وہ ملک جہاں مخبری کرنا منافع بخش کام ہے: ’میں نے یہ کام اپنے دادا سے سیکھا جو خود ایک مخبر تھے‘
- مصنف, امالیا زتاری
- عہدہ, بی بی سی روسی
’مجھے میرے دادا نے مخبری کرنے کا فن سکھایا تھا کیونکہ وہ خود بھی ایک مخبر تھے۔‘
روس سے تعلق رکھنے والی اینا نے اپنی کہانی کی ابتدا کچھ یوں کی۔
وہ کہتی ہیں کہ ایسا نہیں تھا کہ اُن کے دادا کوئی گمنام مخبر تھے جو نام بدل کر یا فرضی نام سے خفیہ پولیس کے لیے مخبری کا کام کیا کرتے تھے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب سویت یونین پر سٹالن کی حکمرانی تھی اور حکومت کو مخبری کرنا ایک روز مرہ کا عمومی کام تھا۔
اینا کہتی ہیں کہ ’میں اب اپنے دادا کے نقش قدم پر چل رہی ہوں۔‘
اینا کے مطابق وہ خفیہ پولیس کو ہر اس شخص کی مخبری کرتی ہیں جو اُن کے خیال میں یوکرین جنگ کا ناقد یا مخالف ہے۔ مگر صورتحال صرف اس حد تک بدلی ہے کہ اپنے دادا کے برعکس، جو اپنا نام اور پہچان بطور مخبر ظاہر کرتے تھے، اینا اس کام کے لیے اپنا فرضی نام استعمال کرتی ہیں اور انھوں نے بی بی سی کو یہ بتانے سے بھی انکار کیا کہ وہ روس کے کس شہر میں رہتی ہیں۔
اینا کا دعویٰ ہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے وہ 1397 مرتبہ مخبری کر چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی جانب سے فراہم کی جانے والی اطلاعات کی بنیاد پر بہت سے لوگوں کو جرمانے ہوئے، چند افراد کو سرکاری سطح پر ’غیرملکی ایجنٹ‘ قرار دیا گیا جبکہ بہت سے لوگ اپنی نوکریوں سے برطرف ہوئے۔
ان کے مطابق ’مجھے اس سب پر افسوس نہیں ہے۔ اگر میری وجہ سے چند لوگوں کو سزا دی گئی تو مجھے اس پر خوشی ہے۔‘
اینا نے یوکرین جنگ کی ابتدا کے بعد سے اپنا زیادہ وقت آن لائن لوگوں پر نظر رکھتے ہوئے گزارا ہے جہاں وہ ’روسی فوج کو بدنام کرنے‘ والے شہریوں کی مخبری قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کرتی ہیں۔
روس میں فوج کو بدنام کرنا ایک ایسا جرم ہے جس کا ارتکاب اگر ایک سے زیادہ بار ہوتا ہے تو 50 ہزار روبل (روسی کرنسی) تک جرمانہ ہو سکتا ہے یا پھر پانچ سال تک قید سخت کی سزا ہو سکتی ہے۔
،تصویر کا ذریعہReuters
جوزف سٹالن کے دور میں روس میں مخبری عام تھی
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اینا بہت محتاط نظر آئیں اور انھوں نے ہم سے تمام بات چیت بذریعہ ای میل کی۔ اس دوران نہ تو وہ اپنا چہرہ دکھانے پر راضی ہوئیں اور نہ ہی اپنی شناخت ظاہر کرنے پر۔
اس کی وجوہات بتاتے ہوئے انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں اکثر جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی ہیں چنانچہ انھیں خدشہ تھا کہ اُن کی ذات سے متعلق معلومات ہیک یا چوری ہو سکتی ہیں۔
اینا کے نزدیک کسی روسی شہری کی مخبری کرنے کی دو بنیادی وجوہات ہیں: ایک تو یہ کہ وہ سمجھتی ہیں کہ ایسا کر کے وہ یوکرین کو شکست دینے میں روس کی مدد کر رہی ہیں اور دوسرا اس کام سے اُن کی ذات کو ہونے والا مالی فائدہ۔
اپنے گھر میں وہ تنہا رہتی ہیں۔
اس جاری جنگ میں یوکرین کی جیت کو اپنے لیے نقصاندہ بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’وہ تمام لوگ جو یوکرین میں روس کے فوجی آپریشن کی مخالفت کرتے ہیں وہ میری بھلائی کے دشمن ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اس جنگ میں یوکرین کی جیت کی صورت میں وہ مالی طور پر غیر مستحکم ہو سکتی ہیں اور انھیں اپنی نوکری سے بھی ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔ مخبری کے کام کے علاوہ اینا ایک تعلیمی ادارے میں جزوقتی پروفیسر کے طور پر پڑھاتی بھی ہیں۔
روس میں انسانی حقوق پر کام کرنے والی ایک تنظیم ’او وی ڈی-انفو‘ کے مطابق جب سے روس میں سینسر شپ کے نئے قوانین متعارف ہوئے ہیں اس کے بعد فوج کو بدنام کرنے کے الزامات کے تحت 8,000 سے زیادہ مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔
ٹارگٹ
،تصویر کا ذریعہALEKSANDRA ARKHIPOVA
آرخیپووا علم بشریات کی ماہر ہیں اور انھوں نے روس میں مخبری پر تحقیق کی ہے
اینا زیادہ تر اُن شہریوں کی مخبری کرتی ہیں جنھیں میڈیا ٹاک شوز پر بات چیت یا تجزیے کے لیے بلایا جاتا ہے، خاص طور پر ایسے لوگ جو بین الاقوامی ذرائع ابلاغ جیسا کہ بی بی سی پر بات کرتے ہیں۔ اینا کی مخبریوں کا شکار بننے والوں میں ایک معروف نام ماہر بشریات الیگزینڈرا آرخیپووا کا بھی ہے۔ آرخیپووا اگرچہ روسی شہری ہیں مگر فی الحال وہ روس سے باہر قیام پذیر ہیں۔
آرخیپووا بتاتی ہیں ’اُس (اینا) نے میری سات بار حکام کو شکایت کی ہے۔ مخبری کے ذریعے حکام کے ساتھ رابطے میں رہنا اس (اینا) کا مشغلہ ہے اور وہ اسے اپنا مشن سمجھتی ہے۔‘
روسی شہری آرخیپووا ابھی بیرون ملک مقیم ہیں مگر اینا کی اُن کے حوالے سے مخبریوں کی بدولت روس کی حکومت نے آرخیپووا کو مئی 2023 میں ’غیرملکی ایجنٹ‘ قرار دے دیا تھا۔
آرخیپووا نے کہا کہ ’میرے کئی دوست، جن کی اینا نے مخبری کی تھی، وہ اب میڈیا پر نہیں آتے اور صورتحال پر اپنا تبصرہ پیش کرنے کے انکار کرتے ہیں۔ اس لیے آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ (اینا) کامیاب ہیں اور ان کا مشن مکمل ہو گیا ہے۔‘
اینا کی مخبریوں کا شکار بننے والی ایک اور خاتون تاتیانا چروینکو ہیں جو روسی دارالحکومت ماسکو میں ایک سکول ٹیچر تھیں۔
جب روس نے ستمبر 2022 میں تعلیمی اداروں میں حب الوطنی کی کلاسیں متعارف کروائیں تو چروینکو نے یہ کلاس لینے کے بجائے ریاضی کا مضمون پڑھانے کا فیصلہ کیا۔ چروینکو نے یہ بات ایک روسی ٹی وی چینل کو بتائی تھی۔
،تصویر کا ذریعہTATIANA CHERVENKO
تاتیانا چروینکو سکول ٹیچر تھیں اور آج کل وہ بیرون ملک مقیم ہیں
اینا نے چروینکو کا یہ ٹی وی انٹرویو دیکھا اور پھر اس سے متعلق شکایت ماسکو کے محکمہ تعلیم سے کی جس کے نتیجے میں چروینکو کو دسمبر 2022 میں نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔
اینا کو اپنے ان کاموں پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے بلکہ وہ ان تمام افراد کا ریکارڈ اپنے پاس رکھتی ہیں جن کے بارے میں انھوں نے مخبریاں کیں اور یہ کہ اُن مخبریوں کا کیا نتیجہ نکلا۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی جانب سے کی جانے والی شکایات کے بعد چھ افراد کو روس میں سرکاری ملازمتوں سے نکالا گیا جبکہ 15 افراد کو سرکار کو بھاری جرمانے ادا کرنے پڑے یا انھیں غیرملکی ایجنٹ قرار دیا گیا۔
اینا کا کہنا ہے کہ وہ صرف اُن لوگوں کو نشانہ بناتی ہیں جو ان کے خیال میں ریاست کے دشمن ہیں۔ تاہم بہت سے روسی شہریوں نے بی بی سی کو بتایا کہ روس میں ذاتی عناد یا مخالفت کے طور پر بھی مخبری کرنے کا رواج عام ہے۔
قید اور آزادی کی چاہ
،تصویر کا ذریعہHANDOUT
یاروسلاو لیوچینکو جیل میں ہیں اور اپنے مقدمے کی سماعت کے منتظر ہیں
ماہی گیری کے پیشے سے منسلک یاروسلاو لیوچینکو کا تعلق ’کمچتکا‘ نامی علاقے سے ہے۔ یہ علاقہ روس کے انتہائی مشرق میں واقع ہے اور یہ نہ صرف اپنے آتش فشاںوں کے خوبصورت مناظر اور غیر معمولی جنگلی حیات کے لیے جانا جاتا ہے بلکہ روسی فوج کی بڑی تعداد میں یہاں موجودگی بھی اس کی شہرت کا باعث ہے۔
یہ علاقہ روسی صدر پوتن کے حامیوں کا گڑھ ہے۔ پوین کے ان حامیوں میں لیوچینکو کے دوست احباب بھی شامل ہیں۔
فروری 2023 میں لیوچینکو کی کشتی ایک ماہ طویل ماہی گیری کے سفر کے بعد کمچتکا کی بندرگاہ پر پہنچی۔ اُن کا کہنا ہے کہ کشتی پر موجود ان کے ایک ساتھی ماہی گیر نے انھیں اس موقع پر شراب کی پیشکش کی، جسے انھوں نے بوجوہ ٹھکرا دیا۔
لیوچینکو کا دعوٰی ہے کہ اُس شخص کے دل میں پہلے ہی ان کے لیے کدورت تھی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شراب کی آفر ٹھکرانے کے معاملے پر اُن میں تکرار ہو گئی۔ لیوچینکو بتاتے ہیں کہ جھگڑا بات چیت سے آگے بڑھا تو اس شحص نے اُن کے سر پر بوتل سے وار کیا جس کے نتیجے میں وہ بیہوش ہو گئے اور انھیں ہسپتال پہنچ کر ہی ہوش آیا۔
لیوچینکو کہتے ہیں کہ جب وہ ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے اور رپورٹ درج کرانے کے لیے پولیس سٹیشن پہنچے تو انھیں پتا چلا کہ ان کے خلاف پہلے ہی شکایت درج ہو چکی ہے۔ اور یہ شکایت مار پیٹ کے کیس میں نہیں بلکہ بلکہ جنگ مخالف خیالات رکھنے کے الزامات کے تحت کی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ میں زخمی تھا مگر پولیس نے کہا کہ میرے پاس اپنے ساتھی کے خلاف مقدمہ درج کروانے کے لیے ناکافی شواہد ہیں۔
اس کے بعد لیوچینکو کو 13 جولائی 2023 کو گرفتار کر لیا گیا۔ بی بی سی کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق اُن پر دہشت گردی کو جائز ٹھہرانے کا الزام لگا تھا جس سے وہ انکار کرتے ہیں۔ وہ فی الحال مقدمے کی سماعت کا انتظار کر رہے ہیں اور پولیس کی حراست میں ہیں۔
ان کے پاس بی بی سی کو اپنی کہانی سنانے کا واحد طریقہ خطوط ہیں جو وہ اپنے وکیل کے ذریعے ہم تک پہنچاتے ہیں۔ انھوں نے ایک خط میں لکھا کہ ’تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ’روس کے خلاف جارحیت کا حصہ بننے کے ارادے کا اظہار کرتے ہوئے میں نے دوسرے ماہی گیروں کے خلاف جسمانی طاقت کا استعمال کیا۔۔۔‘
لیوچینکو کے دوستوں نے مجھے بتایا کہ ان کے خیال میں اس کی شکایت اس لیے کی گئی کہ وہ پولیس کی توجہ اس کے خلاف ہونے والے حملے اور اس حقیقت سے ہٹانے کے لیے تھی کہ جس جہاز میں وہ لوگ شراب نوشی کر رہے تھے وہاں شراب نوشی ممنوع تھی۔
لیوچینکو نے اپنے ایک دوست کو خط لکھا جو بی بی سی کو دکھایا گیا ہے۔ اس خط میں وہ لکھتے ہیں کہ ’میں صرف گھر آنا چاہتا ہوں۔ میری جیل کی کوٹھری سے صرف آسمان نظر آتا ہے اور وہ بھی سلاخوں کی کئی قطاروں کے پیچھے۔ یہ سب ناقابل برداشت ہے۔‘
’الزامات کا لامتناہی سلسلہ‘
روسی پولیس نے تسلیم کیا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے ان کے پاس اس نوعیت کی شکایتوں اور مخبریوں کے انبار لگ گئے ہیں۔ حکام نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ ’فوج کو بدنام کرنے کے لامتناہی الزامات‘ کی تفتیش اور ان پر نظر ثانی کرنے میں بڑا وقت صرف کر رہے ہیں۔
حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ایک روسی پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’لوگ ہمیشہ روس کے یوکرین میں فوجی آپریشن کے تناظر میں کسی کی مخبری کرنے کا بہانہ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’جب بھی حقیقی معنوں میں واقعی کچھ غلط ہوتا ہے تو محکمے میں کوئی تفتیش کرنے والا نہیں ہوتا۔ کیونکہ دستیاب اہلکار کسی نہ کسی ’دادی‘ کی جانب سے کیے جانے والے دعوے یا مخبری کی صداقت کے لیے پہنچا ہوتا ہے، جیسے کہ یہ شکایت کہ کسی کے گھر میں لگا پردہ یوکرین کے جھنڈے کی طرح نظر آتا ہے۔‘
روسی صدر پوتن بارہا ’غداروں کو سزا دینے‘ کے عزم کا اعادہ کرتے آئے ہیں اور یوکرین جنگ کا خاتمہ کہیں دور دور تک نظر نہیں آتا ہے۔ اور اس سب کے دوران اینا جیسے مسلسل مخبری کرنے والوں میں بھی اپنے ساتھی شہریوں کے بارے میں رپورٹنگ یا مخبری بند کرنے کی خواہش کا کوئی نشان ملتا ہے۔
اینا نے بذریعہ ای میل بی بی سی کو بتایا کہ وہ مخبریاں کرتی رہیں گی اور اس ضمن میں انھیں ابھی بہت کام کرنا ہے!
Comments are closed.