- مصنف, رونالڈ اویلا کلاڈیو
- عہدہ, بی بی سی منڈو
- 2 گھنٹے قبل
یہ آٹھ جون، 1983 کی بات ہے جب امریکہ کی ریاست کنساس میں پولیس کو ایک چرچ سے میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس ایک پریشان حال خاتون ملیں۔ جب اس خاتون نے پولیس سے بات کی تو کوئی ان کی زبان سمجھ نہیں پایا۔ پولیس نے ان سے انگریزی میں پوچھ گچھ کرنے کی کوشش لیکن بات نہ بنی۔ کوئی نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں۔ بالآخر انھیں اگلے 12 سال قید میں گزارنے پڑے۔یہ میکسیکو کی مقامی راراموری کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ریٹا پاتینو کوئینتیرو تھیں۔ اس دن انھوں نے کنساس کے شہر منٹر میں ایک میتھوڈسٹ چرچ کے تہہ خانے میں پناہ لی ہوئی تھیں۔میکسیکو کے فلمساز و ہدایت کار سینٹیاگو ایسٹینو نے ان کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم ’دی وومن آف سٹارز اینڈ ماؤنٹینز‘ بنائی ہے۔ ریٹا کی زندگی پر بنی اس فلم کا پریمیئر اپریل 2024 میں ہوا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس ابتدائی پوچھ گچھ کے بعد پولیس ریٹا کو اپنے ساتھ لے گئی۔ جب پولیس سٹیشن میں ایک افسر نے انھیں صاف ستھرا لباس دینے اور نہلانے دھلانے کی کوشش کی تو ریٹا نے اسے پیٹ دیا۔‘
’مجھے فطرت کے قریب رہنا بہت اچھا لگتا ہے‘
ایسٹینو نے اپنی دستاویزی فلم کی عکس بندی 2016 میں شروع کی لیکن انھیں یہ پروجیکٹ مکمل کرنے میں چھ سال سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا۔فلم میں اپنی آبائی ریاست چیہواہوا کے پہاڑوں کو دیکھتے ہوئے ریٹا اپنی مادری زبان راراموری میں کہتی دکھائی دیتی ہیں کہ ’میں کبھی بیمار نہیں ہوئی، مجھے فطرت کے قریب رہنا بہت اچھا لگتا ہے۔‘چیہواہوا شمالی میکسیکو کی ایک ریاست ہے جہاں راراموری کمیونٹی کے افراد آباد ہیں۔
زبان کا مسئلہ
ریٹا صرف راراموری زبان جانتی تھیں اور دوسری طرف کنساس کے عدالتی نظام اور ہسپتال میں کوئی ایسا نہیں تھا جو ان کی باتوں کا ترجمہ کر سکے۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور انھیں کیوں قید کیا جا رہا ہے۔سرکاری مترجم بھی ان کی زبان نہیں سمجھتا تھا۔ایسٹینو نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ریٹا کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جہاں جج نے فیصلہ دیا کہ ان کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے اور وہ اپنے لیے خطرہ کا باعث ہیں جس کے بعد انھیں نفسیاتی ہسپتال بھیج دیا گیا۔اس کے بعد ان کی بقیہ زندگی طبی تشدد، ادارہ جاتی بیوروکریسی اور تنہائی کا شکار ہوکر رہ گئی۔،تصویر کا ذریعہPIANO PRODUCTIONS
ریٹا کی حقیقت کیا ہے؟
ریٹا کی زندگی پراسرار رازوں سے بھری تھی۔ ریٹا کی زندگی پر بنی دستاویزی فلم کے مطابق وہ چرواہا، دائی، جڑی بوٹیوں کی ماہر، کاریگر، دھوبی کے علاوہ اور بھی بہت کچھ تھیں۔ایسٹینو نے اپنی دستاویزی فلم کے لیے ان کی بھابھی، بھانجی اور کئی پڑوسیوں سے بات کی جو انھیں اچھے سے جانتے تھے۔ان کے خیال میں ایک چیز جو ریٹا کو ان کی کمیونٹی کی باقی خواتین سے منفرد بناتی ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے کبھی اس کمیونٹی کے قواعد کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا۔ریٹا غالباً سنہ 1930 میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا تعلق چیہواوا کے پیڈراس ورڈیس سے ہے تاہم بعد میں انھوں نے سیروکاہوئی علاقے میں رہائش اختیار کرلی۔ایسٹینو کے مطابق ان کا ایک ساتھی اور ایک بیٹا بھی تھا۔ ریٹا اپنی برادری میں ’ایک امیر خاتون‘ سمجھی جاتی تھیں کیوںکہ ان کے پاس بھیڑوں کا ایک بڑا ریوڑ تھا۔لیکن ایک روز سب کچھ بدل گیا اور اچانک ریٹا جلد ہی ’خوف کی علامت‘ اور ’ناپسندیدہ‘ بن گئیں۔ان کا ریوڑ چوری ہو گیا اور پڑوسیوں نے ان پر اپنے شوہر کو قتل کرنے کا الزام لگایا تاہم یہ دعویٰ کبھی ثابت نہیں ہوسکا۔پروکوپیو مانکیناس ان کے پڑوسیوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے ان کی زندگی پر مبنی دستاویزی فلم میں حصہ لیا۔انھوں نے بتایا کے ’لوگوں نے ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ ان کی اپنے شوہر سے لڑائی ہوئی جس کے بعد انھوں نے اس کے ساتھ مار پیٹ کی اور انھیں مار ڈالا۔‘مانکیناس کہتے ہیں کہ ریٹا نے جیرونیمو رینٹیریا کو نہیں مارا تھا۔ ’ریٹا پاٹینو سے ان کی بکریوں کو لوٹ لیا گیا، ان کے کمبل چوری ہو گئے، ان کی بھیڑیں چرا لی گئیں۔‘ایسٹینو کو اپنی تحقیق کے دوران چیہواہوا میں ان کے ساتھی کی موت کے بارے میں کوئی ریکارڈ نہیں ملا۔کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ریٹا کے پاس کسی قسم کی ’جادوئی طاقت‘ تھی۔لیکن حقیقت کچھ اور تھی۔ ایسٹینو کے مطابق ریٹا کو بولنے میں دشواری تھی اور وہ اپنے بیٹے کے ساتھ گھومنے لگیں۔ ان کی برادری انھیں خوف کی نظروں سے دیکھتی تھی۔ ریٹا کے پڑوسی کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ ان سے تعلق رکھنا نہیں چاہتے تھے۔مانکیناس کہتے ہیں کہ ریٹا جب کہیں بھی جاتی تو لوگ ان پر دروازے بند کر دیتے۔ ’لوگوں کا خیال تھا کہ وہ انھیں مارنا چاہتی تھیں۔ لیکن اصل میں وہ بھوکی تھیں اور صرف کھانا چاہتی تھیں۔‘ایسٹینو کہتے ہیں کہ جب ان کے بارے میں یہ ساری باتیں مشہور ہوئیں تو حکام نے ان کے بیٹے کو ان سے چھین لیا۔ریٹا نے میکسیکو کیوں چھوڑا اور وہ کینساس تک کیسے پہنچیں یہ آج بھی ایک معمہ ہے۔ خیال یہ ہے کہ وہ پیدل چل کر میکسیکو سے کنساس پہنچیں۔،تصویر کا ذریعہPIANO PRODUCTIONS
- گوانتانامو بے کے وہ سابق قیدی جو بدنام زمانہ عقوبت خانے میں واپس جانا چاہتے ہیں19 جون 2022
- مناہل العتیبی: محمد بن سلمان کی اصلاحات کی حامی سعودی خاتون جنھیں ’دہشت گردی قوانین‘ کے تحت 11 سال قید کی سزا سنائی گئی2 مئ 2024
- ’میرا شوہر مجرم تھا‘: دولتِ اسلامیہ کے سابق سربراہ ابوبکر البغدادی کی کہانی ان کی اہلیہ کی زبانی10 جون 2024
ریٹا کی آزادی
ابتدائی طور پر کنساس کی عدالت نے انھیں تین ماہ کے لیے نفسیاتی ہسپتال میں داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس مدت کے اختتام پر ان کی حالت کا دوبارہ جائزہ لیا جانا تھا تاہم عدالت کی جانب سے مقرر کردہ وکیل کبھی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوا۔مترجم نہ ہونے کے باعث وکیل ان سے بات بھی نہیں کر پایا تھا۔ اس وقت طبی عملے نے دعویٰ کیا تھا کہ انھیں اس بارے میں کوئی معلومات نہیں کہ مریض کا تعلق کہاں سے ہے اور اس ہی وجہ سے ان کے خاندان کے کسی بھی فرد سے رابطہ کرنا ممکن نہ تھا۔ان کی قید کے مہینے سالوں میں تبدیل ہو گئے۔ ریٹا بول نہیں پا رہی تھیں، وہ اکیلی اپنے گھر سے بہت دور تھیں۔ کوئی ان کی زبان سمجھ نہیں پا رہا تھا اور اس ہی وجہ سے انھیں بنا ٹھوس تشخیص کے دوائیاں دی جاتی رہیں۔ایسٹینو کہتے ہیں ریٹا کے معاملے میں انھیں امتیازی سلوک کے بہت سے عناصر دکھتے ہیں۔ ’وہ ایک غریب مہاجر خاتون تھیں جو انگریزی نہیں بول سکتی تھی اور شاید معذوری کا شکار بھی تھی۔‘اس صورتحال کو بدلنے میں تقریباً دس سال لگے۔ سنہ 1994 میں کنساس ایڈوکیسی اینڈ پروٹیکٹیو سروسز آرگنائزیشن نے ان مریضوں کے کیسز کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا جو پانچ سال سے زیادہ عرصے سے ہسپتال میں تھے۔ یہ تنظیم اب ڈس ایبیلیٹی رائٹس سینٹر آف کنساس کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس ادارے نے ریٹا کے لیے توریا مروز کو بطور وکیل تفویض کیا۔مروز کہتی ہیں کہ پہلی چیز جو انھوں نے کی وہ ریٹا کے میڈیکل ریکارڈ کی جانچ پڑتال تھی۔ ’دستاویزات کے ابتدائی مرحلے میں ہی اس بات کا حوالہ موجود تھا کہ ریٹا کا تعلق چیہواہوا سے ہے اور وہ ایک مقامی تاراہومارا (راراموری) ہیں۔‘’اس تمام وقت کے دوران یہ معلومات ان کی میڈیکل فائل میں موجود تھی لیکن اس کے باوجود دس سال گزر چکے تھے اور وہ وہیں قید تھیں۔‘مروز کہتی ہیں کہ اس سب کے باوجود ہسپتال کا عملہ کہتا رہا کہ انھیں نہیں معلوم کہ ریٹا کہاں کی ہیں یا وہ کون سی زبان بولتی ہیں۔بالآخر اس تنظیم نے ہسپتال اور اس کے 30 سے زائد عملے کے خلاف ایک کروڑ ڈالر ہرجانے کا مقدمہ دائر کر دیا۔قانونی چارہ جوئی میں کافی مشکلات پیش آئیں کیوں کہ ریٹا عدالت میں گواہی نہیں دے سکتی تھیں۔ایسٹینو کا کہنا ہے کہ اس وقت صرف ایک نفسیاتی ماہر راراموری (تراہومارا) سمجھنے کے قابل تھا۔ سنہ 1995 میں ریٹا نفسیاتی ہپستال سے ڈسچارج ہو کر میکسیکو پہنچ گئیں لیکن یہ کیس سنہ 2001 تک چلتا رہا۔ آخرکار یہ کیس ثالثی کے ذریعے ختم ہوا۔ریٹا کو 90 ہزار ڈالر معاوضہ ملا لیکن اس میں سے 32,641 ڈالر اس این جی او کو دیے گئے جس نے ان کی مدد کی تھی۔بقایہ رقم ریٹا کی امداد کے لیے استعمال کی جانی تھی۔،تصویر کا ذریعہPIANO PRODUCTIONS
غربت کی زندگی مگر ’خوش‘
ریٹا اس کے بعد بھی غربت کی زندگی گزارتی رہیں۔ ایسٹینو کہتے ہیں کہ عدالت نے ایک ٹرسٹ بنا کر این جی او کی جانب سے منتخب کردہ راہبہ بیٹرس زپاتا کو ریٹا کے اثاثوں کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا۔’تقریباً دو سال تک وہ انھیں ماہانہ تقریباً 300 ڈالر دیتی رہیں۔ اس کے بعد انھوں نے ریٹا کو یک مشت 6000 ڈالر دیے اور پھر راہبہ باقی پیسے لے کر غائب ہو گئی۔‘کئی سالوں تک راہبہ ریٹا کے پیسے خود استعمال کرتی رہیں۔ عدالت ان سے صرف 10,000 ڈالر وصول کر سکی۔اس کے بعد ٹرسٹ کے دو نئے ایڈمنسٹریٹر مقرر کئے گئے جو ٹرسٹ کے انتظام سنبھالنے کے لیے ہر سال ایک ہزار ڈالر لیتے تھے۔ان دونوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ریٹا کو ڈھونڈ نہیں پائے اور بالآخر دس سال بعد پیسے ختم ہو گئے۔ریٹا ایکیلی ایسی خاتون نہیں جو لاطینی امریکہ میں زبان سمجھ نے پانے کی وجہ سے طبی لاپرواہی کا شکار ہوئیں۔ شمالی امریکہ میں بہت سی مقامی خواتین کو اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ریٹا پاٹینو 2018 میں انتقال کر گئیں۔ ان کی موت کے بعد ان کے خاندان اور برادری کے افراد نے ’جشن‘ منایا۔راراموری لوگوں کا ماننا ہے کہ مرنے والوں کو جشن کے ساتھ الوداع کرنے سے انھیں اگلے جنم کے سفر میں مدد ملتی ہے۔ایسٹینو یاد کرتے ہیں کہ میکسیکو میں گزارے اپنے وقت کے دوران، ریٹا گاتی اور رقص کرتی تھی اور وہ اپنی زندگی میں خوش تھیں۔ایسٹینو سے ایک ملاقات کے دوران ریٹا نے انھیں بتایا تھا کہ ’میں یہاں (اپنے وطن میں) آکر بہت خوش ہوں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.