زیرِ آب مراقبے سے سکون حاصل کرنے والی قوم
- ہیدر رچرڈسن
- بی بی سی ٹریولز
جنوبی افریقہ کے رہنے والے بہت سے لوگوں کے لیے زیرِ آب گزارے گئے وقت میں میسر آنے والی خاموشی اور سکون اُن کی شخصیت میں بڑی تبدیلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
کیپ ٹاؤن کے ساحلی پانیوں کی سطح کے نیچے جھانکیں تو آپ کو ایک سنہری جنگل ملے گا۔ سمندری بانس کی جھاڑیاں سرد سمندر میں ڈوبی ہوئی ہیں، امبر رنگ کے سمندر کی تہہ سے لمبے لمبے تنے سے پھوٹ رہے ہیں۔ انسانی سماعت کے لیے یہ عمیق خاموشی ہے۔
چاندی کی سی بحری سیمِ ماہی کم گہرے پانی میں تیرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ سورج کی روشنی کی کرنیں چمکدار فیروزی پانی سے گزرتی اور ناچتی ہوئی سمندری گھاس کے جھنڈوں کو چمکاتی ہیں۔ ایک آکٹوپس تقریباً ایک چٹان کے نیچے چھپا ہوا ہے۔ چٹان کی دیواروں پر نارنجی سٹار فش اور نیلم رنگ کے سمندری خارِ پشت لگے ہوئے ہیں۔ پتلی سی شارک سمندر گھاس میں سرکتی ہوئی نظر آتی ہے۔
یہ سمندری جنگل سمندر میں ساحل سے محض چند قدم کے فاصلے پر ہے اور اسے صرف ایک ہی نظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
فری ڈائیونگ، سکوبا گیئر کے بغیر سانس روکے ہوئے غوطہ خوری، گذشتہ ایک دہائی کے دوران کیپ ٹاؤن میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ آسکر ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم ’مائی آکٹوپس ٹیچر‘ میں عظیم افریقی سمندری جنگل کی تصویر پیش کرنے سے کافی پہلے سے ہی یہ جنوبی افریقہ کے مغربی ساحل سے نمیبیا تک پھیلا ہوا ہے۔
اُس وقت جب پانی صاف شفاف نظر آ رہا ہوتا ہے، غوطہ خوروں کو وہاں سرگرم گھومتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اُن کے اضافی لمبے پیراکی کے پنکھ بازوؤں میں لگے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ٹھنڈے پانی میں نہانے کے شوقین صرف اپنے نہانے کے سوٹ اور وزنی بیلٹ باندھے سمندر میں جاتے ہیں، جبکہ زیادہ تر موٹے ویٹ سوٹ، دستانے، موزے اور ہڈز کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہاں کچھ غوطہ خور اپنی سانسیں سات منٹ تک روک سکتے ہیں، جبکہ دوسرے محظ چند سیکنڈوں تک ہی سانس روکنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
میں نے ماضی میں سکوبا ڈائیونگ کے لیے کافی محنت کی ہے۔ کچھ سال پہلے کسی نے مجھے فری ڈائیونگ کرنے کی سفارش کی۔ اسے سیکھنے کے لیے غیر آرام دہ اور بعض اوقات کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یقینی طور پر، جب میں نے آخر کار ایسا کیا تو مجھے اس کے سیکھنے کا تجربہ آسان، کم بوجھل اور زیادہ آرام دہ معلوم ہوا۔ میں یقینی طور پر اس طرح سیکھنے والوں میں اکیلا نہیں ہوں۔
بہت سے لوگوں کے لیے پانی میں جو خاموشی اور سکون پایا جا سکتا ہے جو اُن کی زندگی میں تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔
جنوبی افریقہ میں کلرڈ لوگ روایتی طور پر سفید فام لوگوں کی طرح سمندر تک رسائی نہیں رکھتے تھے
موگامات شامیر میگموٹ، جن کی فلم ’رائز فرام دی کیپ فلیٹس‘ کو سنہ 2021 میں ’سلویا ارل اوشین کنزرویشن‘ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا، کا کہنا ہے کہ ’میرے دوست جونیڈ پیٹرسن نے مجھے اپنی پہلی فری ڈائیو کے لیے مدعو کیا تھا۔‘
اگرچہ اسے تیراکی کا شوق تھا، لیکن میگموٹ کبھی بھی سمندر میں کمر سے زیادہ گہرے پانی میں نہیں گئے تھے۔ اُنھوں نے اعتراف کیا کہ ’میں ڈر گیا تھا۔‘ وہ تیرتے ہوئے بے چینی سے اپنے دوستوں کو سمندری گھاس میں غائب ہوتے دیکھ رہے تھے ۔
لیکن تھوڑی دیر کے بعد جب وہ دوبارہ ظاہر ہوئے تو وہ انھیں تسلی دیتے رہے، انھیں احساس ہو گیا تھا کہ انھوں نے وہاں کا مزا ضائع کر دیا ہے۔ ’مجھ پر پھر سب کچھ آشکار ہو گیا اور میں وہیں اسی وقت اس جگہ کی خوبصورتی کے عشق میں مبتلا ہو گیا۔‘
سمندری گھاس کے اس علاقے کا سفر کسی بھی دن مختلف ہو سکتا ہے۔ غوطہ خوروں کا سامنا چھوٹی قسم کی شارک سے ہو سکتا ہے، جن کا جراسک پیریڈ کی انواع سے تعلق بنتا نظر آتا ہے۔ انھی میں ایک چھوٹا سا افریقی پینگوئن بھی نظر آتا ہے، یا ریتیلے سمندری فرش پر ایک چھوٹی دم والی مچھلی (سٹنگرے) بھی نظر آتی ہے۔ کئی فوٹوگرافروں نے شیشے جیسی جیلی فش کی تصویریں بناتے ہیں یا بھڑکتے ہوئے ’نیوڈی برانچ‘ یا عریاں خیشومہ پلپلے جسم اور سخت خول والے جانوروں کی بڑی بڑی تصویریں بناتے ہیں۔
بعض اوقات حد نگاہ انتی خراب ہوتی ہے جو کہ برفانی طوفان میں تیراکی کرنے کے مترادف ہوتی ہے۔ دوسرے موسم کے دنوں میں صرف پانی کے ذریعے سورج کی روشنی کو ٹمٹماتے دیکھنا ہمارے لیے ایک توانائی کا ذریعہ ہوتا ہے۔
میگموٹ نے کہا کہ ’اگر آپ تناؤ کا شکار ہیں تو پانی کے اندر ڈوب کر لیٹ جائیں۔ (آپ کو) تیراکی یا کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس وہاں لیٹے رہیں۔ مجھے حقیقت میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میرے کندھوں سے کوئی بوجھ اتر گیا ہو۔‘
اپنی نئی خوشی کے ساتھ ساتھ، میگموٹ ایک اداسی محسوس کرتے ہیں۔ ’میں یہ تجربہ صرف اب کیوں کر رہا ہوں، 33 سال زندگی گزارنی کے بعد سمندر سے صرف 40 منٹ کی دوری پر رہنے کے بعد؟‘
ڈینیالا ڈائینز کے مطابق، لوگ شہری زندگی کے دباؤ سے نمٹنے کے لیے اب فری ڈائیونگ کی جانب راغب ہو رہے ہیں
میگموٹ کا تعلق ہائیڈیولڈ کے کیپ فلیٹس سے ہے۔ نسل پرستی کے دنوں کے دوران، سیاہ فام لوگوں کو کیپ ٹاؤن کے شہری مرکز سے اور کیپ فلیٹس کے خطے سے پرے رکھا گیا تھا۔ بہترین ساحل صرف سفید فام لوگوں کے لیے مخصوص تھے۔
نسل پرستی سنہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں ختم ہوئی تھی لیکن کیپ ٹاؤن میں اب بھی بڑی حد تک نسلی امتیاز باقی ہے، اگرچہ غیر رسمی طور پر ہی سہی، دیگر رنگ کے لوگ غیر محفوظ ہیں اور اکثر غیر محفوظ علاقوں میں رہتے ہیں۔ کیپ فلیٹس کے کچھ حصے گینگز کی وجہ سے انتہائی تشدد کا سامنا کرتے ہیں۔ میگموٹ کو دو مرتبہ گولیاں ماری گئی ہیں۔ لیکن وہ یہ بات نوٹ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’یہاں بھی بہت کچھ اچھی باتیں ہو رہی ہیں لیکن یہ اچھی باتیں ہر ایک کو نظر نہیں آتی ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
جب میگموٹ بڑے ہو رہے تھے تو انھوں نے ان دنوں کبھی سیاہ فام لوگوں کو ان ساحلوں پر ’سنورکلنگ‘ (ایک اِختراع جِس کے تحت آب دوز کافی عرصے تک زیر آب رہ سکتی ہے) یا غوطہ خوری کرتے نہیں دیکھا تھا۔ ’لوگ کہتے ہیں کہ یہ آپ کے لیے نہیں ہے، سمندر ہمارے لیے نہیں ہے۔ میں صرف سوچوں گا، لیکن کیوں؟‘
انھوں نے کہا کہ ہمارے آباؤ اجداد پانی سے دور رہتے تھے۔ سیاہ فام اور گندمی رنگت والے لوگوں کے جنوبی افریقہ کے لوگ مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے تھے اور مختلف پس نظر رکھتے ہیں۔ کیپ ٹاؤن کے بہت سے مسلمان، جیسے میگموٹ کا جنوب مشرقی ایشیائی ورثہ ہے۔
’انڈونیشیا، ملائیشیا کے جس جزیرے سے بھی ہم یہاں آئے تھے، لیکن ہمیں یہاں کے ساحلوں پر آنے کی اجازت نہیں تھی۔اور یہاں غلاموں کے طور پر لایا گیا۔ پھر ہم یہاں (سمندر کے کنارے) پھر سے رہنے لگے۔ لیکن ایک بار پھر ہمیں ساحل سے ہٹا دیا گیا۔ نسل پرستی کے ساتھ ہمیں لفظی طور پر بتایا گیا کہ یہ آپ کے لیے نہیں ہے، یہاں مت آؤ۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ بات ہمارے دماغ میں بیٹھ گئی تھی۔‘
یہاں تک کہ اپنی کمیونٹی کے بچوں کو سمندر کے قریب احتیاط سے لاتے ہیں۔ یہ محتاط انداز دیکھ کر میگموٹ نے نوجوانوں کے گروپوں کو ’سنورکلنگ‘ سے متعارف کرانے میں وقت ضائع کیے بغیر پہلے آزادانہ طور پر، پھر غیر منافع بخش تنظیم ’سی دی بگگر پکچر‘، جسے انھوں نے 2018 میں کرس کراؤس کے ساتھ مل کر قائم کیا تھا، کے ساتھ مل کر یہ تربیتی کام جاری رکھا۔
ان کا پروگرام سمندری اور شہری سائنس سیکھنے کے لیے ہر برس 24 بچوں کی تربیت کی رہنمائی کرتا ہے، جن کی عمریں 13 اور 16 کے درمیان ہوتی ہیں۔
میگموٹ نے حال ہی میں فلم سازی اور ایک سہ ماہی ’اوپن ڈیز‘ جو کہ ان لوگوں کا میگزین ہے جنھوں نے کبھی ’اسنارکل‘ نہیں کیا ہے، پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے اس جگہ سے استعفیٰ دیا ہے۔ تاہم وہ ایک معاون کے طور پر اس جگہ ایک دن کے لیے اب بھی کام کرتا ہے۔
کیپ ٹاؤن میں فری ڈائیونگ گذشتہ ایک دہائی سے ایک مقبول کھیل بنتا جا رہا ہے
جن افراد اور تنظیموں نے میگموٹ کی مالی اعانت کی ان میں کیپ ٹاؤن فری ڈائیونگ (CTF) ہے، جس نے اسے اپنے نوجوانوں کے پروگراموں کے لیے حفاظتی تدابیر سیکھنے کے لیے ایک مفت کورس کی پیشکش کی۔
ایک دہائی قبل جبسی ٹی ایف کا آغاز ہوا تو یہ ملک کا پہلا سرکاری فری ڈائیونگ سینٹر تھا۔ پورے سال میں اُن کے پاس 21 طلبا تھے۔ اب ان کے لیے گرمیوں کے دوران ہفتے میں 20 غوطہ خوروں کو تربیت دینا ایک عام بات ہے۔
اس تنظیم کے شریک بانی ڈینیالا ڈینز کا کہنا ہے کہ سنہ 2014 کے زمانے سے فری ڈائیونگ زیادہ تر جنوبی افریقہ میں ایک مقابلے کا کھیل تھا۔ اس نے اور اس کے شوہر جان نے اس کی مقبولیت کو بڑھانے کے لیے ایڈونچر فری ڈائیونگ کورس تشکیل دیا۔
انھوں نے کہا کہ ’لوگوں کی اکثریت ریکارڈ کی پرواہ نہیں کرتی ہے۔ وہ جو چاہتے ہیں وہ سمندر کو محفوظ طریقے سے تلاش کرنے، سمندری جانوروں کا سامنا کرنے، شہر کے روزمرہ کی زندگی سے منقطع ہونے اور ہم خیال لوگوں سے رابطہ قائم کرنا ہے۔‘
’سنہ 2020 میں میں نے سی ٹی ایف کا دو روزہ ایڈونچر فری ڈائیونگ کورس کیا۔ ہمارا وقت ان کے فالس بے کے مضافاتی علاقے میوزنبرگ میں واقع سٹوڈیو اور سمندر میں تقسیم ہو گیا تھا۔ آخری صبح ہم بحر اوقیانوس میں کیپ کے ساحل کے قریب ’فر سِیل‘ کے ساتھ کھیلنے گئے۔‘
غوطہ خوری کی تکنیکوں اور حفاظتی رہنمائی کے ساتھ ساتھ ہم نے سیکھا کہ سانس روکنے کے دوران ہمارے جسموں کے ساتھ کیا ہوتا ہے، شاید سب سے زیادہ مفید یہ ہے کہ سانس لینے کی ابتدائی خواہش آکسیجن کی کمی سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
اوپر سی ٹی ایف گیئر رینٹل اور ڈائیو سائٹ کی ہدایات فراہم کرتا ہے، اور طالب علموں کو کمیونٹی ٹیلیگرام گروپ میں شامل کرتا ہے جہاں ہر سوال کا جواب مل جاتا ہے۔ آپ ایک غوطہ خور دوست تلاش کر سکتے ہیں یا موسم کی خرابی کی وجہ سے نظر آنے کے بارے میں مرئیت کی رپورٹس طلب کر سکتے ہیں۔
زندیلے ندھلووو نے سیاہ فام لوگوں کے سمندر میں جانے کے خوف کو دور کرنے کے لیے ‘بلیک مارمیڈ’ نامی تنظیم قائم کی
ڈائینز کا کہنا ہے کہ ان کے طلبا کی عمر، جسمانی قسم اور پس منظر میں وسیع تنوع ہے۔ ’اگر آپ سانس لے سکتے ہیں اور تیر سکتے ہیں تو آپ آزاد ہو سکتے ہیں۔‘
ڈائینز نے کہا کہ فری ڈائیونگ میں امتیازی سلوک کی نسبتاً کمی کی وجہ سے بہت ساری خواتین اس کی طرف راغب ہو سکتی ہیں، جو کچھ کیپ ٹاؤن میں بظاہر نظر آتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ زیرِ آب مراقبہ اور یوگا میں کچھ مماثلتیں ہیں خاص کر ان سے ’تحفظ اور آزادی کا احساس‘ پیدا ہوتا ہے۔
ڈائینز نے اکثر فری ڈائیونگ کو تبدیلی کے بنیادی محرک کے طور پر دیکھا ہے، صرف اپنے لیے ہی نہیں۔ سیکھنے کے دو مہینوں کے اندر انھوں نے شادی کی، اپنی ’باعزت، پیشہ ورانہ نوکری‘ چھوڑ دی اور سی ٹی ایف کی مشترکہ بنیاد رکھی۔
انھوں نے کہا کہ ’کچھ لوگوں کے لیے، یہ تبدیلیاں لطیف ہیں، جبکہ دوسروں کے لیے اس سے زندگی ہی بدل گئی۔‘
میگموٹ نے اس مشق کے ذہن پر اثر کے حوالے سے کہا کہ ’میرے خیال میں یہ ایک شفا ہے۔ اسلام میں ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ خدا کی تمام مخلوقات ہر روز اس کی تعریف کرتی ہیں۔ اور اسی وجہ سے جب ہم فطرت میں ہوتے ہیں تو ہم ایسا محسوس کرتے ہیں، چاہے وہ پیدل سفر پر ہو یا سمندر میں۔ یہ ان مخلوقات کے مشاہدے کی وجہ سے ہے، شکر کرتا ہوں اور اُس کی تعریف کرتا ہوں جس نے انھیں بنایا۔ آپ محسوس کرتے ہیں کہ سکون ہمیشہ رہتا ہے۔‘
’مجھے لگتا ہے کہ اسی وجہ سے مجھے جتنا بھی ممکن ہو سکے پانی کے اندر رہنا پسند ہے۔ سب کچھ سمندر میں حرکت کر رہا ہے۔ تو آپ کو کیوں حرکت کرنی چاہیے؟ ایک بار جب آپ رُک جاتے ہیں، تو سب چیزیں آپ کو پرکھنے کے لیے آتی ہیں، یہ ایک اہم سبق ہے۔ ذرا توقف کریں، مشاہدہ کریں۔ ہم تیز رفتار زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن ایک توقف کے ساتھ سیکھنا آتا ہے۔‘
زندیلے ندھلووو کا ذہنی مشق کے ساتھ ویسا ہی تعلق ہے جس کی فری ڈائیونگ کو ضرورت ہوتی ہے۔ اس نے جوہانسبرگ میں پانی کے ایک تالاب میں بطور انسٹرکٹر تربیت حاصل کی۔ اس نے کہا کہ ’یہ تیزی سے اندھیرا ہو جاتا ہے۔ دیکھنے کے لیے کچھ باقی نہیں رہتا ہے۔ تو یہ لمحہ ذہن کو مکمل طور پر آزاد کر دیتا ہے، ذہن دباؤ سے آزاد ہو جاتا ہے۔‘
اس خطے کا عظیم افریقی ساحلی جنگل کیپ ٹاؤن سے شروع ہو کر ایک ہزار کلومیٹر دور نمیبیا تک پھیلا ہوا ہے
زندیلے ندھلووو ساحل سے میلوں دور وسطی جوہانسبرگ کے باہر سوویٹو میں پلی بڑھی ہیں۔ سنہ 2016 میں طلاق کے بعد انھوں نے اپنی کارپوریٹ نوکری چھوڑ دی اور بالی چلی گئیں جہاں انھوں نے جنوبی افریقہ میں فری ڈائیونگ شروع کرنے سے پہلے ’اسنارکل‘ اور پھر ’سکوبا ڈائیونگ‘ سیکھی۔ یہ سارا کام مشکلات کے بغیر نہیں تھا، 23 میٹر سے زیادہ ڈائیو لگانے کے لیے انھیں اپنے خوف پر قابو پانا سیکھنا پڑا۔ وہ کہتی ہے کہ فری ڈائیونگ کے ساتھ ’ہمیں اپنے اندر تبدیلی کا ایک سفر بھی طے کرنا ہوتا ہے۔‘
میگموٹ کی طرح ندھلووو رنگ و نسل سے بالا پانی تک مساوی رسائی کے بارے میں پُرجوش ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں ہمیشہ سے ہی کشتی پر واحد سیاہ فام مہمان رہی ہوں۔ ’میں اسے ہمشیہ کے لیے تبدیل کرنا چاہتی تھی۔‘
مزید پڑھیے
انھوں نے ’بلیک مرمیڈ فاؤنڈیشن‘ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کے ذریعے وہ کیپ فلیٹس پر لانگا قبیلے کے بچوں کے لیے فالس بے (خلیج فالس) میں سنورکلنگ کے سفر کی رہنمائی کرتی ہے۔
وہ ہنس کر کہتی ہیں کہ ’ہم ہمیشہ دہشت سے انتہائی خوشی کی طرف جاتے ہیں۔ اس کا مقصد سمندر سے تعلق نہ رکھنے کے احساس کو ختم کرنا ہے۔‘ لیکن وہ تسلیم کرتی ہے کہ بہت سے لوگوں کے لیے اب بھی رکاوٹیں موجود ہیں، جیسے فرصت کے وقت کی کمی اور نقل و حمل تک رسائی۔
ندھلووو، میگموٹ اور ڈائینز، سبھی سوشل میڈیا کو تفریحی فری ڈائیونگ کی مقبولیت میں تیزی سے اضافے کا سہرا دیتے ہیں۔ ندھلوو اور میگموٹ سب سے پہلے فری ڈائیونگ سے متعارف ہوئے تھے۔ اب تینوں دوسروں کو اپنے لیے پانی کے اندر کی دنیا کی خوبصورتی کا تجربہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
میگموٹ نے کہا کہ ’بہت سے لوگ مجھ سے اس کی وضاحت کرنے کو کہتے ہیں، لیکن میں نہیں کر سکتا۔‘ اس کے بجائے وہ ایک دعوت دیتا ہے کہ ’میرے ساتھ چلو، میں تمہیں اس کا تجربہ کرواتا ہوں۔‘
Comments are closed.