افغانستان: وہ پانچ سبق جو 9/11 کے بعد ہم نے سیکھے (یا نہیں)
- فرینک گارڈنر
- بی بی سی کے نامہ نگار برائے سکیورٹی امور
وہ کون سے سبق ہیں جو ہم نے 20 سال دنیا بھر میں دہشتگردی کے خلاف لڑائی کر کے سیکھے ہیں؟ کیا کارآمد رہا اور کیا نہیں؟ آج جب افغانستان میں ایک ایسی تنظیم برسراقتدار ہے جو القاعدہ کو ٹھکانے دیتی تھی، کیا ہم 11 ستمبر 2001 کے مقابلے میں زیادہ سمجھدار ہوئے ہیں یا نہیں؟
اس وقت امریکہ اپنی سرزمین پر ہونے والے بدترین حملے کے تناظر میں ہر چیز دیکھ رہا تھا۔ اور ہر چیز سیاہ اور سفید میں بٹ گئی تھی۔ اچھے لوگ تھے اور برے لوگ تھے۔ حملے کے نو دن بعد صدر بش نے کہا کہ ہر قوم، ہر خطے کو اب فیصلہ کرنا ہے۔ یا آپ ہمارے ساتھ ہیں یا آپ دہشتگردوں کے ساتھ ہیں۔
اور پھر نام نہاد ‘وار آن ٹیرر‘ شروع ہو گئی اور اس جنگ میں افغانستان پر حملہ کیا گیا، عراق پر حملہ کیا گیا، اس عرصے کے دوران شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ پروان چڑھی، مشرق وسطیٰ میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا پھیلنے لگیں، ہزاروں فوجی اور اس سے کہیں زیادہ سویلین مارے گئے۔
مگر پھر بھی دہشتگردی ختم نہیں ہوئی۔ ہر بڑے یورپی ملک میں گذشتہ چند برسوں میں حملے ہوئے ہیں۔ مگر دہشت گردی کے خلاف کامیابی بھی ملی ہے کیونکہ 9/11 کے بعد سے ہمیں دوبارہ کسی اس نوعیت کے حملے کا سامنا نہیں ہوا۔
القاعدہ کے افغانستان میں اڈے ختم ہوئے ہیں۔ ان کی قیادت کو پاکستان میں پکڑا گیا ہے۔ شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ جس نے عراق اور شام میں تباہی مچائے رکھی، اسے ختم کیا گیا ہے۔
مندرجہ ذیل فہرست متنازع اور غیر مکمل ہے۔ یہ میرے اپنے تجربات پر مبنی ہے جو کہ میں نے مشرق وسطیٰ، افغانستان، واشنگٹن، اور گوتانامو بے میں جا کر حاصل کیے ہیں۔
1۔ اہم انٹیلیجنس کا تبادلہ کیا جائے
اشارے تھے مگر کوئی بھی وقت پر انھیں جوڑ نہ سکا۔ 9/11 سے چند ماہ پہلے امریکہ کی دونوں بڑی انٹیلیجنس ایجنسیوں سی آئی اے اور ایف بی آئی کو پتا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ مگر داخلی اور بیرونی انٹیلیجنس کے درمیان اتنا تناؤ تھا کہ وہ ایک دوسرے کو بتاتے نہیں تھے۔ اب 9/11 کمیشن کی رپورٹ نے بھی بہت سی غلطیوں کی نشاندہی کی ہے اور چیزیں بہتر ہوئی ہیں۔
2006 میں، جب میں ورجینیا میں امریکہ کے قومی انسدادِ دہشتگردی سنٹر گیا تو مجھے دیکھایا گیا کہ کیسے 17 امریکی ایجنسیاں ہر روز اپنی انٹیلیجنس کو اکھٹا کرتی اور ایک دوسرے کے ساتھ اس کا تبادلہ کرتی ہیں۔
برطانیہ نے جوائنٹ ٹیررازم انیلیسز سنٹر کے نام سے اپنا بھی ایک سنٹر بنایا ہے جہاں ایم آئی 5، آیم آئی 6، وزارتِ دفاع، وزارتِ ٹرانسپورٹ، وزارتِ صحت اور دیگر ادارے اکھٹے بیٹھ کر ملک کے اندر اور باہر برطانوی شہریوں کو لاحق خطرات کا متواتر جائزہ لیتے ہیں۔
مگر یہ نظام پرفیکٹ نہیں ہے۔ برطانیہ میں سنٹر کے قیام کے دو سال بعد القاعدہ نے لندن میں 7/7 حملے کیے جس میں برطانوی شہریوں کا استعمال کر کے 50 لوگوں کو مارا گیا۔ اگلے سال متعدد طیاروں کو ہوا میں بم سے اڑانے کا ایک پلان پاکستان کی مدد سے روکا گیا مگر 2017 میں برطانیہ میں مانچسٹر بم حملے ہوئے۔
چنانچہ اگر ترجیحات درست نہ ہوں تو انٹیلیجنس کو اچھے سے جمع کرنے کے باوجود حملے ہو سکتے ہیں۔
2015 میں پیرس میں باٹاکلان حملے جن میں 130 افراد مارے گئے تھے اور ان کے مقدمات ابھی جاری ہیں، جزوی طور پر اس وجہ سے ہوئے کہ یورپی حکام بروقت سرحد پار انٹیلیجنس نہیں پہنچا سکے۔
2۔ اپنے مشن کا تعین کریں اور اس سے توجہ نہ ہٹائیں
افغانستان میں طالبان کی واپسی کی کئی وجوہات میں سے ایک بہت اہم ہے: امریکہ کا 2003 میں عراق پر حملہ۔ یہ غلط فیصلہ افغانستان کے حالات سے توجہ ہٹنے کی ایک بڑی وجہ تھی۔
بہت سارے امریکی اور برطانوی فوجی جو کہ کامیابی کے ساتھ القاعدہ کا تعاقب کر رہے تھے، اور افغان ساتھیوں کے ساتھ کام کر رہے تھے تاکہ طالبان جارحانہ انداز نہ اپنا سکیں، انھیں اٹھا کر عراق بھیج دیا گیا تھا۔
اس کی وجہ سے طالبان اور دیگر گروہ افغانستان میں لوٹ سکے۔ نومبر 2003 میں جب میں افغانستان میں امریکی مورچوں میں گیا تو وہاں پر تب ہی فوج خود کو آپریشن فارگوٹن (یعنی بھلا دیا گیا آپریشن) کا حصہ کہہ رہے تھے۔
ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ افغانستان کا ابتدائی مشن واضح تھا اور ٹھیک سے اس پر عمل بھی کیا گیا۔ طالبان نے حملہ آوروں کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کیا تھا اور امریکہ نے شمالی اتحاد کے ساتھ مل کر طالبان اور القاعدہ کو ہٹانا تھا۔
مگر اس کے بعد آنے والے برسوں میں یہ مشن بدلتا گیا اور کئی مختلف سمتوں میں پھیل گیا۔ اس دوران بہت سے افغانوں کی زندگی تو بہتر ہوئی مگر قوم سازی کے نام پر اربوں ڈالر بدعنوانی کی نظر ہو گئے۔
3۔ اپنے ساتھیوں کا انتخاب دھیان سے کریں
برطانیہ کا اپنے قریب ترین ساتھی امریکہ کا 2003 کے عراق پر حملے میں اشتراک کا مطلب تھا کہ برطانیہ اس حوالے سے تمام اہم فیصلوں میں جونیئر پارٹنر تھا۔
عراقی فوج کو ختم نہ کرنے اور بعث پارٹی کے تمام تر لوگوں پر پابندیاں نہ لگانے کی اپیلوں پر غور نہیں کیا گیا۔ نتیجہ انتہائی تباہ کن تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ناراض اور بے دخل کی گئی پوری عراقی فوج اور انٹیلیجنس برادری جا کر جہادیوں سے مل گئی۔ آخر میں یہ داعش کی صورت میں سامنے آئی۔
9/11 کے بعد عالمی سطح پر جو افراتفری پھیلی تھی، اس کی وجہ سے امریکی اور برطانوی انٹیلیجنس ایسے حکمرانوں کے ساتھ بھی کام کرنے لگی جن کا انسانی حقوق کے حوالے سے ریکارڈ انتہائی پریشان کن تھا۔ اور اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔
مثال کے طور ہر 2011 میں کرنل قذافی کو لیبیا میں جب ہٹایا گیا تو صحافیوں کو ایک خط ملا جس میں ایک سینیئر ایم آئی 6 کے افسر نے لیبیا میں اپنے ہم منصب کو لکھا تھا جس میں انھوں نے ایک شخص کی گرفتاری اور ملک بدری کی بات درخواست کی تھی۔
آج پرتشدد جہاد افریقہ کے کئی علاقوں میں ابھر رہا ہے اور مغربی ممالک کے پاس اپنا اتحادی یا ساتھی بنانے کو کوئی نہیں ہے۔
4۔ انسانی حقوق کی پاسداری کریں یا اخلاقی اقدار کے دعوے چھوڑ دیں
مشرق وسطیٰ میں مجھے لوگوں نے کئی بار کہا ’ہمیں امریکی خارجہ پالیسی بھلے پسند نہ ہو مگرگوانتاناموبے سے پہلے تک ہم اس کے قانون کی عزت ضرور کرتے تھے۔‘
میدانِ جنگ سے مشتبہ افراد کو گرفتار کر کے، جن میں سے بہت سے معصوم اور بے گناہ تھے اور انعامی رقم کے لیے فروخت کیے گئے تھے، ان سب کو نیپی پہنا کر، ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر دنیا کے دوسرے کونے میں کیوبا میں امریکی بحریہ کے حراستی مرکز میں رکھنے نے امریکہ اور مغربی ممالک کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا۔
یہ بھی پڑھیے
بغیر مقدمے کے حراست آمرانہ حکومتیں کرتی ہیں اور عربوں کو امریکہ سے اس کی توقع نہیں تھی۔ اور پھر وہاں ہونے والے بدترین تشدد کی باتیں تو بعد میں نکلیں جیسے کہ واٹر بورڈنگ، سی آئی اے کی بلیک سائٹوں پر تشدد جہاں پر مشتبہ دہشتگرد غائب ہو جاتے تھے۔ اوباما انتظامیہ نے اسے بند کیا مگر بہت نقصان پہلے ہی ہو چکا تھا۔
5۔ فرار کا راستہ رکھیں
9/11 سے پہلے مغربی مداخلتیں قدرے تیز اور قدرے سادہ تھیں۔ سیئرہ لیون، کوسووہ، ڈیزرٹ سٹورٹ 1991 سب کی کوئی مخصوص مدت تھی۔
مگر امریکہ کی افغانستان اور عراق میں جنگوں کو دائمی جنگوں کا نام دیا جانے لگا تھا۔ 2001 یا 2003 میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس میں 20 سال لگ جائیں گے۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو مغربی ممالک کو پتا ہی نہیں تھا کہ وہ کس کام کو جا رہی ہیں اور ان کے پاس کوئی حقیقت پسندانہ انخلا کا راستہ نہیں تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر مغربی ممالک 2001 میں طالبان اور القاعدہ کو افغانستان سے نہ ہٹاتے تو وہاں سے مزید حملے ہو سکتے تھے۔ اس ملک میں انسدادِ دہشتگردی کا مشن ناکام نہیں ہوا ہے مگر ملک سازی کا مشن کبھی مکمل ہی نہیں ہوا۔
اور آج جو تصویر لوگوں کے ذہن میں ہوگی وہ ہے کہ افغان ان جہازوں سے لٹک رہے تھے تاکہ وہ اس ملک سے جا سکیں جس کو مغرب نے تو تباہ حال چھوڑ ہی دیا ہے۔
Comments are closed.