وہ مسلم ملک جو ’نِکل‘ کے ذخائر اور نئے زیر تعمیر دارالحکومت کے ساتھ دنیا کی پانچ بڑی معیشتوں میں شامل ہونا چاہتا ہے
- مصنف, حنا سموسر اور نکی وڈاڈیو
- عہدہ, بی بی سی انڈونیشیائی، جکارتا اور نوسانتارا
- 24 منٹ قبل
ملازمت کی تلاش میں انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے 55 سال کے مسمل یادی اور اُن کی 50 سالہ اہلیہ نورمس ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کر کے اپنے ملک کے نئے دارالحکومت میں آ کر آباد ہوئے ہیں۔ یہ نیا دارالحکومت ایک جنگل میں بنایا جا رہا ہے۔مسمل یادی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’جب تک یہاں تعمیراتی کام جاری ہے تب تک یہاں ملازمت ڈھونڈنا آسان ہو گا۔‘مسمل اور اُن کی اہلیہ کا نیا گھر اب بورنیو جزیرے پر واقع نوسانتارا شہر ہے۔ ’نوسانتارا‘ جاوا زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’جزیرہ نما‘۔نورمس سیمنٹ تیار کر رہی ہیں جبکہ ان کے شوہر مسمل یادی ٹائلیں لگا رہے ہیں۔
ان میاں بیوی کا خواب وہی ہے جو ’انڈونیشیا کا خواب‘ ہے۔ مسمل یادی کی خواہش ہے کہ انھیں ایک مستحکم ملازمت ملے اور وہ کسی بڑے تعمیراتی منصوبے پر ایک چھوٹے ٹھیکیدار بن جائیں۔،تصویر کا ذریعہOki Budhi
پانچ پڑی معیشتوں میں شامل ہونے کا عزم
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے مطابق جب سنہ 2014 میں صدر ویدودو پہلی بار اقتدار میں آئے تھے تو اُس وقت پرچیزنگ پاور پیریٹی (پی پی پی) کی بنیاد پر انڈونیشیا دنیا کی 10ویں سب سے بڑی معیشت تھا۔مگر اب ایک دہائی بعد انڈونیشیا ساتویں نمبر پر آ چکا ہے۔یہ تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک یعنی انڈونیشیا سنہ 2027 تک معاشی میدان میں روس سے آگے نکل جائے گا۔ رواں ماہ 14 فروری کو انڈونیشیا میں صدارتی انتخابات منعقد ہوئے ہیں اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق وزیر دفاع پرابوو سوبیانتو صدر بننے کی راہ پر گامزن ہیں۔ پرابوو سوبیانتو نے وعدہ کیا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کو جاری رکھیں گے اور موجودہ صدر ویدودو کے بیٹے اُن کی طرف سے نائب صدر کے امیدوار ہوں گے۔انڈونیشیا کے 10 بڑے بینکوں میں سے ایک پرماتا بینک میں چیف اکانومسٹ کے عہدے پر تعینات جوسوا پاردیدے کہتے ہیں کہ ’صدر کا منصوبہ دستاویزات میں اچھا لگتا ہے اور یہ انڈونیشیا کو آئی ایم ایف کی پیش گوئی کے کافی قریب لا سکتا ہے۔‘لیکن انڈونیشیا کے ارادے اس سے زیادہ بڑے ہیں۔ سنہ 2045 میں ملک کی آزادی کے 100 سال مکمل ہونے تک وہ دنیا کی ان پانچ بڑی معیشیتوں میں شامل ہونا چاہتا ہے جہاں آبادی کی فی کس آمدنی زیادہ ہے۔لیکن اس کے لیے وزیر خزانہ سری ملیانی کے مطابق انڈونیشیا کی معیشت کو ہر سال چھ سے سات فیصد شرح نمو سے بڑھنا ہو گا۔ اس وقت یہ پانچ فیصد پر کھڑی ہے۔،تصویر کا ذریعہOki Budhi
’نِکل کا بخار‘
انڈونیشیا اپنے سیاحتی مقام بالی کی وجہ سے کافی مشہور ہے لیکن اب اس کی وجہ شہرت یہاں دنیا کے سب سے بڑے نِکل (ایک قسم کی سفید دھات) کے ذخائر بھی ہیں۔ نِکل نامی دھات الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں کا ایک اہم جزو ہے۔جب صدر ویدودو نے پہلی بار سنہ 2019 میں خام نکل کی برآمد پر پابندی لگائی تھی تو یورپی یونین نے عالمی تجارتی دارے (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) میں انڈونیشا کے خلاف مقدمہ کر دیا تھا۔صدر ویدودو نے اُس وقت کہا تھا کہ وہ انڈونیشیا میں اس دھات کی پروسیسنگ کی قابلیت کو بہتر کرنا چاہتے ہیں، جسے ’ڈاؤن سٹریمنگ‘ کہا جاتا ہے۔ایک غیر جانبدار تحقیقی ادارے انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ آف اکنامک فنانس (انڈیف) کے ایک مطالعے کے مطابق صدر کی ’نِکل پالیسی‘ کی وجہ سے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے اور معیشت میں بڑھوتری ہوئی۔لیکن خام نکل کو پگھلانے کے لیے انڈونیشیا چین پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ اس وجہ سے اس سارے عمل کے مستقبل پر بڑا سوالیہ نشان لگایا جاتا ہے، کیونکہ چین کی معیشت کے بارے میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اس سال چین کی معیشت کے بڑھنے کی رفتار 5.2 فیصد سے کم ہو کر 4.6 فیصد ہو جائے گی۔صدر ویدودو پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ کھلی باہوں سے چینی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہتے ہیں لیکن ان کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے زمینی تنازعات، صحت کے مسائل اور ماحول کی تباہی کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ایک غیر سرکاری تنظیم مائننگ ایڈویکیسی نیٹ ورک (جاٹام) کے کوآرڈینیٹر میلکی ناہار کہتے ہیں کہ ’نِکل کے بخار سے حکومت کا دماغ خراب ہو جاتا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
قوم کا ورثہ
انڈونیشیا میں 1700 چھوٹے بڑے جزائر ہیں جو تین ٹائم زونز میں پھیلے ہوئے ہیں جبکہ موجودہ دارالحکومت جکارتہ سطح سمندر بلند ہونے کے باعث ڈوب رہا ہے، لہذا ان تمام جزائر کا آپس میں رابطے میں رہنا انڈونیشیا کی ترقی کے لیے بہت اہم ہے۔جب سنہ 2023 میں دنیا کورونا وبا کے اثرات سے نکل رہی تھی تو اس وقت صدر ویدودو نے دارالحکومت کو منتقل کرنے کے قانون پر دستخط کیے تھے جس کی وجہ سے کچھ لوگ حیران بھی ہوئے تھے اور اس فیصلے پر تنقید بھی کی گئی تھے۔چین سمیت کچھ ممالک نے نئے دارالحکومت میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی دکھائی ہے، لیکن اس حوالے سے کوئی ’ٹھوس‘ چیز سامنے نہیں آئی۔ایک غیر جانبدار تھنک ٹینک سینٹر آف اکنامک اینڈ لا سٹڈیز (سیلی اوس) کی نیلولہدیٰ کہتی ہیں ’اب تک بڑے عالمی سرمایہ کاروں سے ’نوسانتارا‘ (نئے دارالحکومت) میں سرمایہ کاری کروانا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔‘صدر نے مختلف طریقوں سے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے سرمایہ دار پسند لیبر قانون متعارف کروائے جن کے بارے میں سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ یہ مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔صدر ویدودو اکتوبر میں اقتدار نئے صدر کو منتقل کریں گے اور اطلاعات کے مطابق وہ نوسانتارا کی تعمیر کو ہمیشہ کے لیے رہنے والے ورثے کے طور پر دیکھتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.