وہ ملک جو اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے خلاف عدالت میں چلا گیا،تصویر کا ذریعہGetty Images2 گھنٹے قبلجنوری 2024 میں، امریکی شہر بوسٹن کی ایک عدالت نے ایک ایسے کیس کی سماعت کی منظوری دی جو امریکہ کی کچھ قدیم ترین اسلحہ ساز کمپنیوں کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ یہ مقدمہ سات اسلحہ ساز کمپنیوں اور ایک ڈسٹری بیوٹر کے خلاف ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلحہ بنانے والی کمپنیوں کے خلاف یہ مقدمہ کسی ہتھیار کے متاثرین یا ان کے رشتہ داروں نے نہیں بلکہ میکسیکو کی حکومت نے دائر کیا ہے۔مقدمے میں ان کمپنیوں سے 10 ارب ڈالر کے معاوضے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔میکسیکو کی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ کمپنیاں اچھی طرح جانتی ہیں کہ ان کے تیار کردہ ہتھیار میکسیکو کے جرائم پیشہ گروہوں یا گروپوں کو فراہم کیے جاتے ہیں جو ملک کے کئی علاقوں پر کنٹرول کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ پرتشدد تنازعات میں مصروف ہیں۔

کولٹس اور سمتھ اینڈ ویسن جیسی بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ان کمپنیوں کا قانونی دفاع ہے کہ اگر ان کا تیارکردہ اسلحہ یا مصنوعات جرائم کے ارتکاب کے لیے استعمال ہوتی ہیں تو وہ ذمہ دار نہیں ہیں۔لیکن شاید یہ دفاع اس مقدمے کے دلائل کے لیے کافی نہیں ہے۔ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کیا میکسیکو امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے خلاف اپنی لڑائی جیت سکتا ہے؟،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن2006 سے اب تک میکسیکو میں 4 لاکھ افراد کو قتل کیا جا چکا ہے

میکسیکو میں جرائم کی لہر

آئن گریلو میکسیکو میں مقیم صحافی ہیں جنھوں نے وہاں منظم جرائم پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ میکسیکو میں جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان لڑائی الگ تھلگ پرتشدد جھڑپیں نہیں ہیں بلکہ اس نے جنگ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ان کی ایک کتاب ’بلڈ گن منی، ہاؤ امریکہ رن گینگز اینڈ کارٹلز ‘ میں اس مسئلے کا بڑے پیمانے پر ذکر کیا گیا ہے۔کتاب کے مطابق، ’2006 سے اب تک میکسیکو میں چار لاکھ افراد کو قتل کیا جا چکا ہے، جن میں سے 70 فیصد بندوق سے قتل ہوئے ہیں۔ کئی لڑائیاں انتہائی شدید ہوتی ہیں، جن میں 500 مسلح افراد اور دو ہزار پولیس والوں کے درمیان طویل لڑائی ہوتی ہے۔ ہر روز تقریباً 100 قتل ہوتے ہیں۔‘تقریباً 12 کروڑ 90 لاکھ کی آبادی والے اس عظیم ملک میں ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا لیکن جہاں ایسا ہوتا ہے وہاں مسلح گروہوں کی کارروائیاں انتہائی ظالمانہ اور پرتشدد ہوتی ہیں۔ کئی بار عام لوگ اس تنازعے کا شکار ہو جاتے ہیں۔آئن گریلو کا کہنا ہے کہ مسلح افراد وہاں آتے ہیں اور ایک دوسرے پر اندھا دھند گولیاں چلاتے ہیں اور بعض اوقات کاروں میں بیٹھے عام لوگ یا سڑک کنارے گاڑیوں میں کھانا کھانے والے لوگ بھی ان کا نشانہ بن جاتے ہیں۔پچھلے کچھ سالوں میں ان مافیا گروپس یا کارٹلز نے اپنی پرائیویٹ فوجیں بنا لی ہیں۔ بہت سے حملوں میں، 100-200 لوگ اے کے 47 اوراے آر ففٹین جیسی خودکار بندوقوں سے حملہ کرتے ہیں۔لیکن کسی کو کیسے پتہ چلے گا کہ اسلحہ غیر قانونی طور پر ملک میں لایا گیا ہے۔آئن گریلو بتاتے ہیں کہ جب پولیس جرائم پیشہ افراد سے ہتھیار پکڑتی ہے یا جائے وقوعہ سے برآمد ہوتی ہے تو پولیس ان پر سیریل نمبر امریکی انتظامیہ کو دیتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ہتھیار کہاں سے آئے۔انکشاف ہوا ہے کہ ان ہتھیاروں میں سے 70 فیصد امریکی اسلحے کی دکانوں اور فیکٹریوں سے میکسیکو پہنچے۔میکسیکو کی حکومت کا اندازہ ہے کہ ہر سال تقریباً دو لاکھ بندوقیں امریکہ سے سمگلنگ کے ذریعے میکسیکو پہنچتی ہیں جو تشدد کا باعث بنتی ہیں۔آئن گریلو نے کہا کہ ’فوج کے زیر استعمال سطح کی رائفلیں یہاں پہنچتی ہیں۔ کئی رائفلیں اتنی طاقتور ہوتی ہیں کہ وہ 50 کیلیبر کی گولیاں استعمال کرتی ہیں جو پولیس کی بکتر بند گاڑیوں میں بھی چھید کر سکتی ہیں۔‘میکسیکو میں پرائیویٹ افراد بندوقیں خرید سکتے ہیں لیکن وہاں صرف ایک بندوق کی دکان ہے جسے فوج چلاتی ہے اور بندوقوں کی خریداری کے عمل کو سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔آئن گریلو کا کہنا ہے کہ ’اس دکان میں سخت سکیورٹی ہے۔ وہاں ہتھیاروں کی قیمت بہت مہنگی ہے۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ شناختی کارڈ سمیت سات مختلف قسم کی دستاویزات پیش کرنی پڑتی ہیں جن میں سے ایک محکمہ پولیس کی ہے جو اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اسلحہ خریدنے والے کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔لیکن کارٹیل والے ایسے ہتھیار آسانی سے امریکہ سے حاصل کر سکتے ہیں۔میکسیکو میں سرکاری طور پر 16 ہزار ہتھیار فروخت ہوتے ہیں جبکہ امریکہ سے دو لاکھ سے زائد ہتھیار یہاں پہنچتے ہیں۔آئن گریلو بتاتے ہیں کہ کئی بار دکانوں میں ہتھیار ایسے لوگوں کو فروخت کیے جاتے ہیں جن کا ریکارڈ صاف ہے۔وہ درجنوں اے کے 47 رائفلیں خرید کر کارٹیل کے حوالے کر دیتے ہیں جس کے بدلے میں انھیں کمیشن ملتا ہے۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ امریکہ میں نجی فروخت کنندگان سے بندوقیں خریدیں جو ریکارڈ اور دستاویزات کی زیادہ پرواہ نہیں کرتے۔گریلو کا کہنا ہے کہ وہ میکسیکو کی جیلوں میں ایسے کئی مجرموں کا انٹرویو کر چکے ہیں جنھوں نے بتایا کہ وہ امریکہ سے سینکڑوں بندوقیں خرید کر میکسیکو لا کر ہفتے میں 15 سے 20 ہزار ڈالر کماتے تھے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنپولیس جرائم پیشہ افراد سے ہتھیار پکڑتی ہے یا جائے وقوعہ سے برآمد ہوتی ہے تو پولیس ان پر سیریل نمبر امریکی انتظامیہ کو دیتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ہتھیار کہاں سے آئے
کئی سالوں تک امریکہ سے اس تجارت کو روکنے کی التجا کرنے کے بعد میکسیکو کی حکومت نے اس کے خلاف قانونی لڑائی کا راستہ چنا ہے۔کیلیفورنیا کے یو سی ایل اے سکول آف لا کے پروفیسر ایڈم ونکلر کا کہنا ہے کہ اس وقت امریکہ میں عام شہریوں کے پاس 400 ملین آتشیں ہتھیار ہیں یعنی بندوق اور ریوالور جیسے ہتھیار۔امریکی آئین کے مطابق نجی افراد کو ہتھیار اٹھانے کا حق ہے۔ ’عدالت اس کی تشریح یہ کرتی ہے کہ لوگ بندوقیں نہ صرف تحفظ کے لیے لے جا سکتے ہیں بلکہ سڑکوں پر خطرات سے نمٹنے کے لیے بھی۔‘لیکن اس پر بھی قابو پانے کی ضرورت ہے۔ تو اس معاملے میں ہم سب سے پہلے ہتھیاروں کی صنعت کو دیکھتے ہیں۔ایڈم وِنکل نے کہا، ’2000 کی دہائی کے اوائل میں، پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا تھا جس کے مطابق ہتھیار بنانے یا بیچنے والی کمپنیوں کو مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا اگر کمپنیوں کی بنائی ہوئی بندوقیں تشدد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔‘’اس قانون کو پروٹیکشن فار لاء فُل کامرس ان آرمز ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے اگر کمپنیوں کے تیار کردہ ہتھیار جرائم کے لیے استعمال ہوتے ہیں تو اسلحہ بنانے والوں اور بیچنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنا بہت مشکل ہے۔‘یعنی ہتھیار بنانے والوں کا کوئی احتساب نہیں ہو سکتا؟ ایڈم وِنکلر کا کہنا ہے کہ اگر اسلحہ ناقص ہو یا استعمال کے دوران پھٹ جائے تو کمپنی کے خلاف مقدمہ کیا جا سکتا ہے لیکن اگر ان کی سمگلنگ یا بلیک مارکیٹنگ ہو تو کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔کمپنیوں کو قانونی چارہ جوئی سے بچانا نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کے لیے اولین ترجیح تھی، جو کہ امریکہ کی سب سے بااثر اسلحے رکھنے کے کی تنظیم ہے۔ایڈم ونکلر نے کہا کہ اسلحہ ساز کمپنیوں نے کارکنوں کے ساتھ مل کر قانونی چارہ جوئی سے استثنیٰ حاصل کرنے کے لیے کام کیا کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ مقدمے ان کے کاروبار کو روک سکتے ہیں۔’جب تمباکو اور سگریٹ بنانے والی کمپنیوں کو قانونی چارہ جوئی کے بعد متاثرین کو اربوں ڈالر کا معاوضہ ادا کرنا پڑا تو اس کے فوراً بعد ہتھیار بنانے والوں اور بیچنے والوں کو قانونی چارہ جوئی سے تحفظ دیا گیا کیونکہ ان کے خلاف بھی ایسے ہی مقدمات دائر ہونے کا خطرہ تھا۔‘امریکہ میں ہر ریاست کے اپنے قوانین بھی ہیں جو کہ بہت سی ریاستوں میں بہت سست ہیں۔ ایڈم وِنکلر کا کہنا ہے کہ لوگ میکسیکو جانے والی ہائی وے پر گاڑیوں میں ہتھیار لے کر جاتے ہیں جو اسلحے کی سمگلنگ کا ایک بڑا راستہ ہے۔اس سمگلنگ کی نگرانی کرنے والی امریکی ایجنسی کو بیورو آف الکوحل، ٹوبیکو اینڈ فائر آرمز ایکسپلوسیو یا اے ٹی ایف کہا جاتا ہے۔ان کا ماننا ہے، ’اے ٹی ایف زیادہ موثر نہیں ہے۔ امریکہ میں موجود 40 کروڑ ہتھیاروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا اس کے لیے مشکل ہے۔ اس ایجنسی کے پاس اس کام کے لیے کافی رقم نہیں ہے۔‘میکسیکو کی سرحدی پولیس کی بھی اتنی ہی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ امریکہ سے میکسیکو کو ہتھیاروں کی سمگلنگ کو روکے۔ ایڈم ونکلر کا کہنا ہے کہ میکسیکو کی سرحدی پولیس وہاں آنے والی گاڑیوں کی سختی سے جانچ نہیں کرتی۔میکسیکو کی حکومت نے 2021 میں امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے خلاف میساچوسٹس میں مقدمہ دائر کیا لیکن ایک سال بعد عدالت نے استثنیٰ کے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔میکسیکو نے پھر اس کے خلاف اپیل کی، یہ دلیل دی کہ یہ ایک خودمختار ملک ہے اور امریکہ کے استثنیٰ کے قانون کے دائرہ سے باہر ہے۔ اس کی اپیل کامیاب رہی۔میکسیکو کا کہنا ہے کہ امریکی اسلحہ ساز کمپنیاں جان بوجھ کر اپنے فائدے کے لیے غیر قانونی تجارت کو فروغ دینے کی پالیسی اپناتی ہیں۔ پروٹیکشن فار لافول کامرس ان آرمز ایکٹ، جو 2005 میں نافذ ہوا، اس وقت سے امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کو قانونی چارہ جوئی کے خلاف تحفظ فراہم کر رہا ہے، لیکن کیا یہ جاری رہے گا؟

معذور قوت مدافعت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنانکشاف ہوا ہے کہ ان ہتھیاروں میں سے 70 فیصد امریکی بندوق کی دکانوں اور فیکٹریوں سے میکسیکو پہنچے
رابرٹ سپٹزر سنی کورٹ لینڈ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ہیں اور بندوق کی پالیسی پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ وہ نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کے رکن بھی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ 2005 میں اسلحہ بنانے والی کمپنیوں کو قانونی چارہ جوئی سے استثنیٰ دینے کا قانون منظور ہونے کے بعد ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ یہ مقدمہ سینڈی ہک ایلیمنٹری سکول کی شوٹنگ کے متاثرین نے دائر کیا تھا۔2012 میں فائرنگ کے واقعے میں ایک 20 سالہ بندوق بردار نے سکول میں بچوں پر خودکار رائفل سے فائرنگ کی تھی جس میں 20 بچے اور چھ بالغ افراد ہلاک ہوئے تھے۔اس واقعے کے متاثرین نے 200 سال پرانی اسلحہ ساز کمپنی رامنگٹن کمپنی کے خلاف کنیکٹی کٹ کے ایک مقامی قانون کے تحت مقدمہ دائر کیا تھا، جس میں ایک مختلف دلیل دی گئی۔رابرٹ سپٹزر وضاحت کرتے ہیں، ’1970 کے بعد سے، کنیکٹیکٹ میں ایک قانون موجود ہے جو غیر منصفانہ اور غیر ذمہ دارانہ مارکیٹنگ کرنے والی کمپنیوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس معاملے میں، متاثرین کو 2022 میں ایک قانونی تصفیہ کے تحت ریمنگٹن کمپنی سے 73 ملین ڈالر کا معاوضہ ملا، جو کسی بندوق کمپنی کی جانب سے ادا کیا جانے والا اب تک کا سب سے بڑا معاوضہ تھا۔‘اس کیس کی کامیابی میں معاوضہ واحد اہم عنصر نہیں تھا۔رابرٹ سپٹزر نے کہا کہ ریمنگٹن کمپنی کو ان ہزاروں داخلی دستاویزات کو ظاہر کرنے پر مجبور کیا گیا جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کمپنی نے مایوس نوجوانوں کو اپنی خودکار رائفلوں کی طرف راغب کرنے کے لیے اشتہارات اور مارکیٹنگ کی حکمت عملیوں کا استعمال کیا۔کمپنی ان ہتھیاروں کی فوجی صلاحیت پر زور دے رہی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ وہ ہتھیار نہیں تھے جو اپنے دفاع، ٹارگٹ شوٹنگ یا تفریح کے لیے استعمال کیے جا سکیں۔قانونی تصفیہ کے تحت ریمنگٹن کمپنی کو اپنی غلطی تسلیم کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا اور تصفیہ کے تحت کیس ختم ہوگیا۔رابرٹ سپٹزر کا کہنا ہے کہ اگر مقدمے کی سماعت ہوئی تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ قتل ہونے والے سکول کے بچوں کے والدین جیت جاتے۔ساتھ ہی، غیر ذمہ دارانہ مارکیٹنگ کے خلاف کنیکٹیکٹ جیسے قوانین ملک کی صرف پانچ ریاستوں میں لاگو ہیں۔ ایسے میں پورے ملک میں یہ وسیع آپشن نہیں ہو سکتا۔رابرٹ سپٹزر نے کہا کہ اس طرح کا کم از کم ایک اور مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ یہ مقدمہ فلوریڈا کے پارک لینڈ ہائی سکول میں 2018 میں ہونے والی فائرنگ کے واقعے سے متعلق ہے۔ان کا خیال ہے کہ اب بندوق کمپنیاں اس طرح کے مقدمات سے بچنے کے لیے اپنی ہتھیاروں کی مارکیٹنگ کی پالیسیوں پر نظر ثانی کر رہی ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

عدالتی جنگ کتنی کامیاب ہوگی؟

دی ہیگ میں ایسر انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی اور یورپی قانون کے سینئر محقق لیون کاسٹیلانوس جانکیوِچ کا کہنا ہے کہ میکسیکو کی حکومت کی طرف سے دائر مقدمہ بڑی تبدیلیاں لا سکتا ہے کیونکہ اب تک یہ کمپنیاں متاثرین کے خلاف قانونی جوابدہی سے گریز کرتی رہی ہیں۔ اب دوسرے ممالک بھی اس طرف دیکھ رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں، ’لاطینی امریکی ممالک میں بندوقوں کی وجہ سے ہونے والی 70 سے 90 اموات میں استعمال ہونے والے ہتھیار امریکہ سے غیر قانونی طور پر آتے ہیں۔ یہی رجحان وسطی امریکی ممالک جیسے گوئٹے مالا، ہونڈوراس اور ایکواڈور میں بھی نظر آتا ہے۔‘’جمیکا جیسے کیریبین ممالک میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اب اینٹیگوا اور بارباڈوس نے عدالت میں میکسیکو کے دعوے کی حمایت کی ہے۔ اگر میکسیکو یہ مقدمہ جیت جاتا ہے، تو یہ ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ ممالک ان امریکی بندوق کمپنیوں پر مقدمہ کر سکتے ہیں۔‘لیون کاسٹیلانوس کا خیال ہے کہ اگر میکسیکو جیت جاتا ہے تو اسلحہ ساز کمپنیوں کے کام کرنے کے انداز میں پہلی تبدیلی ان کی مارکیٹنگ کی پالیسیاں ہوں گی۔ دوسرے ہتھیاروں میں بھی ترمیم کی جائے گی جن کے مہلک ہونے کی شدت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔میکسیکو نے ثابت کیا ہے کہ وہاں پہنچنے والے ہتھیار ایریزونا اور ٹیکساس کی ریاستوں میں سرحد کے قریب واقع سٹورز سے آتے ہیں۔میکسیکو نے ایریزونا کے اسلحہ بیچنے والوں کے خلاف ہتھیاروں کی سمگلنگ کے الزامات بھی دائر کیے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ کمپنیوں اور فروخت کنندگان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے ذریعے، دونوں کو قواعد کے دائرے میں لایا جا رہا ہے۔میکسیکو کی جانب سے دائر مقدمہ ابھی شروع نہیں ہوا لیکن اس مقدمے میں کیا ہوسکتا ہے؟لیون کاسٹیلانوس کہتے ہیں، ’میکسیکو عدالت کے باہر کوئی تصفیہ نہیں کرے گا کیونکہ اس کا مقصد ان بندوق کمپنیوں کو بے نقاب کرنا ہے جن کے ہتھیار اس کی معیشت اور لوگوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ میکسیکو نے ان کمپنیوں سے 10 بلین ڈالر کے معاوضے کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن اگر فیصلہ میکسیکو کے حق میں بھی ہوا تو ایسا نہیں لگتا کہ جج اتنی بڑی رقم کا حکم دے گا۔تو کیا میکسیکو امریکی بندوق کمپنیوں کے خلاف اپنی لڑائی جیت سکتا ہے؟ میکسیکو نے امریکی بندوق کمپنیوں کو دی گئی قانونی استثنیٰ کو توڑ دیا ہے۔ لیکن اب اسے ان کمپنیوں کے خلاف سمگلنگ کے ٹھوس ثبوت پیش کرنے ہوں گے۔جیسا کہ ہم نے ماہرین سے سنا ہے، میکسیکو کی سرحدی پولیس اپنی تفتیش میں سست روی کا مظاہرہ کر رہی ہے جس کے لیے وہ خود ذمہ دار ہیں۔ یہ ایک طویل اور مہنگی قانونی جنگ ہوگی۔دوسرے ممالک بھی اس کیس کو غور سے دیکھ رہے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ خیر، نتیجہ جو بھی نکلے، اس نے ہتھیاروں کے کنٹرول کے معاملے پر بحث ضرور تیز کر دی ہے اور اس سے کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہو گا۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}