معمر قذافی 1942 میں سِرت کے نزدیک ایک صحرائی علاقے میں پیدا ہوئے اور اوائل جوانی میں عرب قوم پرستی کے پیروکار اور مصری رہنما جمال عبدالناصر کے شیدائی تھے۔وہ ہمیشہ سے غربت میں گزری اپنی ابتدائی قبائلی زندگی کے بارے میں بات کرتے اور بعد میں اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے رہے۔ ان کی جانب سے بین الاقوامی دوروں کے دوران بھی اپنے مخصوص خیمے میں رہائش رکھی جاتی اور یہی وجہ تھی کہ انھوں نے کرنل سے آگے فوج میں کوئی عہدہ اپنے پاس رکھنا مناسب نہیں سمجھا۔سنہ 1956 کے نہر سوئز بحران کے دوران مغرب اور اسرائیل کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بھی وہ پیش پیش رہے تھے۔سنہ 1956 سے 1961 کے دوران وہ فیضان شہر میں جامعہ سبھا میں تعلیم حاصل کرتے رہے اور یہیں ان کی دوستیاں ایسے نوجوانوں سے ہوئیں جو آگے چل کر ان کے ساتھ ایک فوجی بغاوت کرنے والے تھے۔سنہ 1961 میں ان کی سیاسی وابستگیوں اور نظریات کے باعث انھیں جامعہ سبھا سے نکال دیا گیا تھا۔معمر قذافی نے اس دوران یونیورسٹی آف لیبیا سے لا کی ڈگری حاصل کی۔ یہاں ان کے پاس لیبیا کی فوج میں بھرتی ہونے کا موقع تھا جس کے ذریعے اس وقت کے لیبیا میں نہ صرف بہتر تعلیم حاصل کی جا سکتی تھی بلکہ کسی بھی فرد کے لیے ایک پرکشش معاشی موقعے کے طور پر بھی دیکھا جاتا تھا۔یہ لیبیا میں وہ وقت تھا جب ملک میں غربت تھی اور بیروزگاری عروج پر تھی۔ ملک میں موجود بادشاہت مغرب نواز سمجھی جاتی تھا اور حالانکہ ملک میں تیل کے نئے اور وسیع ذخائر ملے تھے لیکن اس کے باوجود عام عوام کی حالتِ زار میں کچھ زیادہ فرق نہیں آیا تھا۔سنہ 1963 میں معمر قذافی بن غازی میں فوجی اکیڈمی میں بھرتی ہوئے اور یہیں ان کے کچھ دوستوں نے ’فری آفیسرز موومنٹ‘ کے نام سے تنظیم بنائی تھی جس کا بنیادی مقصد ملک میں بغاوت کے ذریعے مغرب نواز بادشاہت کو ہٹانا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesقذافی کو سنہ 1965 میں برطانوی سٹاف کالج میں بھیجا گیا تھا جب قذافی اس کورس سے واپس آئے تو ایک طرف لیبیا میں عوام میں بادشاہت کے خلاف غم و غصے میں اضافہ ہو رہا تھا اور دوسری جانب اسرائیل سے 1967 کی عرب جنگ میں لیبیا سمیت عرب ممالک کی شکست کے بعد بھی عوام میں بے صبری تھی۔سنہ 1959 میں یہاں ملنے والے تیل کے ذخائر کے بعد حکومت کی جانب سے تیل نکالنے والی مغربی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے گئے تھے جنھیں بادشاہت اور حکومت کے لیے تو فائدہ مند جبکہ عام عوام کے لیے غیر منافع بخش سمجھا جاتا تھا۔یہاں 70 فوجی افسران کے ایک گروپ جس کی سربراہی معمر قذافی کر رہے تھے نے بادشاہت کے خاتمے کا منصوبہ بنایا اور یکم ستمبر 1969 کی صبح لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں فوجی ٹینکوں کے ہمراہ داخل ہوئے اور سرکاری عمارتوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔اس وقت بادشاہ ادریس علاج کے غرض سے ترکی میں تھے اور انھوں نے بغاوت کی ان خبروں کو اس وقت ’غیر اہم‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔فوجی افسران کی جانب سے بیرونی دنیا کے ساتھ تمام مواصلات ختم کر دی گئی تھی اور ملک میں کرفیو نافذ کر کے اسے لبیئن عرب جماہیریہ کا نام دیا گیا۔بادشاہ کے جان نشین ولی عہد حسن نے ریولوشنری کمانڈ کونسل کی حمایت کا اعلان کیا۔ ریولوشنری کمانڈ کونسل کی جانب سے اس بارے میں ایک بیان جاری کیا گیا جس میں اس انقلاب کا مقصد ’اتحاد، آزادی اور سوشلزم‘ کو قرار دیا گیا۔ساتھ ہی یہ انتباہ بھی دیا کہ انقلابیوں کو ہٹانے کی کسی بھی قسم کی کوشش کو ’فیصلہ کن انداز میں میں کچل دیا جائے گا۔‘کرنل قذافی ستر کی دہائی میں عرب قوم پرستی کے علمبردار رہے اور انھوں نے لیبیا کو اس وقت کے مصری، شامی اور اردنی رہنماؤں کے ساتھ کئی معاہدوں میں بھی منسلک کیا۔ ساتھ ساتھ انھوں نے براعظم افریقہ میں بھی اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کی کوشش کی۔تاہم اپنے اقتدار میں ہی کرنل قذافی کی جانب سے تیل کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کرنے کا مطالبہ ان کے اقتدار کو تقویت پہنچانے کا باعث بنا۔ انھوں نے ایسا کرنے سے انکار پر کمپنیاں بند کرنے کی دھمکی دی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاس دوران انھوں نے بین الاقوامی تیل کمپنیوں کے ایگزیکٹوز کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جو لوگ پانچ ہزار سال تک بغیر تیل کے زندہ رہے، وہ اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کی کوشش میں مزید کچھ سال اور بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔‘ان کی جانب سے کیا گیا یہ چیلنج کام کر گیا اور لیبیا ترقی پذیر ممالک میں وہ پہلا ملک بنا جس نے اپنی تیل کی پیداوار کا بڑا شیئر حاصل کر لیا۔ دوسرے عرب ممالک نے جلد اس نظیر کو جواز بناتے ہوئے سنہ 1970 کی دہائی میں عرب پیٹرو بوم یعنی عرب ممالک میں تیل کے انقلاب کی بنیاد رکھی۔ یوں لیبیا ’کالے سونے‘ سے منافع حاصل کرنے کے لیے بہترین پوزیشن میں تھا کیونکہ یہاں تیل کی پیداوار باقی خلیجی ممالک جتنی تھیں لیکن افریقہ میں اس ملک کی کُل آباد صرف 30 لاکھ تھی، جو افریقہ میں بہت کم تھی۔ یوں تیل نے لیبیا کو بہت جلدی بہت امیر بنا دیا۔لیکن سنہ نوے کی دہائی میں عرب دنیا کو اپنی قیادت میں متحد کرنے کی کوشش میں ناکام رہنے کے بعد قذافی نے اپنی ساری توجہ براعظم افریقہ پر مرکوز کردی اور افریقی ملکوں کے لیے ایک ریاست ہائے متحدہ کا خیال بھی پیش کیا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے افریقی ملکوں کی ثقافت سے ملتے جلتے لباس بھی پہننا شروع کیے۔کرنل معمر قذافی دنیا بھر میں مختلف عسکریت اور شدت پسند تنظیموں کے بھی پشت پناہ اور مددگار رہے ہیں جن میں تنظیم آزادئ فلسطین یا پی ایل او، آئرش ریپبلکن آرمی اور افریقہ کے کئی شدت پسند گروپ شامل ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesمنفرد طریقے اپنانے کے لیے مشہور کرنل قذافی اکثر ٹیلی ویژن پر خیموں میں مقیم دکھائی دیتے جہاں وہ غیرملکی رہنماؤں کا استقبال بھی کرتے جبکہ کہا جاتا ہے کہ ان کے ذاتی محافظوں میں خواتین کی اکثریت تھی۔لیبیا میں ان کے پورے دور اقتدار میں خفیہ اداروں کی بنیاد پر استوار ایک نہایت سخت گیر نظام رہا۔ اسی نظام کے اندر انھوں نے پہلے سوشلزم، سرمایہ داری اور اسلام کے کچھ پہلوؤں کو ملا کر اپنی سبز کتاب پر مبنی سیاسی نظریات پیش کیے۔پھر 1977 میں جماہریہ کے نام سے ایک ایسا نظام بنایا جس میں بظاہر اختیارات عوام پر مشتمل ہزاروں پیپلز کمیٹیوں کے ہاتھ میں تھے لیکن عملاً ماہرین کے مطابق کرنل قذافی ہی تمام اختیارات کا سرچشمہ تھے۔اپنے پورے دور اقتدار میں انھوں نے اپنے خلاف کسی بھی طرح کے مخالفت کو انتہائی بےدردی سے کچل کر رکھا۔ شائد یہی وجہ تھی کہ ان کے خلاف احتجاج کے دوران بھی کوئی متبادل قیادت سامنے دکھائی نہ دی۔اور پھر سنہ 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والے عرب عوامی بیداری کا سیلاب کرنل معمر قذافی کو بھی بہا لے گیا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.