وہ معروف صحافی جن کا 35 سال تک روسی خفیہ ایجنسی کے لیے جاسوسی کرنے کا راز اُن کی موت کے بعد فاش ہوا،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنگرمباچ ایک نوجوان صحافی کے طور پر

  • مصنف, لارا گوزی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 3 گھنٹے قبل

معروف فرانسیسی میگزین ’لے ایکسپریس‘ (L’Express) نے انکشاف کیا ہے کہ اُن کے سابق ایڈیٹر فلپ گرمباچ 35 سال تک روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے جاسوسی کرتے رہے ہیں۔گرمباچ کئی دہائیوں تک فرانس میں ایک غیر معمولی اور بااثر شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔بہت سے سابق صدور، شوبز شخصیات اور مشہور ادیبوں کا شمار ان کے قریبی حلقہ احباب میں ہوتا تھا۔ وہ صحافت میں ایک نمایاں شخصیت تھے جنھوں نے فرانس کی سب سے کامیاب میگزینوں میں سے ایک ’لے ایکسپریس‘ کی ادارتی سمت کو تشکیل دیا۔سنہ 2003 میں اُن کی وفات پر فرانس کے وزیرِ ثقافت ژاں جیک ایلاگون نے کہا تھا کہ کہ گرمباچ ’فرانسیسی میڈیا کی سب سے معروف اور قابل احترام شخصیات میں سے ایک تھے۔‘

لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ ان تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ ہی وہ ’کے جی بی‘ کے جاسوس بھی تھے۔گرومباچ کی دوہری زندگی کا ثبوت ’میتروخین آرکائیوز‘ میں مل سکتا ہے۔ ان آرکائیوز کا نام اس روسی میجر کے نام پر رکھا گیا ہے جس نے سوویت آرکائیوز سے ہزاروں صفحات کی دستاویزات سمگل کر کے سنہ 1992 میں برطانیہ کے حوالے کر دی تھیں۔ ان دستاویزات کو بعد میں ایک کتاب کی شکل میں مرتب کیا تھا۔ ہزاروں صفحات پر مشتمل دستاویزات میں ایسے پروفائلز شامل ہیں جو سوویت یونین کے لیے جاسوسی کرنے والے مغربی باشندوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔’لے ایکسپریس‘ کے سوشل ایڈیٹرایٹین جیرارڈ گرمباچ کو بے نقاب کرنے والوں میں شامل ہیں۔ کئی ماہ پہلے انھیں اُن کے ایک دوست نے مطلع کیا کہ اُن کے ایک واقف کار متروخن کی فائلوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ انھوں نے اُن کو بتایا ہے کہ اُن دستاوازات میں ’لے ایکسپریس‘ کا بھی ذکر آیا ہے۔دستاویزات کے مطابق ’بروک‘ کے کوڈ نام کے ساتھ ایک ایجنٹ خفیہ ایجنسی ’کے جی بی‘ کے لیے کام کرتا تھا۔ اور اس کردار کے بارے میں جو تفصیلات درج ہیں وہ گرمباچ سے مماثلت رکھتی تھیں۔یہ تفصیلات سُن کر مسٹر جیرارڈ کی اس بارے میں دلچسپی میں اضافہ ہوا۔مسٹر جیرارڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے اس کی کھوج شروع کی اور مجھے دستاویزات میں گرمباچ کا نام اور کچھ تصاویر ملیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد معاملات بہت سنگین ہو گئے۔ ’میں نے فرانسیسی خفیہ سروس سے اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے رابطہ کیا کہ آیا بروک نامی ایجنٹ واقعی گرمباچ تھا اور پھر ایک سے دوسری چیز نکلنا شروع ہو گئی۔‘گرمباچ سنہ 1924 میں پیرس میں ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ سنہ 1940 میں نازی جرمنی سے بچنے کے لیے وہ اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے ساتھ فرانس سے فرار ہو گئے۔انھوں نے اس کے بعد تقریباً فوراً ہی امریکی فوج میں شمولیت اختیار کرلی اور سنہ 1943 میں الجزائر میں لڑے۔ جنگ کے بعد وہ ’اے ایف پی‘ نیوز ایجنسی کے ساتھ منسلک ہو گئے جہاں سے بعدازاں انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔سنہ 1954 میں گرمباچ کو ’لے ایکسپریس‘ کے بانی جین جیکس سروین شریبر نے اپنے میگزین میں کام کرنے کے پر رکھ لیا۔اس کے بعد سے گرمباچ نے 20 ویں صدی کی فرانس کی کچھ نمایاں شخصیات کے ساتھ روابط بنانا شروع کر دیے۔انھوں نے اس وقت کے سینیٹر فرانکوئس مٹرینڈ، جو بعد میں فرانس کے صدر بھی بنے، کی ساکھ کو بحال کرنے میں ان کی مدد کی جب ان پر سنہ 1960 میں ایک قتل کا الزام لگایا گیا تھا۔سروین شریبر، صدر ویلری جیسکارڈ ڈی ایسٹانگ اور ممتاز سیاستدان پیئر مینڈیس فرانس جیسے طاقتور لوگوں کے قریب سمجھے جاتے تھے۔اداکار ایلین ڈیلون اور ازابیل ادجانی سنہ 1980 میں اُن کی شادی کی تقریب میں شریک ہوئے جبکہ مصنف فرانکوئس ساگن اور یویس سینٹ لارینٹ کے شریک بانی پیئر برج قانونی گواہ تھے۔اور گرمباچ اس تمام عرصے کے دوران ایک جاسوس تھے۔کچھ لوگ سوویت یونین کے لیے جاسوسی کرنے کے اُن کی وفاداری کو ایک ذاتی لگاؤ کے طور پر دیکھتے ہیں۔لیکن متروخین نے خود یہ قیاس کیا کہ ہو سکتا ہے کہ ابتدائی طور پر گرمباچ شاید اپنے کمیونسٹ نظریے کی وجہ سے ’کے جی بی‘ کی طرف راغب ہوئے ہوں، لیکن بعد میں ان کے جاسوس کے طور پر کام کرنے کی وجہ پیرس میں فلیٹ خریدنے کے لائق رقم جمع کرنے کی خواہش تھی۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesگرمباچ کو ملنے والی مالی مراعات یقیناً دلکش تھیں۔ متروخن فائلوں کے مطابق، سال 1976 اور سال 1978 کے درمیان گرمباچ کو ’کے جی بی‘ نے ان کو ان کی خدمات کے بدلے ڈھائی لاکھ یورو کے برابر انعام دیا تھا۔ 1970 کی دہائی می انھیں فرانس میں سوویت یونین کے سرفہرست 13 جاسوسوں میں سے ایک ہونے پر اضافی بونس بھی ملا۔لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے انھوں نے ’کے جی بی‘ کے لیے کون سے مشن انجام دیے۔متروخین فائلوں سے پتہ چلتا ہے کہ سنہ 1974 کے صدارتی انتخابات کے دوران کے جی بی نے انھیں من گھڑت فائلیں دی تھیں جن کا مقصد دائیں بازو کے صدارتی امیدواروں کے درمیان تناؤ پیدا کرنا تھا۔’لے ایکسپریس‘ نے دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا ہے کہ گرمباچ کو ’پیچیدہ مسائل حل کرنے‘ اور ’سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور رہنماؤں، اور گروپوں کے ساتھ روابط قائم کرنے کا مشن سونپا گیا تھا‘، لیکن ان کی فعال طور پر سوویت یونین کی مدد کرنے کی چند ہی ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ 1980 کی دہائی کے اوائل میں ’کے جی بی‘ نے اُن سے تعلقات منقطع کر لیے تھے۔متروخن فائلوں کی کتاب کے مطابق، پیرس میں موجود دوسرے ’کے جی بی‘ ایجنٹوں کا خیال تھا کہ گرمباچ مخلص نہیں تھے اور ان کو لگتا تھا کہ انھوں نے معلومات اکٹھا کرنے کی اپنی صلاحیتوں اور اپنی ذہانت کی قدر کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا۔ بالآخر سال 1981 میں گرمباچ کو ’کے جی بی‘ نے نکال دیا۔ہم کبھی نہیں جان پائیں گے کہ گرمباچ کو اس بات سے راحت ملی کہ اس کی دہری زندگی اب نہیں رہی، یا وہ کے جی بی کے لیے اپنی برسوں کی خدمات کے بارے میں کیسا محسوس کرتے تھے۔شاید شرم کی وجہ سے یا پھر وفاداری کے دیرینہ احساس کی وجہ سے، گرمباچ نے سنہ 2000 میں صحافی تھیری وولٹن کی ایک جاسوس کی حیثیت سے اپنے سالوں کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کی تو اس کو انھوں نے مسترد کر دیا۔شروع میں گرمباچ نے اپنے ماضی کوتسلیم کرتے دکھائی دیے، لیکن بعد میں وہ پیچھے ہٹ گئے اور وولٹن کو دھمکی دی کہ اگر انھوں نے یہ سب شائع کیا تو وہ ان پر مقدمہ کر دیں گے۔وولٹن نے اس پروجیکٹ کو چھوڑ دیا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس واقعے نے گرمباچ میں اپنے تجربات کے بارے میں بات کرنے کی خواہش کو جنم دیا۔گرمباچ کی بیوہ نیکول نے حال ہی میں ’لے ایکسپریس‘ کو بتایا کہ ولٹن کے دورے کے فوراً بعد اُن کے مرحوم شوہر نے انھیں سچ بتا دیا تھا۔انھوں نے میگزین کو بتایا کہ ’انھوں نے مجھے سمجھایا کہ ہماری شادی سے پہلے انھوں نے کے جی بی کے لیے کام کیا تھا۔‘نیکول کا کہنا ہے کہ گرمباچ نے انھیں بتایا کہ انھوں نے امریکی فوج میں رہتے ہوئے ٹیکساس میں جس نسل پرستی کا سامنا کیا، اس نے ان کے دل میں ’بغاوت‘ کا بیج بویا اور اس کی وجہ سے انھوں نے سوویت یونین کے ساتھ تعاون کرنے کا فیصلہ کیا۔’انھوں نے اس کے ساتھ ہی کہا کہ وہ فوراً رک جانا چاہتے تھے، لیکن انھیں دھمکی دی گئی تھی۔‘مسٹر جیرارڈ کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے سابق ایڈیٹر انچیف کے بارے میں سچائی کا پتہ لگانے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔’مجھے یقین تھا کہ میں اپنا کام کر رہا ہوں۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم تحقیقات کریں، کیونکہ اس کا ہم سے تعلق ہے، چاہے اس کا مطلب غیر آرام دہ سچائیوں کا پتہ لگانا ہو۔‘یہ مضمون لکھنے میں تین مہینے لگے، لیکن اس کا فائدہ ہوا۔ فرانس میں تقریباً ہر میڈیا آؤٹ لیٹ نے اس خبر کو جگہ دی شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ شاید بہت سے لوگ اب بھی گرمباچ کو ایک عظیم شخصیت کے طور پر یاد کرتے ہیں جس نے فرانسیسی میڈیا کے منظر نامے پر دہائیوں تک غلبہ حاصل کیا۔اس خبر کے بعد، شاید کچھ لوگ گرمباچ کے لے ایکسپریس میں کام کرنے کے زمانے میں سوویت نواز خبروں کی تلاش میں پرانی کاپیاں کھنگالنے لگ جائیں لیکن انھیں کچھ بھی ملنے کا امکان نہیں ہے۔ 1950 کی دہائی میں، ایڈیٹر انچیف کے طور پر گرمباچ کے پہلے دور میں لے ایکسپریس کا جھکاؤ بائیں بازو کی جانب تھا۔ 1970 کی دہائی میں، جب گرمباچ دوبارہ لے ایکسپریس کے سربراہ تھے تو یہ اخبار ایک اعتدال پسند، لبرل، سینٹرسٹ جانب جھک چکا تھا۔جیسا کہ لے ایکسپریس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرمباچ کا بطور جاسوس کام کبھی بھی پروپیگنڈا پھیلانا نہیں تھا۔جیراڈ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے بڑی احتیاط سے ایک جاسوس کے طور پر اپنے کام کو میگزین ایڈیٹر کے اپنے کام سے الگ رکھا۔ لیکن شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اتنے بڑے عرصے تک دونوں کام کر سکے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}