کولٹس اور سمتھ اینڈ ویسن جیسی بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ان کمپنیوں کا قانونی دفاع ہے کہ اگر ان کا تیارکردہ اسلحہ یا مصنوعات جرائم کے ارتکاب کے لیے استعمال ہوتی ہیں تو وہ ذمہ دار نہیں ہیں۔لیکن شاید یہ دفاع اس مقدمے کے دلائل کے لیے کافی نہیں ہے۔ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کیا میکسیکو امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے خلاف اپنی لڑائی جیت سکتا ہے؟،تصویر کا ذریعہGetty Images
میکسیکو میں جرائم کی لہر
آئن گریلو میکسیکو میں مقیم صحافی ہیں جنھوں نے وہاں منظم جرائم پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ میکسیکو میں جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان لڑائی الگ تھلگ پرتشدد جھڑپیں نہیں ہیں بلکہ اس نے جنگ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ان کی ایک کتاب ’بلڈ گن منی، ہاؤ امریکہ رن گینگز اینڈ کارٹلز ‘ میں اس مسئلے کا بڑے پیمانے پر ذکر کیا گیا ہے۔کتاب کے مطابق، ’2006 سے اب تک میکسیکو میں چار لاکھ افراد کو قتل کیا جا چکا ہے، جن میں سے 70 فیصد بندوق سے قتل ہوئے ہیں۔ کئی لڑائیاں انتہائی شدید ہوتی ہیں، جن میں 500 مسلح افراد اور دو ہزار پولیس والوں کے درمیان طویل لڑائی ہوتی ہے۔ ہر روز تقریباً 100 قتل ہوتے ہیں۔‘تقریباً 12 کروڑ 90 لاکھ کی آبادی والے اس عظیم ملک میں ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا لیکن جہاں ایسا ہوتا ہے وہاں مسلح گروہوں کی کارروائیاں انتہائی ظالمانہ اور پرتشدد ہوتی ہیں۔ کئی بار عام لوگ اس تنازعے کا شکار ہو جاتے ہیں۔آئن گریلو کا کہنا ہے کہ مسلح افراد وہاں آتے ہیں اور ایک دوسرے پر اندھا دھند گولیاں چلاتے ہیں اور بعض اوقات کاروں میں بیٹھے عام لوگ یا سڑک کنارے گاڑیوں میں کھانا کھانے والے لوگ بھی ان کا نشانہ بن جاتے ہیں۔پچھلے کچھ سالوں میں ان مافیا گروپس یا کارٹلز نے اپنی پرائیویٹ فوجیں بنا لی ہیں۔ بہت سے حملوں میں، 100-200 لوگ اے کے 47 اوراے آر ففٹین جیسی خودکار بندوقوں سے حملہ کرتے ہیں۔لیکن کسی کو کیسے پتہ چلے گا کہ اسلحہ غیر قانونی طور پر ملک میں لایا گیا ہے۔آئن گریلو بتاتے ہیں کہ جب پولیس جرائم پیشہ افراد سے ہتھیار پکڑتی ہے یا جائے وقوعہ سے برآمد ہوتی ہے تو پولیس ان پر سیریل نمبر امریکی انتظامیہ کو دیتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ہتھیار کہاں سے آئے۔انکشاف ہوا ہے کہ ان ہتھیاروں میں سے 70 فیصد امریکی اسلحے کی دکانوں اور فیکٹریوں سے میکسیکو پہنچے۔میکسیکو کی حکومت کا اندازہ ہے کہ ہر سال تقریباً دو لاکھ بندوقیں امریکہ سے سمگلنگ کے ذریعے میکسیکو پہنچتی ہیں جو تشدد کا باعث بنتی ہیں۔آئن گریلو نے کہا کہ ’فوج کے زیر استعمال سطح کی رائفلیں یہاں پہنچتی ہیں۔ کئی رائفلیں اتنی طاقتور ہوتی ہیں کہ وہ 50 کیلیبر کی گولیاں استعمال کرتی ہیں جو پولیس کی بکتر بند گاڑیوں میں بھی چھید کر سکتی ہیں۔‘میکسیکو میں پرائیویٹ افراد بندوقیں خرید سکتے ہیں لیکن وہاں صرف ایک بندوق کی دکان ہے جسے فوج چلاتی ہے اور بندوقوں کی خریداری کے عمل کو سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔آئن گریلو کا کہنا ہے کہ ’اس دکان میں سخت سکیورٹی ہے۔ وہاں ہتھیاروں کی قیمت بہت مہنگی ہے۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ شناختی کارڈ سمیت سات مختلف قسم کی دستاویزات پیش کرنی پڑتی ہیں جن میں سے ایک محکمہ پولیس کی ہے جو اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اسلحہ خریدنے والے کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔لیکن کارٹیل والے ایسے ہتھیار آسانی سے امریکہ سے حاصل کر سکتے ہیں۔میکسیکو میں سرکاری طور پر 16 ہزار ہتھیار فروخت ہوتے ہیں جبکہ امریکہ سے دو لاکھ سے زائد ہتھیار یہاں پہنچتے ہیں۔آئن گریلو بتاتے ہیں کہ کئی بار دکانوں میں ہتھیار ایسے لوگوں کو فروخت کیے جاتے ہیں جن کا ریکارڈ صاف ہے۔وہ درجنوں اے کے 47 رائفلیں خرید کر کارٹیل کے حوالے کر دیتے ہیں جس کے بدلے میں انھیں کمیشن ملتا ہے۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ امریکہ میں نجی فروخت کنندگان سے بندوقیں خریدیں جو ریکارڈ اور دستاویزات کی زیادہ پرواہ نہیں کرتے۔گریلو کا کہنا ہے کہ وہ میکسیکو کی جیلوں میں ایسے کئی مجرموں کا انٹرویو کر چکے ہیں جنھوں نے بتایا کہ وہ امریکہ سے سینکڑوں بندوقیں خرید کر میکسیکو لا کر ہفتے میں 15 سے 20 ہزار ڈالر کماتے تھے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
معذور قوت مدافعت
،تصویر کا ذریعہGetty Images
عدالتی جنگ کتنی کامیاب ہوگی؟
دی ہیگ میں ایسر انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی اور یورپی قانون کے سینئر محقق لیون کاسٹیلانوس جانکیوِچ کا کہنا ہے کہ میکسیکو کی حکومت کی طرف سے دائر مقدمہ بڑی تبدیلیاں لا سکتا ہے کیونکہ اب تک یہ کمپنیاں متاثرین کے خلاف قانونی جوابدہی سے گریز کرتی رہی ہیں۔ اب دوسرے ممالک بھی اس طرف دیکھ رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں، ’لاطینی امریکی ممالک میں بندوقوں کی وجہ سے ہونے والی 70 سے 90 اموات میں استعمال ہونے والے ہتھیار امریکہ سے غیر قانونی طور پر آتے ہیں۔ یہی رجحان وسطی امریکی ممالک جیسے گوئٹے مالا، ہونڈوراس اور ایکواڈور میں بھی نظر آتا ہے۔‘’جمیکا جیسے کیریبین ممالک میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اب اینٹیگوا اور بارباڈوس نے عدالت میں میکسیکو کے دعوے کی حمایت کی ہے۔ اگر میکسیکو یہ مقدمہ جیت جاتا ہے، تو یہ ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ ممالک ان امریکی بندوق کمپنیوں پر مقدمہ کر سکتے ہیں۔‘لیون کاسٹیلانوس کا خیال ہے کہ اگر میکسیکو جیت جاتا ہے تو اسلحہ ساز کمپنیوں کے کام کرنے کے انداز میں پہلی تبدیلی ان کی مارکیٹنگ کی پالیسیاں ہوں گی۔ دوسرے ہتھیاروں میں بھی ترمیم کی جائے گی جن کے مہلک ہونے کی شدت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔میکسیکو نے ثابت کیا ہے کہ وہاں پہنچنے والے ہتھیار ایریزونا اور ٹیکساس کی ریاستوں میں سرحد کے قریب واقع سٹورز سے آتے ہیں۔میکسیکو نے ایریزونا کے اسلحہ بیچنے والوں کے خلاف ہتھیاروں کی سمگلنگ کے الزامات بھی دائر کیے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ کمپنیوں اور فروخت کنندگان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے ذریعے، دونوں کو قواعد کے دائرے میں لایا جا رہا ہے۔میکسیکو کی جانب سے دائر مقدمہ ابھی شروع نہیں ہوا لیکن اس مقدمے میں کیا ہوسکتا ہے؟لیون کاسٹیلانوس کہتے ہیں، ’میکسیکو عدالت کے باہر کوئی تصفیہ نہیں کرے گا کیونکہ اس کا مقصد ان بندوق کمپنیوں کو بے نقاب کرنا ہے جن کے ہتھیار اس کی معیشت اور لوگوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ میکسیکو نے ان کمپنیوں سے 10 بلین ڈالر کے معاوضے کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن اگر فیصلہ میکسیکو کے حق میں بھی ہوا تو ایسا نہیں لگتا کہ جج اتنی بڑی رقم کا حکم دے گا۔تو کیا میکسیکو امریکی بندوق کمپنیوں کے خلاف اپنی لڑائی جیت سکتا ہے؟ میکسیکو نے امریکی بندوق کمپنیوں کو دی گئی قانونی استثنیٰ کو توڑ دیا ہے۔ لیکن اب اسے ان کمپنیوں کے خلاف سمگلنگ کے ٹھوس ثبوت پیش کرنے ہوں گے۔جیسا کہ ہم نے ماہرین سے سنا ہے، میکسیکو کی سرحدی پولیس اپنی تفتیش میں سست روی کا مظاہرہ کر رہی ہے جس کے لیے وہ خود ذمہ دار ہیں۔ یہ ایک طویل اور مہنگی قانونی جنگ ہوگی۔دوسرے ممالک بھی اس کیس کو غور سے دیکھ رہے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ خیر، نتیجہ جو بھی نکلے، اس نے ہتھیاروں کے کنٹرول کے معاملے پر بحث ضرور تیز کر دی ہے اور اس سے کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہو گا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.