این فرینک کون تھیں؟ دوسری جنگِ عظیم میں ان کے ساتھ کیا ہوا؟
فروری 1945 میں این اور ان کی بہن مارگوٹ قید میں ٹائفس بخار میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو گئیں۔
دوسری عالمی جنگ میں یہودیوں کے قتلِ عام (ہولوکاسٹ) کے دوران این فرینک ایک نوجوان لڑکی تھیں جو نیدرلینڈز میں رہتی تھیں۔ نازیوں کے ایک جنگی کیمپ میں ان کی وفات کے سات سال کے بعد 30 اپریل 1952 کو شائع کیے جانے کے بعد ان کی ڈائری کے صفحات ایک کتاب کی شکل میں پوری دنیا میں مشہور ہوئے۔ ڈائری کے یہ صفحات انھوں نے نازیوں کے جنگی کیمپ میں اپنی قید کے دوران چھپ لکھے تھے۔
این فرینک کی خفیہ رہائش گاہ کو عام لوگوں کے لیے کھولے جانے کا یہ 62واں سال بھی ہے۔ یہی وہ گھر ہے جہاں چھپ کر وہ ڈائریاں لکھا کرتی تھیں۔ نازیوں کے جنگی کیمپ میں واقع اس گھر کو مرمت کر کے بحال کرنے کے بعد 3 مئی 1960 کو عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا تھا۔
این فرینک اپنے خاندان کے ساتھ ایمسٹرڈیم میں رہتی تھیں لیکن سنہ 1942 میں انھیں نازیوں سے چھُپنا پڑا جو یورپ میں یہودی آبادی سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔
چھپ کر یہ وقت گزارنے کے دوران این فرینک اپنے روز و شب کے حالات کے بارے ڈائری لکھا کرتی تھیں جو بعد میں دنیا کی مشہور ترین کتابوں میں شامل ہوئی۔ لیکن اپنے آپ کو ایک مصنف کے طور پر دیکھنے کا ان کا خواب پورا نہ ہو سکا اور وہ ہولوکاسٹ کے دوران ہلاک ہو گئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خوفناک واقعات سے زندہ بچ نکلنے والے ان کے والد کو ان کی ڈائری دی گئی جنھوں نے ایک کتاب کی شکل میں اس کی اشاعت کروائی۔
آئیے ہم اس حیرت انگیز لڑکی کے بارے میں مزید جانتے ہیں جس نے حالیہ تاریخ کے ہولناک ترین واقعات میں سے ایک کی کہانی پوری دنیا کو سنائی۔
این فرینک کی ابتدائی زندگی کیسی تھی؟
اینالیزا میری فرینک، جو این فرینک کے نام سے مشہور ہوئیں، جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں 12 جون 1929 میں ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کی بہن کا نام مارگوٹ تھا جو ان سے تین سال بڑی تھیں۔ ان کے والدین کے نام ایڈتھ اور اوٹو تھے۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی کو غربت کا سامنا تھا اور اکثر لوگوں کے لیے زندگی بہت مشکل ہو گئی تھی۔ ایڈولف ہٹلر کی نازی پارٹی تیزی سے مقبول ہو رہی تھی جو ملک کے بہت سے مسائل کا ذمہ دار یہودیوں کو قرار دیتی تھی۔
سنہ 1933 میں جب نازی پارٹی انتخابات جیت کر اقتدار میں آئی تو یہودی لوگوں پر مظالم شروع کر دیے گئے اور ان کی زندگی انتہائی مشکل بنا دی گئی۔
فرینک خاندان نے جرمنی سے نکلنے کا فیصلہ کیا اور وہ نیدرلینڈز کے شہر ایمسٹرڈیم منتقل ہو گئے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ وہاں محفوظ ہوں گے۔
ایمسٹرڈیم میں این فرینک سکول جانے لگیں جہاں ان کے نئے دوست بنے، انھوں نے ڈچ زبان سیکھی اور ایک نئی زندگی میں مگن ہو گئیں۔ این فرینک صرف 10 برس کی تھیں جب پہلی ستمبر 1939 میں جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا اور دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہو گیا۔
ایک سال سے بھی کم عرصے میں یعنی 10 مئی 1940 کو جرمن فوج نے نیدرلینڈز پر بھی حملہ کر دیا اور نازیوں نے وہاں پر بھی یہودیوں پر مظالم شروع کر دیے۔
ہولوکاسٹ کے دوران این فرینک کے ساتھ کیا ہوا؟
13 ویں سالگرہ کے موقع پر این کو ایک ڈائری تحفے میں دی گئی جس کا نام انھوں نے کِٹی رکھا۔ 12 جون 1942 کو اس ڈائری میں انھوں نے پہلی مرتبہ کچھ لکھا۔ اس وقت تک نازیوں نے نیدرلینڈز میں رہنے والے یہودیوں پر مظالم میں اضافہ کر دیا تھا۔
سنہ 1942 کی گرمیوں میں نازیوں نے این کی بہن مارگوٹ کو حکم دیا کہ وہ ان کے کیمپ میں کام کریں۔ لیکن ان کے خاندان کو خوف تھا کہ مارگوٹ اور باقی خاندان کے ساتھ نازی خراب سلوک کریں گے اس لیے یہ سب روپوش ہو گئے۔ این فرینک کے والد اوٹو نے اپنے کاروبار کی عمارت سے ملحقہ ایک جگہ بنائی ہوئی تھی جہاں یہ خاندان چھپ کر رہنے لگا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
این فرینک کے والد اوٹو نے این فرینک کی ڈائری کو کتابی شکل دی اور پھر اسے شائع کرا دیا۔
اس خاندان کے علاوہ وہاں چار دیگر افراد بھی چھپے ہوئے تھے۔ یہ افراد ہیرمن، آگسٹے اور ان کا بیٹا پیٹر اور ایک دوسرا شخص فریٹز فیفر تھے۔
ان چھپے ہوئے لوگوں کی مدد اوٹو کے قابلِ اعتماد دوستوں نے کی جو انھیں خوراک اور باہر کی دنیا کی خبریں پہنچاتے تھے۔
یہ سارا وقت این نے لکھنے میں گزارا۔ انھیں لکھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ اس دوران وہ اپنی ڈائری کے صفحات لکھتی رہیں اور اس کے علاوہ انھوں نے نظمیں اور کہانیاں بھی لکھیں۔ یہ لکھنا ہی تھا جس کے ذریعے انھوں نے حالات کا مقابلہ اور سکون حاصل کیا۔
ایک دن انھوں نے ریڈیو پر ڈچ حکومت کے وزیرِ تعلیم کی باتیں سنیں۔ وہ انگلینڈ میں تھے اور لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ جنگ سے متعلق ڈائریاں اور دستاویزات کو محفوظ رکھیں۔ اس بات نے این فرینک کو بھی متاثر کیا کہ وہ اپنی ڈائری کے صفحات کو ایک کتاب کی شکل دیں۔
انھوں نے اپنی ناول ’خفیہ عمارت‘ پر کام شروع کیا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنی ناول مکمل کرتیں وہ ہو گیا جس کا ان لوگوں کو خوف اور خطرہ تھا۔ دو سال تک چھپے رہنے کے بعد آخر کار نازیوں کو ان کی خفیہ رہائش گاہ کے بارے میں معلوم ہو گیا۔ آج تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ نازیوں کو اس بارے میں کس طرح خبر ہوئی۔
یہ بھی پڑھیے
چار اگست 1944 کو ان تمام افراد کو گرفتار کر کے آوشوٹز بِرکیناو نامی کانسنٹریشن کیمپ بھیج دیا گیا۔ این فرینک نے اپنی ڈائری میں آخری مرتبہ صرف تین روز پہلے پہلی اگست 1944 کو لکھا تھا۔
جب این فرینک کو گرفتار کیا گیا تو اس کے بعد ان کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا گیا؟
جب وہ آشوٹز برکیناؤ پہنچے تو فرینک خاندان کے افراد کو نسبتاً اچھی صحت کے حامل ہونے کی وجہ سے کام پر لگا دیا گیا۔ اوٹو کو اپنی بیوی اور دو بیٹیوں سے علیحدہ کر دیا گیا تھا۔ بعد میں این اور مارگوٹ بھی اپنی ماں سے علیحدہ کر دی گئیں۔
چار اگست 1944 کو فرینک خاندان کو گرفتار کر کے آوشوٹز بِرکیناو نامی حراستی کیمپ بھیج دیا گیا۔
اوٹو کے ایمسٹرڈیم میں دو دوست میپ گیز اور بیپ ووسکوئیجل تھے جنھوں نے ان کے خاندان کی اس وقت مدد کی جب وہ کہیں چھپ کر رہ رہے تھے۔ ان دونوں کے ہاتھ این فرینک کی ڈائری بھی لگ گئی اور پھر انھوں نے اسے اپنے پاس ہی رکھ لیا کہ جب کبھی وہ واپس آ جائے گی تو اسے یہ دے دی جائے گی۔
لیکن افسوسناک طور پر ایسا نہیں ہونا تھا۔ این اور مارگوٹ کو نومبر 1944 کے اوائل میں برگن۔۔بیلسن کے ایک حراستی کیمپ میں بھیج دیا گیا جہاں ان کی صحت بھی خراب ہو گئی۔ فروری 1945 میں یہ دونوں قید میں ٹائفس بخار میں مبتلا ہو کر مر گئیں۔ ابھی وہ چند دن پہلے ہی ایک دوسرے سے علیحدہ ہوئی تھیں۔
ان کی والدہ ایڈتھ کو بھی قتل کر دیا گیا۔
ان کے والد اوٹو خاندان کے واحد فرد تھے جو اس ہولوکاسٹ میں زندہ بچ گئے تھے۔ میپ اور بیپ نے این فرینک کی ڈائری ان تک پہنچائی۔
جب اوٹو نے اس ڈائری کو پڑھا اور پھر اندازہ لگایا کہ اس ڈائری کے ان کے لیے کیا مطلب معنی ہیں اور وہ کس طرح موت کے بعد بھی زندہ رہنا چاہتی تھیں۔ اوٹو نے این فرینک کی ڈائری کو کتابی شکل دی اور پھر اسے شائع کرا دیا۔
25 جون 1947 کو (‘Het Achterhuis (‘The Secret Annex نامی کتاب کی صرف 3,000 سے زیادہ کاپیاں چھپی تھیں۔ بہت جلد ہی یہ کتاب کئی زبانوں میں ترجمہ کر کے شائع کی گئی۔ اس پر ڈرامہ اور فلم بھی بنی اور یوں دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں تک این فرینک کی کہانی پہنچی۔
این فرینک کا مصنف بننے اور چھپ کر اپنی زندگی سے متعلق ایک ناول شائع کرنے کا خواب اب ایک حقیقت میں بدل گیا۔
سنہ 1960 میں ایمسٹرڈیم میں وہ جگہ جہاں چوری چھپے یہ ڈائری لکھی گئی تھی اب وہاں این فرینک ہاؤس کے نام سے ایک سرکاری میوزیم بن گیا ہے۔ اس میوزیم میں اصل ڈائری نمائش کے لیے رکھی گئی ہے۔ آپ آج بھی اس جگہ جا کر اس ڈائری کو دیکھ سکتے ہیں۔
Comments are closed.