی متاثر ہو سکتی ہے

  • مصنف, احمد الشامی اور نتاشا کوکس
  • عہدہ, بی بی سی آئی انویسٹیگیشن
  • ایک گھنٹہ قبل

بی بی سی کی ایک تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ پرفیوم بنانے والے دو بڑے برانڈز کے سپلائرز کی جانب سے پرفیومز میں استعمال ہونے والے اجزا چننے کے لیے بچوں کی بڑی تعداد سے مشقت کروائی جاتی ہے۔گذشتہ برس موسم گرما میں کی جانے والی بی بی سی کی تحقیق میں انکشاف ہوا کہ پرفیوم برانڈز لانکوم اور آیرن بیوٹی میں استعمال ہونے والے چنبیلی کے پھولوں کو چننے کے لیے بچوں سے مشقت کروائی گئی۔واضح رہے کہ تمام لگژری پرفیوم برانڈز بچوں سے مشقت کروانے کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔لانکوم پرفیوم بنانے والی کاسمیٹکس کمپنی لوریال کا کہنا ہے کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کرتی ہے جبکہ آیرن بیوٹی پرفیوم کی کمپنی ایسٹی لوڈر کا کہنا ہے کہ اس معاملے کے سامنے آنے کے بعد انھوں نے اپنے سپلائرز سے رابطہ کیا۔

’لانکوم آڈول لاانٹنس‘ نامی پرفیوم اور آیرن بیوٹی کے ’اکات جیسمین‘ اور ’لیمونے ڈی سیسلیا‘ نامی پرفیومز کی تیاری میں استعمال ہونے والے چنبیلی کے پھول مصر سے آتے ہیں۔چنبیلیی پرفیومز میں استعمال ہونے والا ایک اہم جزو ہے اور مصر پرفیومز کے لیے دنیا کی نصف مانگ پوری کرتا ہے۔پرفیوم کی صنعت میں کام کرنے والوں نے ہمیں بتایا کہ بہت سے لگژری برانڈز بنانے والی کمپنیاں اپنے بجٹ کم کر رہی ہیں اور اس کے نتیجے میں یہاں کام کرنے والے مزدوروں کو کم معاوضہ ملتا ہے۔ مصر میں چنبیلی کے پھول چننے کا کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ کم اجرت کی وجہ سے انھیں اپنے بچوں کو اس کام میں شامل کرنا پڑتا ہے۔اس تحقیق کے دوران ہمیں یہ بھی علم ہوا کہ پرفیوم کی صنعت میں سپلائی چین میں خرابیوں کی نشاندہی کرنے والے آڈٹ نظام بھی ناقص ہیں۔غلامی کی جدید طرز پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ٹومویا اوبوکاٹا کا کہنا ہے کہ بی بی سی کی تحقیق کے شواہد نے انھیں پریشان کر دیا۔ ان شواہد میں گذشتہ برس چنبیلی کے باغات میں بچوں کے پھول چننے کی خفیہ فلمنگ شامل ہے۔ان کا اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ’ویسے تو یہ (پرفیوم کی صنعت) سپلائی چین میں شفافیت اور بچوں کی مشقت کے خلاف جدوجہد جیسی بہت سے اچھی اچھی کتابی باتیں کرتی ہے مگر حقیقت میں وہ یہ سب کام نہیں کر رہے جس کا وہ وعدہ کرتے ہیں۔‘

،تصویر کا کیپشنچنبیلی کے پھولوں کو چننے کے بعد انھیں مختلف کلیکشن پوائنٹس کے ذریعے کئی مقامی فیکٹریوں میں بھیجا جاتا ہے جو پھولوں سے عرق نکالتی ہیں
حبہ، جو مصر کے چنبیلی کے باغات والے ضلعے غربیہ کے ایک گاؤں میں رہتی ہیں، صبح تین بجے اپنے اہلخانہ کو جگاتی ہیں تاکہ سورج کی تپش سے پہلے پہل پھولوں کو چننا شروع کر دیا جائے۔حبہ کا کہنا ہے کہ انھیں اس کام میں ان کے چار بچوں کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان کے چاروں بچوں کی عمریں پانچ سے 15 برس کے درمیان ہیں۔ مصر میں چنبیلی کے پھول چننے والے زیادہ تر مزدوروں کی طرح وہ ایک چھوٹے باغ کے مالک کے پاس یومیہ اجرت پر کام کرتی ہیں لہٰذا وہ اور ان کے بچے مل کر ایک دن میں جتنے زیادہ پھول چنتے ہیں، انھیں اتنی ہی زیادہ اجرت ملتی ہے۔جس رات ہم نے ان کے بچوں کی فلم بنائی تھی اس رات وہ سب مل کر ڈیڑھ کلو چنبیلی کے پھول چننے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اپنی اجرت کا ایک تہائی حصہ باغ کے مالک کو دینے کے بعد ان کے پاس اس دن بمشکل ڈیڑھ ڈالر بچا تھا۔مصر میں مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر ہے اور یہ اجرت پہلے کی نسبت کہیں کم ہے اور اکثر پھول چننے والے یہ مزدورغربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔حبہ کی 10 سالہ بیٹی بسمہ اللہ کی آنکھوں میں شدید الرجی کی تشخیص ہوئی ہے۔ ڈاکٹر کے معائنے کے دوران ہم بھی وہاں موجود تھے اور ڈاکٹر نے بتایا کہ اگر وہ آنکھوں کی سوجن کا علاج کیے بغیر چنبیلی کے پھول چننا جاری رکھیں گی تو ان کی بینائی متاثر ہو سکتی ہے۔چنبیلی کے پھولوں کو چننے اور تولنے کے بعد، اسے مختلف کلیکشن پوائنٹس کے ذریعے کئی مقامی فیکٹریوں میں بھیجا جاتا ہے جو پھولوں سے عرق نکالتی ہیں۔ ان مقامی فیکٹریوں میں سے تین اہم فخری اینڈ کو، ہاشم برادرز اور مچالیکو ہیں۔ ہر سال یہ فیکٹریاں ہی حبہ جیسے مزدوروں کے ذریعے چنی جانے والی چنبیلی کی قیمت مقرر کرتی ہیں۔یہ کہنا مشکل ہے کہ مصر کی چنبیلی کی صنعت سے وابستہ 30,000 افراد میں سے کتنے بچے ہیں لیکن 2023 کے موسم گرما کے دوران بی بی سی نے اس پورے علاقے کی فلمنگ کی اور بہت سے رہائشیوں سے بات کی جنھوں نے ہمیں کہا کہ چنبیلی چننے کی کم اجرت کا مطلب ہے کہ انھیں اپنے بچوں کو اپنے ساتھ کام میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔اس دوران ہم نے دیکھا کہ بچے ایک چھوٹے باغ میں چار مقامات پر کام کر رہے ہیں اور زیادہ تر بچوں کی عمریں 15 سال سے کم تھی۔ مختلف ذرائع نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ جن باغات میں یہ بچے کام کر رہے ہیں یہ مچالیکو کمپنی کی ملکیت ہیں۔ لہذا ہم نے خفیہ طور پر ان کی فلم بنائی اور ان پھول چننے والے بچوں نے ہمیں بتایا کہ ان کی عمریں 12 سے 14 برس کے درمیان ہیں۔مصر میں 15 سال سے کم عمر افراد کے لیے شام سات بجے سے صبح سات بجے تک کام کرنا غیر قانونی ہے۔یہ فیکٹریاں چنبیلی کا عرق نکال کر بین الاقوامی کمپنیوں کو برآمد کرتی ہیں جہاں پرفیوم بنائے جاتے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں قائم بڑی کمپنیوں میں سے ایک گیوادیان کا مصر کی فخری اینڈ کو کے ساتھ دیرینہ تعلق ہے۔
،تصویر کا کیپشنبی بی سی کے پاس موجود شواہد میں گذشتہ برس چنبیلی کے باغات میں بچوں کے پھول چننے کی خفیہ فلمنگ شامل ہے
پرفیوم کی صنعت سے منسلک ذرائع اور ایک آزاد ماہر کرسٹوفر لاڈامل کے مطابق ان سب میں لوریآل اور ایسٹی لیوڈر جیسی پرفیوم بنانے والی کمپنیاں سب سے طاقتور ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’پرفیوم کی صنعت کے مالک‘ کے طور پر جانے جانی والی یہ کمپنیاں خوشبو تیار کرنے والی فیکٹریوں کو بہت کم بجٹ دیتی ہیں۔ان بڑی کمپنیوں کا فائدہ اس میں ہے کہ وہ پرفیوم کی تیاری میں استعمال ہونے والے پھولوں کے عرق کو کم سے کم قیمت میں خریدیں اور اسے مہنگے داموں پرفیوم کی بوتل میں بھر کر فروخت کریں۔پھولوں کا عرق نکال کر خوشبو تیار کرنے والی کمپنیوں میں کئی برس گزارنے والے کرسٹوفر کہتے ہیں کہ ’اگرچہ یہ کمپنیاں مزدوروں کی تنخواہیں یا اجرت طے نہیں کرتیں اور نہ ہی یہ چنبیلی کے پھولوں کی قیمت مقرر کرتی ہیں کیونکہ یہ ان کے بس سے باہر کی بات ہے۔‘لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اس عرق کے عوض قیمت مقرر کرتی ہیں اور اس کی وجہ سے اس کا اثر مزدوروں کی یومیہ اجرت یا تنخواہوں پر بھی پڑتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’پرفیومز کی صنعت میں مارکٹینگ کی زبان میں قدرتی عرقیات کو حاصل کرنے کی جس قیمت کی بات کی جاتی ہے اور اصل میں اس کے کاشتکاروں کو جو دیا جاتا ہے، اس میں بہت فرق ہے۔‘نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے ایک ایگزیکٹو اہلکار نے کہا کہ یہ کمپنیاں تھرڈ پارٹی کے ذریعے آڈٹ اور کام کے طریقہ کار کی جانچ پڑتال کے لیے خوشبو تیار کرنے والی کمپنیوں پر انحصار کرتی ہیں۔پرفیوم کمپنیوں کی ویب سائٹ اور اقوام متحدہ کے خطوط میں جن آڈٹ فرمز کا زیادہ ذکر کیا گیا ہے، وہ سیڈیکس (Sedex) اور یو ای بی ٹی (UEBT) ہیں۔ان کی آڈٹ رپورٹس عوامی سطح پر تو دستیاب نہیں لیکن خود کو فخری اینڈ کو کے سامنے چنبیلی کے خریدار کے طور پر ظاہر کرتے ہوئے، ہم ان آڈٹ فرمز کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔یو ای بی ٹی کی گذشتہ برس کی ایک رپورٹ میں انسانی حقوق کے مسئلے کی نشاندہی کی گئی تھی لیکن اس کی زیادہ تفصیلات نہیں دی گئیں۔ اس کے باوجود کمپنی کی ’تصدیق‘ کی گئی جس کا مطلب ہے کہ کمپنی یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ ’ذمہ داری سے حاصل شدہ چنبیلی کا تیل‘ فراہم کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

،تصویر کا کیپشنکرسٹوفر لاڈامل کے مطابق ’پرفیوم کی صنعت کے مالک‘ کے طور پر جانے جانی والی یہ کمپنیاں خوشبو تیار کرنے والی فیکٹریوں کو بہت کم بجٹ دیتی ہیں
یو ای بی ٹی نے اس کے جواب میں کہا کہ ’ایک کمپنی کو یہ تصدیق جاری کی گئی، جو ایک ایکشن پلان کے تحت ہے اور اس کی معیاد 2024 کے وسط تک ہے اور اگر عمل نہ کیا گیا تو اسے واپس لے لیا جائے گا۔‘سیڈیکس کی رپورٹ میں فیکٹری کا کافی شاندار جائزہ پیش کیا گیا لیکن اس کی رپورٹ سے یہ واضح ہوتا تھا کہ اس فرم نے فیکٹری کے دورے کا پہلے سے اعلان کیا تھا اور صرف فیکٹری سائٹ کا ہی آڈٹ کیا گیا جبکہ ان چھوٹے فارمز کا دورہ نہیں کیا گیا، جہاں سے چنبیلی کو حاصل کیا گیا۔سیڈیکس نے ہمیں بتایا کہ وہ ’مزدوروں کے حقوق کی ہر قسم کی خلاف ورزی کے خلاف ہے لیکن ماحولیاتی اور انسانی حقوق کے خطرات کے تدارک کے لیے صرف کسی ایک ذریعے پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔‘انسانی حقوق کی بہتری کے لیے کام کرنے والی تنظیم (Responsible Contracting Project) کی بانی اور وکیل سارہ دادش کہتی ہیں کہ بی بی بی کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ نظام کام نہیں کر رہا۔انھوں نے کہا کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ آڈیٹر صرف اس وقت آڈٹ کرتے ہیں جب انھیں ایسا کرنے کے لیے پیسے دیے جاتے ہیں اور ممکنہ طور ہر اس میں مزدوروں کو ادا کی جانے والی اجرت شامل نہیں۔ ’جو کہ چائلڈ لیبر کی ایک بڑی وجہ ہے۔‘اے فخری اینڈ کو نے ہمیں بتایا کہ اس کے فارمز اور فیکٹری میں چائلڈ لیبر کی اجازت نہیں لیکن وہ زیادہ تر چنبیلی کے پھول ایسے لوگوں سے حاصل کرتے ہیں جو کسی کمپنی کے لیے نہیں بلکہ انفرادی طور پر یہ کام کرتے ہیں۔’سنہ 2018 میں یو ای بی ٹی مانیٹرنگ کے تحت ہم نے ایسے منصوبے کا آغاز کیا، جو چنبیلی کے باغوں میں 18 برس سے کم عمر افراد کے کام پر پابندی عائد کرتا ہے۔‘اے فخری اینڈ کو نے یہ بھی کہا کہ ’کسی بھی تقابلی معیار کے مطابق مصر میں چنبیلی کے پھول چننے کا اچھا معاوضہ دیا جاتا ہے۔‘مچالیکو کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ چنبیلی چننے کے لیے 18 برس سے کم عمر کے لوگوں کو استعمال نہیں کرتی۔ مچالیکونے یہ بھی کہا کہ گذشتہ دو برس کے دوران اس نے چنبیلی کی قیمت میں اضافہ کیا اور اس سال وہ دوبارہ ایسا کریں گے۔ہاشم برادرز نے ہماری رپورٹ کو ’گمراہ کن معلومات پر مبنی‘ قرار دیا۔لانکوم آڈول لاانٹنس پرفیوم بنانے والی کمپنی گیوادیان (Givaudan) نے بی بی سی کی تحقیق کو ’انتہائی تشویشناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم سب پر یہ فرض ہے کہ چائلڈ لیبر کے خطرے کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے کوشش جاری رکھیں۔‘آیرن بیوٹی کے لیے اکات جیسمین اور لیمونے ڈی سیسلیا پرفیومز بنانے والی کمپنی فرمینچ جس نے سنہ 2023 میں مچالیکو سے چنبیلی کو خریدا تھا، نے ہمیں بتایا کہ اب وہ مصر میں ایک نئے سپلائر کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
،تصویر کا کیپشنحبہ صبح تین بجے اپنے اہلخانہ کو جگاتی ہیں تاکہ سورج کی تپش سے پہلے پھولوں کو چننا شروع کر دیا جائے
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’وہ ایسے تمام اقدامات کی حمایت کریں گے جن کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کیا جائے گا۔‘ہم نے اپنی تحقیق کے نتائج یہ پرفیوم بیچنے والے برانڈز کے سامنے بھی رکھے۔لوریآل نے کہا کہ وہ ’بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حقوق کے معیارات کا احترام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’وہ کبھی بھی ان کمپنیوں کو مارکیٹ کے مقابلے کم قیمت کے اجزا کا مطالبہ نہیں کرتے، جن کی قیمت کسانوں کو ادا کرنی پڑے۔ ہمارے مضبوط ارادوں کے باوجود ہم جانتے ہیں کہ دنیا کے کچھ حصوں میں جہاں لوریآل سپلائرز کام کرتے ہیں، وہاں ہمارے وعدوں کو برقرار رکھنے کے بارے میں خدشات موجود ہیں۔‘لوریآل نے یہ بھی کہا کہ ’جب کوئی مسئلہ درپیش آتا ہے تو ہم اس کی وجوہات جاننے اور اسے حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کرتے ہیں۔ جنوری 2024 میں ہمارے پارٹنرز نے انسانی حقوق کی ممکنہ خلاف ورزیوں کی نشاندہی اور چائلڈ لیبر کے خطرات کو روکنے اور کم کرنے کے طریقے تلاش کرنے کے لیے سائٹ پر انسانی حقوق کے اثرات کا جائزہ لیا۔‘ایسٹی لوڈر نے کہا کہ ’ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تمام بچوں کے حقوق کو تحفظ حاصل ہونا چاہیے اور ہم نے اپنے سپلائرز سے رابطہ کیا ہے تاکہ اس انتہائی سنجیدہ معاملے کی تحقیق کی جا سکے۔ ہم چنبیلی کی سپلائی چین کے اردگرد موجود پیچیدہ سماجی و اقتصادی ماحول کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کمیونٹی کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘غربیہ میں چنبیلی کے پھول چننے والی حبہ کو جب ہم نے یہ بتایا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں یہ پرفیومز کس قیمت پر فروخت ہو رہی ہیں، تو وہ صدمے میں آ گئیں۔انھوں نے کہا کہ ’مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں کہ لوگ پرفیوم استعمال کرتے ہیں لیکن میں چاہتی ہوں کے یہ پرفیوم استعمال کرنے والے لوگ اس میں بچوں کی تکلیف کو دیکھیں اور اس بارے میں آواز بلند کریں۔‘ لیکن وکیل سارہ دادش کہتی ہیں کہ اس کی ذمہ داری صارفین پر نہیں۔انھوں نے کہا کہ ’یہ ایسا مسئلہ نہیں جیسے ہم نے حل کرنا ہے۔ ہمیں قانون کی ضرورت ہے، ہمیں کارپورٹ احتساب کی ضرورت ہے۔ احتساب صرف صارفین کا نہیں ہونا چاہیے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}