وہ مسیحی فرقہ جس میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت تو ہے لیکن کافی اور شراب ممنوع ہیں
،تصویر کا ذریعہPUBLIC DOMAIN
- مصنف, ایڈیسن ویگا
- عہدہ, بی بی سی نیوز برازیل
چرچ آف جیسس کرائسٹ آف لیٹر ڈے سینٹس یا چرچ آف مورمنز کے بانی جوزف سمتھ کو ایک خوش لباس سفید فام شخص کے طور پر دکھایا جاتا ہے جن کے بھورے بال اور نیلی آنکھیں ان کو کافی ممتاز بناتی ہیں۔
لیکن ایک کسان کے بیٹے نے انیسویں صدی کے امریکہ میں ایک نئے مسیحی گرجا گھر کا قیام کیسے ممکن بنایا؟
ساو پاولو سے تعلق رکھنے والے مورخ اور فلسفی گیرسون لیٹے کا کہنا ہے کہ مورمنزم امریکی پیداوار ہے جو اس صدی کے حالات و واقعات کی وجہ سے پیدا ہوا۔
یہ ایسا وقت تھا جب متعدد مذہبی گروہ نمودار ہوئے جنھیں اب فرقے کہا جاتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ سمتھ نے جس چرچ کو جنم دیا وہ ایک ایسی طاقت بن گئی جو پوری دنیا میں پھیل گئی۔
چرچ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق 2022 کے اختتام تک دنیا بھر میں اس کے ایک کروڑ ستر لاکھ اراکین ہیں۔ امریکہ، میکسیکو اور برازیل میں اس فرقے سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
گیرسون کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ فرقہ خالصتاً امریکی پیداوار تھا لیکن اس نے دیگر مذاہب سے بہت سی خصوصیات کو مستعار لیا جیسا کہ مسیحیت، یہودی مذہب اور اسلام۔
ان کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ یہ فرقہ بدلتا رہا۔ کچھ چیزوں کو نکال دیا گیا، چند کا مطلب بدل دیا گیا۔
’کرپٹ‘ مذاہب
اس فرقے کی کہانی کا آغاز اس زمانے سے ہوتا ہے جب ایک نوجوان جوزف سمتھ بہت زیادہ عبادت کیا کرتے تھے۔ چودہ سال کی عمر میں، فرقے کے مطابق، جوزف نے خدا سے سوال کیا کہ ان کو کس چرچ میں شامل ہونا چاہیے۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
کیتھ ایرکسن چرچ آف جیسس کرائسٹ آف لیٹر ڈے سینٹس میں تاریخی تحقیق کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جوزف بائبل بہت زیادہ پڑھتے تھے اور اس بارے میں سوچتے تھے کہ کیا وہ اس طریقے سے زندگی گزار رہے ہیں جیسا خدا نے کہا ہے۔ 1820 کے موسم بہار میں انھوں نے خدا سے بہت دعا کی کہ ان کی رہنمائی کریں۔
کہا جاتا ہے کہ سمتھ کو جواب وصول ہوا۔ ایرکسن کے مطابق ’جوزف کے سامنے خدا اور حضرت عیسی نمودار ہوئے اور حضرت میسح نے جوزف سمتھ سے کہا کہ ان کے گناہ معاف کر دیے گئے ہیں۔‘
جوزف کے اپنے بیان کے مطابق انھوں نے دو شخصیات کو دیکھا جن کی عظمت کو بیان نہیں کیا جا سکتا اور وہ ہوا میں معلق تھے۔ ’ایک نے مجھ سے بات کی اور مجھے نام سے پکارتے ہوئے دوسری شخصیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے اس کی بات سنو۔‘
جوزف کے مطابق ان کو کہا گیا کہ وہ کسی فرقے میں شامل نہ ہوں کیونکہ وہ سب ہی غلط ہیں۔
نیا انکشاف
ایرکسن کا کہنا ہے کہ جوزف کا خاندان، جس میں گیارہ بچے شامل تھے، کافی مذہبی تھا۔
وہ باقاعدگی سے بائبل پڑھتے تھے، چرچ جاتے تھے۔ جوزف کی والدہ اور ان کے تین بھائی پریسبیٹیریئن چرچ میں شامل تھے لیکن جب جوزف نے اپنا گرجا گھر بنایا تو سب اس میں شامل ہو گئے۔
جوزف کے مطابق تین سال بعد، ستمبر 1823 میں، ان کو ایک اور خواب آیا جس میں مورونی نامی فرشتہ ظاہر ہوا۔
،تصویر کا ذریعہEDISON VEIGA
’اس نے مجھے بتایا کہ ایک کتاب ہے جو سونے کی پلیٹ پر لکھی گئی ہے، جس میں اس براعظم پر رہنے والے قدیم باسیوں کی باتیں درج ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ اس کتاب میں وہ تمام چیزیں درج ہیں جو خدا کے نمائندوں نے مقامی باشندوں کو زمانہ قدیم میں بتائی تھیں۔‘
جوزف کے مطابق فرشتے نے ان کو بتایا کہ کتاب کے ساتھ ان کو دو پتھر ملیں گے جن کو اس کتاب کے ترجمے کے لیے تیار کیا گیا لیکن ان کے مطابق ان کو تاکید کی گئی کہ وہ سونے کی پلیٹ کسی کو نہیں دکھا سکتے۔
جوزف کے مطابق یہ فرشتہ چار سال تک ان کے پاس آتا رہا اور ان کو سبق پڑھاتا رہا جس کے بعد ان کو نیو یارک میں مانچسٹر کے قریب سے وہ کتاب مل گئی۔
جوزف کے مطابق سونے کی پلیٹیں ایک پتھر کے ڈبے میں بند تھیں۔
مقدس کتاب
یہ کتاب بک آف مورمن کہلائی کیونکہ بتایا گیا کہ اسے مورمن نامی ایک قدیم نبی نے تیار کیا تھا اور اسی لیے اس فرقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے بھی مورمن نام مشہور ہو گیا۔
جوزف نے کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ ان کے مطابق یہ کتاب کسی قدیم عبارت میں تحریر تھی جو مصری زبان سے ملتی جلتی تھی۔
ایرکسن کے مطابق اس کتاب میں مشرق وسطی کے ان آباد کاروں کی کہانی درج تھی جو حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے چھ سو سال قبل امریکہ پہنچے۔
ایرکسن کے مطابق حضرت میسح ان لوگوں کے سامنے نمودار ہوئے اور اس کتاب میں اس کا ذکر موجود ہے۔
،تصویر کا ذریعہEDISON VEIGA
جوزف کے مطابق کتاب کا ترجمہ مکمل ہو جانے کے بعد انھوں نے یہ کتاب ایک آسمانی مخلوق کے حوالے کر دی۔
گیرسون کا کہنا ہے کہ کہ اس فرقے کو ماننے والوں کے لیے مورمن کی کتاب بائبل پر فوقیت رکھتی ہے۔ ونیکیئس کیوٹو مذہبی سائنسز کے ماہر اور نازارین چرچ کے راہب ہیں۔ وہ گیرسون سے اتفاق کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مورمن فرقے کے لوگ بائبل، اولڈ اور نیو ٹیسٹیمنٹ، کو اہم گردانتے ہیں لیکن ان کے خیال میں بک آف مورمن سب سے بہتر ہے۔
جہاں کسی مورمن کے عقائد بائبل سے اختلاف میں ہوتے ہیں تو ان کے نزدیک بک آف مورمن زیادہ اہم ہوتی ہے۔
شراب اور کافی کی ممانعت
لیکن اگر بائبل کے مطابق حضرت عیسیٰ نے شراب پی تھی تو مورمن فرقے میں شراب نوشی پر مکمل پابندی کیوں ہے؟
مورمن چرچ کے ایک رکن نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے وقت کے بارے میں سوچنا ہے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ شراب نقصان دہ ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
کافی کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ جوزف نے لکھا کہ 27 فروری 1833 کو اُنھیں ایک الہام میں یہ بتایا گیا کہ ’شراب، تمباکو اور زیادہ گرم مشروبات کا استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔‘ مورمن فرقے کی تشریح کے مطابق اس میں کافی بھی شامل ہے۔
ایرکسن کہتے ہیں کہ لوگوں کو اپنے جسم کا خیال رکھنے کے لیے کہا گیا تاکہ وہ صحتمند زندگی گزاریں اور دانش اور علم جیسے روحانی انعام سے مستفید ہو سکیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اسی لیے بک آف مورمن میں اچھی صحت کے لیے مفید چیزوں کی نشاندہی بھی کی گئی جیسا کہ پھلوں کا استعمال۔
ایک سے زیادہ شادی کا رواج
اس فرقے سے جڑا سب سے متنازع رواج ایک سے زیادہ شادیوں کا دفاع ہے۔ اگرچہ یہ رواج ماضی میں کافی زیادہ تھا لیکن اب اس میں کمی آ چکی ہے۔
جوزف سمتھ کی سوانح عمری لکھنے والوں کا دعوی ہے کہ ان کی چالیس بیویاں تھیں۔
چرچ کی اپنی معلومات کے مطابق 1852 سے 1890 تک یہ گرجا گھر زیادہ شادیوں کے رواج کا حامی تھا اور زیادہ تر لوگ امریکی ریاست یوٹاہ میں رہتے تھے۔ ان مردوں اور خواتین کو مسائل کا ادراک تھا لیکن اپنے خاندان میں انھوں نے محبت اور خوشی بھی پائی۔
ان کا ماننا تھا کہ یہ خدا کا حکم ہے جسے ماننے سے ان کو خوشحالی ملے گی۔
ایرکسن کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں کا یہ ماننا درست نہیں کہ مورمن فرقے کی بنیادی خصوصیت ایک سے زیادہ شادیاں کرنا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
جوزف سمتھ نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں اپنے قریبی لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کے سامنے وہ حکم پیش کیا جو انھیں خدا کی طرف سے ملا تھا کہ وہ ایک مرد کی ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرنے کا عمل شروع کریں۔
’انھوں نے اس بات کو درج کیا کہ بائبل میں بہت سے نبیوں نے اس رواج کی پیروی کی، جن میں موسیٰ، ابراہیم اور یعقوب شامل ہیں۔ ان کی موت کے بعد، اس عمل کا عوامی طور پر اعلان کیا گیا تھا اور تقریبا 50 سال تک کے لیے اسے لاگو کیا گیا تھا لیکن 1904 کے بعد ایک سے زیادہ شادیوں کا جشن منانے پر پابندی ہے۔‘
اس سوچ اور خیال کی باقاعدہ سماجی تاریخی وجوہات تھیں۔ وہ نئی زمین کو آباد کرنے کے لیے بچوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہتے تھے اور مردوں کے مقابلے میں خواتین کی آبادی بہت زیادہ تھی۔
جیسا کہ قانون سازی میں جائیداد ضبط کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا، سرکاری عہدیداروں نے ان مذہبی لوگوں کے مندروں کو ضبط کرنے کی دھمکی دی۔ 1890 کے اوائل میں چرچ آف جیسس کرائسٹ آف لاٹر ڈے سینٹس سے اس رواج کو ختم کرنے کے لیے ایک تحریک شروع ہوئی، جس نے 1904 میں حتمی شکل اختیار کی۔
مذہبی عدم رواداری
1830 میں جوزف سمتھ کے پہلے وژن یا سوچ کے دس سال بعد، ایک نیا مسیحی فرقہ منظر عام پر آیا۔
ایرکسن کہتے ہیں کہ ’جوزف سمتھ کی رہنمائی ایک خدا نے کلیسیا قائم کرنے کے لیے کی تھی۔‘
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
اس وقت تک، سمتھ اپنی پہلی بیوی، ایما ہیل سمتھ سے شادی کر چکے تھے، اور اس کے ساتھ ہارمونی شہر میں رہتے تھے، اب اوکلینڈ، پنسلوانیا تاہم شروع سے ہی گرجا گھر کو ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا اور سمتھ اس کے بانی کی حیثیت سے، مرکزی ہدف بن گئے۔
انھیں بد نظمی کو فروغ دینے کے الزام میں ایک سے زیادہ بار گرفتار کیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے انھیں کئی مرتبہ شہر تبدیل کرنا پڑا۔ انھوں نے ہمیشہ نئے پیروکاروں سامنے لاتے اور متعدد مرتبہ انھوں نے اپنے گرجا گھر کے لئے نئے مراکز بنائے۔
25 جون 1844 کو، سمتھ پر فساد بھڑکانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ انھیں ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے دو ہی دن کے بعد ایک مسلح ہجوم کارٹاگو جیل پر چڑھ دوڑا جہاں انھیں رکھا گیا تھا۔ سمتھ نے کھڑکی سے چھلانگ لگا کر فرار ہونے کی کوشش کی، لیکن اس دوران انھیں گولی مار دی گئی اور جب وہ زمین پر گرے تو پولیس کا ایک دستہ اُنھیں گولی مار چُکا تھا۔
ان کی موت کی وجہ سے مقامی پریس نے انھیں ایک مذہبی جنونی کے طور پر پیش کیا لیکن مورمن برادری انھیں خدا کی راہ میں مارے جانے والے کے طور پر یاد رکھا اور نہ صرف یہ بلکہ اُن کی اس قربانی سے چرچ کی ترقی کو فروغ ملے گا۔
’اس (چرچ کے قیام) کے بارے میں بہت تنازعہ ہے، یہ ساری تاریخ جس میں یہ حقیقت شامل ہے کہ کوئی بھی اصل کتاب نہیں دیکھ سکتا، لیکن سمتھ ایک ایسے شخص تھے جنھوں نے ایک بہت مُشکل اور دشوار گُزار وقت سے ہوتے ہوئے ایک نئے گرجا گھر کو تخلیق کیا اور بہت سے لوگ تضادات کے باوجود اُن کے ساتھ شامل ہو گئے۔
،تصویر کا ذریعہEDISON VEIGA
اس کے بعد چرچ کی قیادت ’بریگھم ینگ‘ کے ہاتھوں میں چلی گئی، جنھوں نے مورمنوں کو مغربی امریکہ کی جانب جانے کے لیے رہنمائی کی۔
آخر میں، چرچ کے ارکان نے سالٹ لیک سٹی کی بنیاد رکھی اور ریاست یوٹاہ میں آباد ہوگئے، جہاں اُن کے ماننے والوں کی اکثریت اور ادارے کا مرکزی دفتر آج بھی قائم ہے۔
موریس بتاتے ہیں کہ ’دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پورے عمل کے دوران ایک بیانیہ موجود ہے جو لوگوں کی شناخت کی تعمیر میں سہولت فراہم کرتا ہے، وہ لوگ جو اپنے عقیدے پر عمل کرنے کی وجہ سے ستائے گئے، مگر پھر اُسی گروہ نے ایک نئی سرزمین کی قیادت کی اور اسے اپنا مسکن بنایا۔‘
’اور وہ بڑے پیشواؤں کی طرح برتاؤ کرتے ہیں، وہ وفادار، محنتی ہیں، وہ گواہی دیتے ہیں۔ خوشحالی ایک خوبصورت انداز میں ظاہر ہوئی جس نے اس یقین کو جنم دیا کہ وہ نیکی کے ساتھ ہیں، صحیح کام کر رہے ہیں اور خدا کی رضا حاصل کر رہے ہیں۔‘
Comments are closed.