وہ پانچ ممالک میں جہاں کام اور نجی زندگی میں بہترین توازن موجود ہے،تصویر کا ذریعہSascha B/Getty Images

  • مصنف, اماندا رگری
  • عہدہ, بی بی سی ٹریول
  • 11 منٹ قبل

کام (نوکری) اور زندگی میں توازن برقرار رکھنے کو اکثر صحت مند طرز زندگی اور ذہنی صحت کے لیے کلید کے طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔یہ جاننے کے لیے کہ کون سی قومیں یا ممالک کام اور زندگی میں بہترین ہم آہنگی رکھتی ہیں ہم نے ہیومن ریسورسز کی ٹیک کمپنی ’ریموٹ‘ کے 2023 کے گلوبل لائف ورک بیلنس انڈیکس کا جائزہ لیا ہے۔اس کی جاری کردہ رپورٹ میں ملازمت پر ملنے والی سالانہ چھٹیاں، بیماری کی صورت میں تنخواہ کی ادائیگی اور زچگی کے دوران ملنے والی چھٹیوں جیسے عوامل کو دیکھا گيا ہے۔ اس میں اس بات کو دیکھا گیا ہے کہ ملازمین کتنے گھنٹے کام کرتے ہیں اور تفریح اور اپنی ذات کی دیکھ بھال کے لیے کتنا وقت نکالتے ہیں۔یہاں سرفہرست پانچ ممالک کے حالات پیش کیے جا رہے ہیں جس میں نیوزی لینڈ پہلے نمبر پر ہے۔

نیوزی لینڈ

اس ضمن میں کی گئی درجہ بندی میں نیوزی لینڈ سرفہرست ہے۔یہاں تنخواہ کے ساتھ ساتھ 26 ہفتوں (لگ بھگ ساڑھے چھ ماہ) کی زچگی کی چھٹی دی جاتی ہے۔ جبکہ یہاں ملنے والی کم از کم اُجرت دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہے جبکہ ملازمین کو ایک سال میں 32 دن کی سالانہ چھٹی ملتی ہے اور بیماری کی صورت میں ہونے والی چھٹی کے دوران بھی کم از کم 80 فیصد تنخواہ ادا کی جاتی ہے۔نیوزی لینڈ میں رہنے والی ایرن پیری کہتی ہیں کہ کسی خاص پالیسی سے زیادہ وہاں کی مجموعی ثقافت اس بات کو طے کرتی ہے کہ کہاں کام کرنا آسان اور آرام دہ ہے۔ ایرن ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں کام کرتی ہیں اور ان کا تعلق کینیڈا سے ہے۔انھوں نے کہا کہ ’ایک کینیڈین کے طور پر آپ کام کے بارے میں ’کرو یا مرو‘ کا رویہ رکھتے ہیں۔ مجھے یہ پتا نہیں تھا کہ ملازمت میں اس طرح کا فائدہ بھی مل سکتا ہے۔‘انھوں نے سنہ 2015 میں جب نیوزی لینڈ کا دورہ کیا تو انھیں ایسا لگا کہ ان کا ایک مختلف نقطہ نظر سے سابقہ پڑا ہے۔ اور پھر وہ اسی سال مستقل طور پر وہاں منتقل ہو گئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت حد تک یہ ملک اُن کی توقعات پر پُورا اُترا ہے۔تاہم اس کے ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ نیوزی لینڈ ہر طرح سے کامل نہیں ہے۔ او ای سی ڈی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں 14 فیصد ملازمین فی ہفتہ 50 گھنٹے سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ یعنی یہ او ای سی ڈی کے تحت آنے والے ممالک میں اوسط کام کرنے کے اوقات سے دس فیصد زیادہ ہے۔اور وہ او ای سی ڈی کی اوسط سے تھوڑا کم وقت ذاتی نگہداشت میں گزارتے ہیں۔ ان کے تحت آنے والے ممالک میں روزانہ 14.9 گھنٹے ذاتی نگہداشت (جیسے کھانا اور سونا) اور تفریح (بشمول خاندان اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا، شوق پورے کرنا اور ٹیلی ویژن دیکھنا) میں دیے جاتے ہیں۔ پیری کے مطابق یہاں کچھ حکومتی امداد ایسی ہیں جو دوسرے امیر ممالک میں پیش کی جاتی ہیں لیکن یہاں نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر بیروزگاری کی صورت میں کارکنان کی انشورنس نیوزی لینڈ کی طرف سے فراہم نہیں کی جاتی ہے، جبکہ بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات بھی یہاں زیادہ ہیں اور ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔اس کے علاوہ مطمئن انداز میں کام کرنے کی عادت میں خامیاں ہو سکتی ہیں۔ پیری نے کہا: ’اگر آپ کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور آپ کو کوئی فوری ضرورت ہے، تو یہ آپ کے لیے بہت برا ہے۔ دسمبر کے مہینے کی بات ہی نہ کریں کیونکہ اس دوران حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا ہے۔ لوگ ای میلز تک کا جواب نہیں دیتے۔‘تاہم پیری کا کہنا ہے کہ کام اور زندگی کے توازن کے معاملے میں نیوزی لینڈ کے کلچر کو شکست دینا مشکل ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’لوگوں کی بنیادی ترجیحات ان کا خاندان، ان کی صحت، تفریح، سفر ہیں۔ وہ واقعی اپنے وقت کو بہت قیمتی سمجھتے ہیں اور اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ کام صرف زندگی گزارنے کا ایک ذریعہ ہے نہ کہ آپ کی پوری زندگی ہے۔‘ ،تصویر کا ذریعہAndreaMPhoto/Getty Images

،تصویر کا کیپشنسپین فرصت کے ساتھ کام کرنے کے لیے جانا جاتا ہے

سپین

ریموٹ کے اشاریے میں سپین دوسرے نمبر پر ہے۔ یہاں 26 دن کی قانونی سالانہ چھٹی ہے۔ او ای سی ڈی کے اعداد و شمار کے مطابق اس دوران سپین میں کام کرنے والے پڑوسی ممالک اٹلی اور فرانس کے علاوہ کسی بھی ملک میں اپنے دن کے زیادہ تر گھنٹے تفریح اور ذاتی دیکھ بھال میں گزارتے ہیں۔ جبکہ صرف 2.5 فیصد ملازمین کو کام کے اوقات سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔یہ ٹریول رائٹر ازابیل کلیگر کے لیے حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ وہ بارسلونا میں سنہ 2010 میں آنے سے قبل سویڈن، برطانیہ، آئرلینڈ وغیرہ میں رہ چکی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’برطانیہ اور آئرلینڈ میں بہت سے لوگ اپنا سارا وقت کام پر صرف کرتے ہیں اور جب وہ کام نہیں کر رہے ہوتے ہیں تو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہوتے ہیں۔‘ لیکن سپین میں ایسا نہیں ہے۔ وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’آپ یہاں لوگوں سے ملتے ہیں اور وہ آپ سے فوری طور پر یہ نہیں پوچھتے کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ اور وہ کام سے باہر کام کے بارے میں بات نہیں کرتے۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ اگر آپ کام سے نکل کر سیدھے کسی کے پاس مئے نوشی کے لیے پہنچتے تو ہو سکتا ہے وہ یہ کہیں ’میرا دن بہت برا رہا‘ اور پھر 10 منٹ کے اندر وہ کسی اور چیز کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں۔‘وہ کہتی ہیں کہ اس کے باوجود سپین کے لوگوں کو آپ یہ کہتے سن سکتے ہیں وہ بہت زیادہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ اس میں سے کچھ اس وجہ سے ہے کہ کام کے اوقات میں تبدیلی آئی ہے۔ پہلے روایتی طور پر کام کا دن تقریباً 08:30 سے 13:30 تک ہوتا تھا پر آپ ایک دو گھنٹے کے لیے قیلولے کی چھٹی ہوتی تھی اور آپ شام سات سے آٹھ بجے تک فارغ ہو جاتے تھے۔ لیکن قیلولے کا چلن برسوں سے زوال کا شکار ہے۔ نتیجے کے طور پر کچھ کارکن دوپہر کا وقفہ نہیں لے پاتے لیکن پھر بھی دفتر میں دیر تک ٹھہرے رہتے ہیں۔ اس تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے، 2016 میں سپین کے اس وقت کے وزیر اعظم نے یہ اعلان کرتے ہوئے سرخیاں بنائیں کہ وہ کام کے دن کو 18:00 بجے ختم ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔اس کے باوجود یورپی یونین کے حالیہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سپین والے ہفتے میں اوسطاً 37.8 گھنٹے کام کرتے ہیں جو کہ یورپی اوسط سے 20 منٹ زیادہ۔ ان کمپنیوں میں جہاں اب بھی دوپہر کے کھانے کے لیے طویل وقفے کی روایت جاری ہے وہاں جمعے کی ایک عام روایت ہے جسے جورنادا انٹنسیوا کہا جتاتا ہے یعنی آپ تین بجے تک کام کریں اور باقی دن کی چھٹی کر لیں۔کلیگر کا کہنا ہے کہ ’بالآخر وہاں ایک ایسی ثقافت ہے جس کی اپنی ترجیحات ترتیب میں ہیں۔ آپ کام کرنے کے لیے نہیں جیتے بلکہ جینے کے لیے کام کرتے ہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہAleksandarNakic/Getty Images

،تصویر کا کیپشنڈنمارک میں کام کے اوقات میں لچک کو سراہا جاتا ہے

ڈنمارک

بہت کم لوگ ہوں گے ڈنمارک کے کام اور زندگی کے توازن کے فائدے کو ہیلن رسل سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ انھوں نے ڈنمارک والوں کی طرح ایک سال رہنے پر کتاب تحریر کی ہے اور اب وہ ایک دہائی سے زیادہ سال سے وہاں رہ رہی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’میں نے 12 سال تک لندن میں بطور صحافی کام کیا۔ میں نے زیادہ زیادہ گھنٹے کام کیا۔ وہ مصروف دن ہوتا تھا۔ لندن میں سفر کے ساتھ کام اور زندگی میں توازن کے معاملے میں اکثر ’زندگی‘ بہت کم رہ جاتی تھی۔ ہم نے اسے معمول سمجھ لیا تھا۔ اور پھر ہم یہاں منتقل ہو گئے۔‘وہ کہتی ہیں کہ بہت سسی دوسری چیزوں کے ساتھ انھوں نے دیکھا کہ ’کام‘ اور ’زندگی‘ کے درمیان ایک واضح حد فاصل ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’کام دن کے 08:00 بجے شروع ہوتا ہے اور لوگ عام طور پر 16:00 بجے اپنے کمپیوٹر بند کر دیتے ہیں۔‘ ایسا اس لیے ہے بچوں کو عموماً 16:00 بجے کے قریب نرسری سے لینا ہوتا ہے، اس لیے ہر کوئی، یہاں تک کہ جن کے بچے نہیں ہیں، وہ بھی اپنا کام ختم کر دیتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’ہر روز 16:00 اور 19:00 کے درمیان کا وقت خاندان کے لیے وقف ہوتا ہے اور اہل خانہ ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ بچوں کے بستر پر ہونے کے بعد آپ کچھ ای میلز کا جواب دے سکتے ہیں، لیکن دوسری صورت میں آپ نے ایک طرح سے دن کا کام کر لیا ہے۔‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کے بغیر لوگوں کو بھی اپنے فارغ اوقات اور مشاغل کو اسی ترجیح کے ساتھ الگ کرنے کی اجازت ہے جو والدین اپنے بچوں کو دیتے ہیں۔ آپ اپنی ڈائری اس کو ضرور شامل کر سکتے ہیں کہ ’مجھے جم جانا چاہیے‘ یا ’مجھے بیڈمنٹن کلب جانا ہے‘۔کام اور زندگی کے توازن کی یہ ترجیح وہی ہے جو او ای سی ڈی اور ریموٹ رینکنگ نے مشترکہ طور پر پائی ہے۔ ڈنمارک کے ملازمین میں سے صرف ایک فیصد ہفتے میں 50 گھنٹے سے زیادہ کام کرتے ہیں، جو کہ اٹلی (تین فیصد) یا دوسرے ممالک کی اوسط (10فیصد) سے کہیں کم ہے۔ وہ روزانہ 15.7 گھنٹے ذاتی اور تفریحی وقت کے لیے وقف کرتے ہیں جو او ای سی ڈی کی اوسط سے زیادہ ہے۔اس کے علاوہ وہاں کام کے اوقات میں لچک دیکھی جاتی ہے۔ درحقیقت ملک کی فلیکس جاب سکیم، جس میں کارکن مختلف اوقات کار، پیٹرن یا اس سے بھی کم جسمانی طور پر مطلوبہ کاموں کی درخواست کر سکتے ہیں۔ یہ طرز عمل سنہ 1998 میں شروع کیا گیا تھا۔یہ ملک 36 دن کی قانونی سالانہ چھٹی بھی پیش کرتا ہے، جو کہ دولت مند ممالک میں سب سے زیادہ ہے، اور کارکنوں کو بیماری والے دنوں کے لیے ان کی اجرت کا 100 فیصد ادا کرنا ضروری ہے۔،تصویر کا ذریعہMassimo Borchi/Getty Images

،تصویر کا کیپشنفرانس میں لوگوں کو کھلے میں فرصت کے لمحات بتاتے دیکھا جانا عام ہے

فرانس

او ای سی ڈی کے اعداد و شمار کے مطابق فرانس میں لوگوں کے پاس ذاتی اور تفریحی وقت کے لیے روزانہ 16.2 گھنٹے ہوتے ہیں جو اٹلی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ کام اور زندگی میں توازن کے لیے ریموٹ کی فہرست میں یہ ملک مجموعی طور پر تیسرے نمبر پر ہے۔ بطور خاص قانونی سالانہ چھٹی (36) کے معاملے میں یہ سب سے آگے ہے۔کینیڈا کی ایک کاروباری اور فری لانس سارہ میکو جو کہ سنہ 2021 میں فرانس کے دارالحکومت پیرس منتقل ہوئی ہیں، کہتی ہیں کہ درحقیقت پیرس جیسے مصروف شہر میں بھی مقامی لوگ کام کے علاوہ وقت کو ترجیح دیتے ہیں۔ان کے مطابق ’فرانسیسی ثقافت آرام اور آرام کے احساس کو فروغ دیتی ہے۔‘ اس کی مثال وہاں کا کیفے کلچر ہے جہاں لوگوں کو دن کے کسی بھی وقت باہر بیٹھے اور آرام کرتے دیکھا جا سکتا ہے، خاص طور پر جب موسم اچھا ہو۔ وہاں نہ صرف دوستوں یا ساتھیوں کے ساتھ کافی پینا بلکہ اکیلے آرام سے بھی کافی پینا پسند کیا جاتا ہے۔تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ آپ کس صنعت اور کردار میں کام کر رہے ہیں۔ میچو نے فیشن انڈسٹری کی انٹرن شپ کی جہاں ان کے کام کے اوقات 10:00 سے 19:00 بجے تک تھے اور اس وقت بھی بہت سے دوسرے لوگ گھر جا رہے ہوتے تھے۔ درحقیقت، فرانس میں 8 فیصد ملازمین ہفتے میں 50 گھنٹے سے زیادہ کام کرتے ہیں جو او ای سی ڈی کی اوسط 10سے کم ہے، لیکن پھر بھی بہت سے دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ ہے۔میکو کہتی ہیں کہ کام اور زندگی میں توازن کی ثقافت پر زور دینے کے ساتھ فرانس کی فنون اور ثقافت کی فنڈنگ کو ترجیح دینے سے فرق پڑتا ہے۔ انھوں نے کہا: ’اس سے آپ کی مصروف کام کی زندگی میں توازن پیدا کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ میٹرو پر آپ کو ایکسپو وغیرہ کے اشتہار نظر آتے ہیں۔ اس سے آپ کی ملازمت سے باہر زندگی گزارنے کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔‘ ،تصویر کا ذریعہFani Kurti/Getty Images

،تصویر کا کیپشناٹلی کے لوگ اپنے فرصت کے اوقات کا اچھا استعمال کرتے ہیں

اٹلی

’الدولسے فر نینتے‘ ایک مشہور اطالوی فقرہ ہے جس کا معنی ہوتا ہے ’کچھ نہ کرنے کی خوشی‘۔ میں نے اٹلی کے شہر روم میں رہتے ہوئے تجربہ کیا کہ یہ محض کہنے کے لیے نہیں بلکہ حقیقت میں ہے۔ کولمبیا اور امریکہ میں رہنے کے بعد اب روم میں کام کرنے والے آندرے یوریبی-اوروزکو نے میری اس بات سے اتفاق کیا کہ ’میرے خیال میں اطالویوں نے کام اور زندگی کے توازن کا تصور ایجاد کیا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’یہاں لوگ صرف ‘کام، کام، کام’ کی دھن میں نہیں رہتے۔‘او ای سی ڈی ڈیٹا اس بات کو ظاہر کرتا ہے۔ کل وقتی ملازمین اپنے دن کا 69 فیصد یعنی 16.5 گھنٹے کا وقت ذاتی دیکھ بھال اور تفریح پر صرف کرتے ہیں۔ یہ او ای سی ڈی کی اوسط سے 1.5 گھنٹے زیادہ ہے۔یہ او ای سی ڈی کے مطابق ایسا ملک ہے جہاں لوگوں کے پاس سب سے زیادہ فرصت کے اوقات ہیں۔ اٹلی میں ہفتے میں 50 گھنٹے سے زیادہ کام کرنے والے صرف تین فیصد ہیں جبکہ ان ممالک میں اوسط دس فیصد ہے۔اوریبی اوروزکے کا کہنا ہے کہ ’لوگ سمجھتے ہیں کہ اطالوی کام نہیں کرتے۔ ایسا نہیں بلکہ اطالوی بہت زیادہ کام کرتے ہیں۔ وہ بہت پروڈکٹو ہیں۔ وہ وہی کرتے ہیں جو انھیں کرنا ہوتا ہے، اور وہ اسے جلدی کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی کافی سے زیادہ دیر تک لطف اندوز ہو سکیں۔‘بلاشبہ، یہاں بہت سی کمیاں بھی ہیں۔ مثال کے طور پر یہاں او ای سی ڈی ممالک کے مقابلے میں زیادہ بے روزگاری ہے اور اوسط تنخواہیں کم ہیں۔ ریموٹ کی ورک لائف بیلنس لسٹ میں اٹلی کا کرایہ بھی زیادہ ہے۔ یہ ریموٹ کے اشاریے میں مجموعی خوشی کے اشاریہ اور ایل بی بی ٹی کیو پلس کی شمولیت جیسے پہلوؤں میں نیچے ہے اور اس کا نمبر 22 واں ہے۔ہلچل والی ثقافت کی کمی روزمرہ کی کارکردگی کو متاثر کر سکتی ہے۔ جب میرا اٹلی میں تھا تو مجھے پوسٹ آفس جانے میں کم از کم ایک گھنٹہ لگتا تھا، اسی طرح پرمٹ وغیرہ کی تجدید کے لیے کسی بھی قسم کی بیوروکریسی میں کم از کم آدھا گھنٹہ لگ جاتا تھا تو میں نے اسے فرصت کے اوقات کے طور پر لینا شروع کر دیا اور مجھے اٹلی کے قول ‘کچھ نہ کرنے کا لطف’ کا مزہ آنے لگا اور میرے لیے ان اوقات کا استعمال سامنے آیا کہ میں اس قسم کے کبھی کبھی رونما ہونے والے معاملات سے لطف اٹھانا سیکھ لیا۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}