’وہ میری زندگی کی بدترین رات تھی جب میں نے ایک لاکھ 27 ہزار پاؤنڈ جیتے‘
لیزا واکر ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے تک جوے کی لت میں مبتلا رہیں اور ان کی یہ عادت ان کی زندگی کی دوسری دہائی میں اس وقت بگڑ گئی جب اُنھوں نے پوکر کھیلتے ہوئے بہت بڑی رقم جیتی۔
‘میں نے ایک رات میں ایک لاکھ 27 ہزار پاؤنڈ سے زیادہ جیتے۔ وہ میری زندگی کی سب سے بری رات تھی کیونکہ تب ہی میری جوے کی لت بے قابو ہونے لگی تھی۔’
‘کیسینو چاہتا تھا کہ میں واپس آؤں اور اُنھوں نے مجھے لبھانے کے لیے مفت ڈرنکس سے لے کر مفت کھانے تک ہر چیز کی پیشکش کی۔’
وہ کہتی ہیں کہ وہ وہاں اکثر جایا جکرتی تھیں اور اپنی اس تباہ کن عادت کی تسکین کے لیے مقامی بنگو ہال اور جوے کے اڈے پر بھی جایا کرتیں۔
‘زیادہ تر دن میں جوا کھیلنے کے بارے میں سوچتی اور زیادہ تر دن میں جوا کھیلتی بھی۔ یہ اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ میرے نزدیک پیسے کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی تھی۔’
بالآخر اُنھوں نے اپنی تمام جیتی ہوئی رقم گنوا دی اور اپنا گھر بھی، کیونکہ وہ اسے گروی رکھوا کر جوا کھیلنے لگی تھیں۔
پھر اُنھیں اپنے 10 اور 11 سال کے دو بچوں کے ساتھ کچھ عرصے کے لیے ایک ہوسٹل میں بھی ٹھہرنا پڑا۔
اب برطانیہ میں نقصاندہ حد تک جوے کی عادت کی زد میں موجود 10 لاکھ خواتین کی آگاہی کے لیے ایک مہم چلائی جا رہی ہے۔
فلاحی ادارے گیمبل اویئر کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ خطرے کی علامات کو یا تو سمجھ نہیں پاتے یا اتنے شرمسار ہوتے ہیں کہ مدد حاصل نہیں کر پاتے۔
یہ اندازہ یوگوو پول کی جانب سے 9649 خواتین کے ایک قومی نمائندگی پر مبنی سروے سے آیا ہے جس کا مقصد جوے سے نقصانات کا تخمینہ لگانا ہے۔ سروے کے مطابق پانچ لاکھ کے قریب خواتین خطرناک حد تک جوے کی عادت میں مبتلا ہو سکتی ہیں۔
یہ مہم مارچ سے ٹی وی، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل چینلز پر شروع ہو گی۔
پینتالیس سال کی عمر میں بھی لیزا کی لت جاری رہی۔ اُنھوں نے لاس ویگاس میں ہی اپنے شریکِ حیات سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر شادی کی رات دولہے اور مہمانوں کے ساتھ لطف اندوز ہونے کے بجائے وہ رات بھی اُنھوں نے جوا کھیلتے ہوئے گزاری۔
جب وہ ویگاس سے واپس آئیں تو اُنھیں احساس ہوا کہ اُنھیں مدد کی ضرورت ہے کیونکہ اُن کے مطابق جوا اُنھیں ایک ‘تاریک، گہری جگہ’ تک لے گیا تھا جہاں وہ اس کے علاوہ اور کسی چیز کے بارے میں نہیں سوچ پاتی تھیں۔
لیزا نے پھر ایک گیمبلرز اینونیمس میٹنگ میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا جہاں وہ 35 مردوں کے ساتھ دو خواتین میں شامل تھیں۔ اب وہ ہر ہفتے ان میٹنگز میں شامل ہوتی ہیں اور اب وہ دیکھ رہی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ خواتین ان میٹنگز میں آنے لگی ہیں۔
لیزا اب بحالی کے دور سے گزر رہی ہیں اور اب وہ اپنا خواتین کا گروپ بنا رہی ہیں اور اب وہ ایک فلاحی تنظیم بیٹ نو مور کے ساتھ کارکن کے طور پر بھی کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آن لائن جوا لت میں مبتلا ہونے کا ایک نیا ذریعہ ہے۔
‘ہم دیکھ رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ آن لائن یہ کام کر رہے ہیں۔ آپ کے پاس 24 گھنٹے موبائل فون ہوتا ہے اور 24 گھنٹے ہی آپ کی جیب میں ایک کیسینو پڑا رہتا ہے اور دو ہی منٹ میں آپ آن لائن جواری بن سکتے ہیں۔’
برطانوی خواتین میں جوے کی لت کی ماہر اور کونسلر لز کارٹر نے کہا: ‘جوے کے رویے خواتین میں مردوں کے مقابلے میں مختلف انداز میں ظاہر ہوتے ہیں۔’
‘مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ آن لائن جوے کی آسان رسائی خواتین کو ان گیمز تک لے جاتی ہے جو معصومانہ اور سماجی طور پر قابلِ قبول نظر آتے ہیں۔ یہ گیم محفوظ اور مانوس نظر آتے ہیں کیونکہ یہ ان مفت ڈیجیٹل گیمز جیسے ہی ہوتے ہیں جنھیں کھیلنے کے ہم عادی ہوتے ہیں۔
‘اس کے علاوہ مالی فوائد کی امید بھی طاقتور محرک ہو سکتی ہے۔ ویسے تو جوا ہمیشہ نقصان کا باعث نہیں بنتا مگر یہ اہم ہے خواتین کو ابتدائی انتباہی علامات کا اندازہ ہو مثلاً وقت کا احساس نہ رہنا، قرض کا بڑھنا، دوسروں سے اپنے جوے کو چھپانا یا پھر اپنے مسائل بھولنے کے لیے جوا کھیلنا۔’
اس کے علاوہ ڈاکٹر ایلی کینن کے مطابق جوے کے نقصانات کی ابتدائی علامات یہ ہو سکتی ہیں:
اپنی مالی سکت سے زیادہ جوا کھیلنا
قرض لے کر جوا کھیلنا
جوا کھیلتے ہوئے وقت کا احساس نہ رہنا
اس حوالے سے اضطراب یا ندامت محسوس کرنا
جوے کو اپنے گرد لوگوں سے چھپانا
برطانیہ میں جوے کے نگران ادارے گیمبلنگ کمیشن نے کہا: ‘اس طرح کی مہم لوگوں میں جوے کے نقصانات کے حوالے سے آگاہی کے لیے نہایت ضروری ہیں۔
‘ہم ایسے کسی بھی اقدام کی حمایت کرتے ہیں جو جوا کھیلنے والوں کو محفوظ انداز میں ایسا کرنے کے لیے مدد اور مشورہ فراہم کرے۔ جوے کی کمپنیوں پر ہماری سخت ریگولیٹری شرائط کے علاوہ یہ بھی جوے سے منسلک نقصانات کو روکنے اور انھیں کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔’
Comments are closed.