جنوبی افریقہ: وہ ملک جس نے اپنے جوہری ہتھیاروں کو خود ہی تباہ کر دیا
- اینجل برموڈیز
- بی بی سی نامہ نگار
24 مارچ 1993 کو جنوبی افریقہ کے صدر فریڈرک ولیم ڈی کلرک نے اس بات کی تصدیق کی جس کے بارے میں کئی سال سے افواہیں جاری تھیں۔
انھوں نے دنیا کو بتایا کہ ان کا ملک ایک خفیہ منصوبے پر کام کر رہا تھا اور ایٹمی ہتھیار حاصل کر لیے گئے تھے۔
پارلیمان میں دیے گئے خطاب میں صدر نے اپنے ملک اور دنیا کو بتایا کہ جنوبی افریقہ نے چھ ایٹم بم بنائے تھے تاہم انھوں نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ ان بموں کو اب تباہ کر دیا گیا ہے اور عسکری مقاصد کے لیے ملک کا جوہری پروگرام مکمل طور پر روک دیا گیا ہے۔
جنوبی افریقہ جولائی 1991 میں اقوام متحدہ کے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کا حصہ بنا۔ ڈی کلرک نے اقوام متحدہ کے جوہری ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی آرگنائزیشن (آئی اے ای اے) کو جوہری سائٹ تک کھلی رسائی بھی دی۔
انھوں نے کہا کہ ایجنسی اپنے دعوؤں کی تصدیق کے لیے جنوبی افریقہ میں موجود تمام جوہری مقامات کا دورہ کر سکتی ہے۔
اس اعلان کے ساتھ ہی ڈی کلرک نے جنوبی افریقہ کو جوہری ہتھیار تیار کرنے والے ممالک کے چھوٹے گروپ میں شامل کر لیا۔ اس کے علاوہ جنوبی افریقہ این پی ٹی کا حصہ بننے سے پہلے جوہری ہتھیاروں کو مکمل طور پر ترک کرنے والا پہلا اور واحد ملک بن گیا۔
1990 کی دہائی میں یوکرین نے بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کو تباہ کرنے پر رضامندی ظاہر کی لیکن یہ ہتھیار اسے سابق سوویت یونین سے وراثت میں ملے تھے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ جنوبی افریقہ نے ایٹم بم کیسے بنائے اور انھیں تباہ کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
پُرامن مقاصد کے لیے جوہری منصوبہ
جنوبی افریقہ نے 1948 میں ایک قانون بنا کر اٹامک انرجی بورڈ قائم کیا، جس کا مقصد ایٹمی توانائی میں مواقعوں کو تلاش کرنا تھا۔
1960 کی دہائی کے اوائل میں، جنوبی افریقہ نے تحقیقی سرگرمیاں شروع کیں اور دارالحکومت پریٹوریا سے تقریباً چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر پیلنڈابا جوہری پلانٹ قائم ہوا۔
ایٹمی پروگرام کے اس ابتدائی مرحلے میں مقصد پرامن تھا۔ جنوبی افریقہ کے پاس یورینیم کے ذخائر تھے اور اس اہم مادے کو افزودہ کرنے کے طریقے تلاش کرنے پر بھی کام شروع کر دیا گیا۔
واضح رہے کہ یورینیم افزودگی کی ٹیکنالوجی جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
1960 کی دہائی میں ابتدائی کامیابی کے بعد حکومت نے صنعتی پیمانے پر کام کرنے کے لیے ایک پائلٹ پلانٹ قائم کیا۔
1970 میں اس وقت کے وزیر اعظم بی جے ورسٹر نے ان منصوبوں کے بارے میں پارلیمان کو آگاہ کیا اور کہا کہ ملک کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔
جنوبی افریقہ کے پاس یورینیم کے ذخائر تھے اور وہ سمجھ رہا تھا کہ مستقبل میں افزودہ یورینیم سے معاشی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ جنوبی افریقہ نے غیر عسکری مقاصد کے لیے جوہری مواد کو استعمال کرنے کے امکانات بھی تلاش کرنا شروع کر دیے۔
1974 میں جب ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ہتھیار بنانے میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے تو حکومت نے اس خفیہ منصوبے کی منظوری دے دی تاہم یہ اقدامات جلد ہی فوجی مقاصد کے لیے جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں بدل گئے لیکن کیوں؟
دفاعی ہتھیار
جیسا کہ ڈی کلرک نے اپنی 1993 کی تقریر میں کہا تھا کہ جنوبی افریقہ کا محدود تعداد کے ساتھ جوہری ہتھیار تیار کرنے کا فیصلہ 1974 میں شروع ہوا اور اس کی وجہ جنوبی افریقہ میں سوویت افواج کی توسیع سے لاحق خطرہ تھا۔
کمیونسٹ سوچ رکھنے والے ممالک کی تنظیم ’وارسا پیکٹ‘ کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال بھی جنوبی افریقہ کے لیے جوہری ہتھیار تیار کرنے کی وجہ بنی۔
افریقہ میں سکیورٹی کی بدلتی صورتحال نے بھی جنوبی افریقہ کے فیصلے کو متاثر کیا۔
پرتگال نے افریقہ میں اپنی کالونیاں چھوڑ دیں۔ موزمبیق اور انگولا آزاد ہو گئے۔ یہاں پر ہونے والی خانہ جنگیوں نے بین الاقوامی شکل اختیار کر لی۔ بائیں بازو اور سرمایہ دار قوتوں کے درمیان سرد جنگ کے سائے منڈلا رہے تھے۔ علاقائی سلامتی کی صورتحال غیر مستحکم ہو چکی تھی۔
انگولا میں کیوبا کی افواج کی تعداد بڑھ رہی تھی۔ جنوبی افریقہ نے محسوس کیا کہ اسے ایک حفاظتی ہتھیار کی ضرورت ہے۔
صدر نے پارلیمان کو بتایا کہ ان کا ملک حملے کی صورت میں غیر ملکی امداد پر انحصار نہیں کر سکتا۔
جنوبی افریقہ اپنی نسل پرستی کی پالیسی کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر بھی الگ تھلگ تھا اور اس پر اسلحہ خریدنے پر پابندی عائد کی جا رہی تھی۔
ان وجوہات کی بنا پر بھی جنوبی افریقہ کے لیے حالات نازک تھے اور ساتھ ہی جنوبی افریقہ جوہری توانائی کے میدان میں بھی تنہا ہوتا جا رہا تھا۔
امریکہ نے جنوبی افریقہ کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کی معلومات کا تبادلہ روک دیا۔ سنہ 1978 میں امریکہ نے ایک قانون پاس کیا جس کے تحت جوہری ٹیکنالوجی ان ممالک کو نہیں دی جا سکتی جو این پی ٹی کا حصہ نہیں تھے۔
سرد جنگ کے دوران دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی اور جنوبی افریقہ کو اس دور کی دو سپر پاور امریکہ اور روس میں سے کسی کی بھی حمایت حاصل نہیں تھی۔
1977 میں جب جنوبی افریقہ زیر زمین ایٹمی تجربہ کرنے کی تیاری کر رہا تھا تو امریکہ اور سوویت یونین نے مل کر اسے روک دیا۔
خفیہ خطرہ
ان حالات میں جنوبی افریقہ کی حکومت اس فیصلے پر پہنچی کہ اسے اپنی سلامتی کے لیے ایٹم بم بنانا چاہیے اور اپریل 1978 میں جنوبی افریقہ کی حکومت نے تین مرحلوں پر مشتمل حکمت عملی کی منظوری دی۔
ان میں سب سے پہلے ملک کی جوہری صلاحیت کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کو برقرار رکھنا تھا یعنی اسے نہ تو قبول کیا جائے اور نہ ہی انکار کیا جائے۔
دوسرا مرحلہ اس وقت نافذ ہونا تھا جب جنوبی افریقہ کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا۔
ان حالات میں یہ طے پایا کہ امریکہ جیسی سپر پاور کو نجی طور پر بتایا جائے گا کہ جنوبی افریقہ کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ اس سے بین الاقوامی سطح پر اس خطرے کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔
اگر یہ خطرہ ختم نہ ہوا تو یہ طے پایا کہ جنوبی افریقہ کھلے عام تسلیم کرے گا کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی طے پایا کہ زیر زمین بم کا تجربہ کیا جائے گا تاہم یہ فیصلہ کیا گیا کہ جنوبی افریقہ اس بم کو جارحانہ انداز میں استعمال نہیں کرے گا کیونکہ یہ بڑے پیمانے پر بین الاقوامی ردعمل کا باعث بن سکتا ہے۔
اس حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جنوبی افریقہ کو کم از کم سات ایٹم بم بنانے تھے۔
پہلا ایٹم بم سنہ 1982 میں بنایا گیا تھا لیکن ساتواں بم کبھی بنایا ہی نہیں گیا۔ درحقیقت جنوبی افریقہ کی یہ حکمت عملی پہلے مرحلے سے آگے بڑھ ہی نہیں سکی۔
اندازہ ہے کہ ان بموں میں وہی صلاحیت موجود تھی جو امریکہ کی جانب سے جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے بموں میں تھی۔
اٹامک انرجی کارپوریشن آف ساؤتھ افریقہ کے سابق ڈائریکٹر والڈو سٹمپ نے سنہ 1995 کی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ جنوبی افریقہ نے کبھی ان کا تجربہ نہیں کیا لیکن یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ وہ کام نہیں کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
وہ ہتھیار جس کو استعمال کرنا اپنے گلے میں پھندہ ڈالنا ہے!
لیکن جنوبی افریقہ نے اپنے ایٹم بم کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ صدر ڈی کلرک کے مطابق اس کی وجوہات 1980 کی دہائی کی بین الاقوامی سیاسی صورتحال میں پوشیدہ تھیں۔
پارلیمان میں اپنی تقریر میں انھوں نے انگولا میں جنگ بندی، انگولا سے کیوبا کے 50 ہزار فوجیوں کے انخلا اور نمیبیا کی آزادی کے لیے سہہ فریقی معاہدے کا ذکر کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے دیوار برلن کے گرنے، سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت بلاک کے ٹوٹنے کا بھی ذکر کیا۔
صدر نے کہا کہ ان حالات میں جوہری ہتھیار نہ صرف ضروری ہو گئے تھے بلکہ درحقیقت یہ جنوبی افریقہ کے بین الاقوامی تعلقات میں رکاوٹ بن گئے تھے۔
سنہ 2017 میں جنوبی افریقہ کے سابق صدر نے ’دی اٹلانٹک‘ میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے ایٹم بم کی مخالفت کی اپنی وجوہات بتائیں۔
انھوں نے کہا کہ ’میں نے محسوس کیا کہ دیہی علاقوں میں لڑی جانے والی جنگ میں اس طرح کے بم استعمال کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ یہ سوچنا تکلیف دہ تھا کہ ہم چند گھنٹوں میں ایک پورے شہر کو تباہ کر سکتے ہیں۔ شروع سے ہی میری ذاتی رائے یہ تھی کہ میں بم کو اپنے گلے میں پھندے کی طرح دیکھ رہا تھا۔‘
’آپ کے پاس ایسی چیز تھی جسے استعمال کرنے کا آپ کا کوئی ارادہ نہیں تھا، درحقیقت وہ استعمال کرنا وحشیانہ تھا، جس کا اخلاقی طور پر دفاع نہیں کیا جا سکتا تھا۔
ایسے میں جب ڈی کلرک سنہ 1989 میں اقتدار میں آئے تو انھوں نے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنا شروع کر دیا۔ اس میں بنائے گئے بموں کو تباہ کرنا بھی شامل تھا۔ نیوکلیئر پلانٹس کو بند کیا گیا۔ ان پلانٹس میں اعلیٰ معیار کی یورینیم کی افزودگی کی گئی اور اسے اس سطح پر لایا گیا کہ اس سے بم نہیں بنایا جا سکتا تھا۔
اس کے ساتھ ہی حکومت نے این پی ٹی کا حصہ بننے کا عمل شروع کر دیا۔ ملک میں داخلی سیاسی اصلاحات بھی شروع ہوئیں اور نسل پرستی کا خاتمہ ہوا اور پھر سیاسی تبدیلیوں میں اقتدار نیلسن منڈیلا کے ہاتھ میں چلا گیا۔
کیا سبق سیکھا؟
ڈی کلرک نے پارلیمان میں اپنی تقریر میں کہا کہ جنوبی افریقہ کے فیصلے سے دوسرے ممالک جوہری ہتھیار ترک کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔
دی اٹلانٹک کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے شمالی کوریا کا بھی ذکر کیا۔
جنوبی افریقہ کے ایٹمی توانائی کارپوریشن کے سابق ڈائریکٹر والڈو سٹمپ نے اپنی 1995 کی رپورٹ میں جنوبی افریقہ کے تجربے سے سیکھے جانے والے عملی اسباق کا حوالہ دیا۔
جوہری ماہر والڈو سٹمپ نے دنیا کو خبردار کیا کہ نہ تو ٹیکنالوجی اور نہ ہی کوئی قیمت ادا کرنے کا خوف کسی ملک کو جوہری پروگرام پر آگے بڑھنے سے روک سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ یورینیم افزودگی کی ٹیکنالوجی اور انتہائی جدید بم بنانے کی ٹیکنالوجی بہت زیادہ ہے لیکن ایک ترقی یافتہ صنعتی ملک اسے حاصل کر سکتا ہے۔ جہاں تک اس میں سرمایہ کاری کا تعلق ہے تو جنوبی افریقہ کو دس سال کے اندر اپنے جوہری پروگرام پر 200 ملین ڈالر خرچ کرنے تھے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ سیاسی تنہائی کا طریقہ کچھ خاص حالات میں تو کارگر ہوتا ہے لیکن کچھ خاص معاملات میں یہ زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
سٹمپ لکھتے ہیں کہ سنہ 1978 میں امریکا نے جنوبی افریقہ کے جوہری ری ایکٹروں کو چلانے کے لیے درکار ایندھن پر پابندی لگا دی اور اس ملک پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر دیں لیکن امریکہ نے جنوبی افریقہ پر جو بھی اثر ڈالا، وہ بھی ختم ہو گیا۔
سٹمپ نے کہا کہ ’اس کا مطلب یہ تھا کہ خطے سے باہر ایک سپر پاور کا دباؤ صرف ایک خاص حد تک جوہری ہتھیار تیار کرنے والے ملک پر کام کرتا ہے۔ آخر میں مکمل جوہری عدم پھیلاؤ کے لیے علاقائی کشیدگی کو کم کرنا ضروری ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہی کچھ جنوبی افریقہ میں ہوا اور ایسا ہی مشرق وسطیٰ یا جنوبی ایشیا یا جزیرہ نما کوریا میں ہونا چاہیے۔‘
آخر میں سٹمپ نے لکھا کہ این پی ٹی کے تحت طے شدہ جوہری عدم پھیلاؤ کا ہدف سٹریٹجک یا تکنیکی فیصلوں سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، اس کے لیے ملک کے رہنماؤں کی سیاسی مرضی ضروری ہے۔
تاہم اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے اور اس کا اطلاق شمالی کوریا یا ایران پر کیا جا سکتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ جنوبی افریقہ مختلف ہے اور جوہری ہتھیاروں کی تاریخ میں اس کا الگ مقام ہے۔
Comments are closed.