’وہ صرف میرے شوہر کی ساتھی نہیں، میں بھی اس سے ڈیٹ کر رہی ہوں‘

ایک سے ذیادہ رومانوی تعلقات

،تصویر کا ذریعہNHLANHLA MOSHOMO

  • مصنف, پھو لکاجے
  • عہدہ, بی بی سی افریقہ

جنوبی افریقہ میں نوجوانوں میں پولیموری کا ایک نیا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے جس میں ایک ہی وقت میں متعدد پارٹنرز کے درمیان رومانوی تعلقات قائم ہوتے ہیں اور تمام ساتھی اس تعلق داری سے واقف ہوتے ہیں۔

ایسے ہی تعلق میں جنوبی افریقہ کی لوتھیبو موجالیفا بھی ہیں۔ اپنے چھوٹے بالوں کے ساتھ عموما سفید پتلون اور ٹاپ میں ملبوس لوتھیبو انتہائی شاندار اور پرکشش شخصیت کی مالک ہیں۔

لوتھیبو بائی سیکشوئل (مرد و عورت دونوں کے ساتھ جنسی تعلقات) رجحان رکھنے والی نوجوان خاتون ہیں جنھوں نے دسمبر 2018 میں فلیچر موجلیفا نامی شہری سے ڈیٹنگ شروع کی۔

فلیچر بھی پراعتماد اور کرشماتی شخصیت کے خوش مزاج آدمی ہیں جو اکثر رنگین پھولوں والی قمیض اور ہیٹ پہننا پسند کرتے ہیں۔

یہ نوجوان جوڑا اپنے دو سالہ بیٹے کے ساتھ جنوبی افریقہ کے صوبے لیمپوپو کی ایک نیم دیہی بستی میں رہتا ہے۔

جب وہ پہلی بار اکٹھے ہوئے اس وقت فلیچر کو اندازہ نہیں تھا کہ لیتھابو بائی سیکشوئل ہیں۔

لیتھابو کہتی ہیں کہ چند ماہ میں ہی ان کو اپنے پارٹنر فلیچر پر مکمل بھروسہ ہو گیا اور انھوں نے اپنی شخصیت سے ان کو آگاہ کر دیا جس پر فلیچر کو کوئی اعتراض نہ ہوا۔

’مجھے احساس ہوا کہ میں اس کواپنے بارے میں سب کچھ کھل کر بتا سکتی ہوں لہذا میں نے دو ماہ کے بعد ہی فلیچر کو اپنے بارے میں سب بتا دیا۔‘

دوسری جانب فلیچر اپنی پارٹنر کی جانب سے اعتماد ظاہر کرنے پر بہت خوش ہوئے۔

’مجھے خوشی محسوس ہوئی کہ وہ میرے سامنے کھل گئی اور اس نے مجھے اپنی شخصیت کے حوالے سے کھل کر بتایا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو ہمارا آپس کا تعلق زیادہ عرصہ قائم نہ رہتا اور ہم دوسرے خفیہ تعلقات بنا لیتے۔‘

اس جوڑے کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ اگر انھیں اپنا رشتہ جاری رکھنا ہے تو ان دونوں کو ایک دوسرے کی جنسی اور جذباتی ضروریات کو پورا کرنا ہو گا کیونکہ لیتھابو بائے سیکشوئل تھیں اور فلیچر ایک عام جنسی رجحانات رکھنے والے مرد تھے۔

لہذا انھیں ایک اچھوتا خیال سوجھا کہ وہ اپنے تعلقات میں ایک تیسرے شخص کو بھی شامل کریں تاکہ ان کا رشتہ برقرار رہ سکے۔ دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ وہ اس تیسرے پارٹنر کو ڈھونڈنے کے لیے بھرپور کوششیں جاری رکھیں گے۔

جنوبی افریقہ

،تصویر کا ذریعہNHLANHLA MOSHOMO

پچھلے سال اگست میں ان کی ملاقات ایک اور بائی سیکشوئل خاتون لونیا ماکو سے ہوئی جو برگرسفورٹ کے چھوٹے سے قصبے کے ایک نائٹ کلب میں شو کرتی تھیں۔ ان کی عمر 20 سال سے کچھ زیادہ تھی۔

لیتھابو بتاتی ہیں کہ اس کے بعد ان تینوں نے ساتھ رہنا شروع کر دیا۔

’ہم ساتھ رہنے لگے۔ فلیچر اسے شروع سے ہی پسند کرتا تھا۔ اس نے اسے اس وقت پسند کیا جب اسے احساس ہوا کہ وہ بہت اچھی ہے۔ میں جانتی ہوں کہ وہ ایسی خواتین کو پسند کرتا ہے۔ لونیا اور مجھ میں تو ویسے بھی کئی چیزیں مشترک تھیں اور رومانوی و جنسی تعلقات میں مماثلت نے ہی ہمیں ایک دوسرے کی جانب راغب کیا تھا۔‘

اور لونیا کے احساسات بھی مختلف نہ تھے۔ لونیا کہتی ہیں ’لیتھابو نے مجھ سے رابطہ کیا اورمیں نے اس سے ڈیٹنگ شروع کی۔ اس کے بعد اس نے مجھے فلیچر سے ملوایا۔ اور یوں ہم سب بعد میں ایک رشتہ میں آگئے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں لیتھابو کے لیے جذبات رکھتی تھی۔ اور پھر پہلی بار ایک تقریب میں مجھے محسوس ہوا کہ میرے دل میں فلیچر کے لیے بھی محبت ہے۔ اور ساتھ ہی میں نے خود اسے چوم لیا۔‘

’کچھ ہی دیر میں ہم تینوں ایک دوسرے سے اپنے رومانوی جذبات کا اظہار کرنے لگے۔ ہم تینوں نے ایک ہی بستر بھی شیئر کیا۔‘

لیکن جنوبی افریقہ کے صوبے لمپوپو کی دیہی علاقوں میں ایسے کثیر الجہتی تعلقات کو سمجھنا مقامی لوگوں کے لیے ہمیشہ مشکل ثابت ہوتا ہے۔

لیتھابو نے اعتراف کیا کہ اکثر لوگ اس تعلق کو وہاں سمجھنے میں غلطی کر جاتے ہیں اور اسے پولی گیمی (کثیر ازدواج) سے جوڑ دیتے ہیں جس کا رواج جنوبی افریقہ کی کچھ کمیونٹیز میں عام ہے۔

’وہ صرف میرے شوہر کی ساتھی نہیں، میں بھی اس سے ڈیٹ کر رہی ہوں‘

لیتھمبو لوگوں کی تنقید سے بے نیاز دکھائی دیتی ہیں۔ ’کئی دوست مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں اپنے پارٹنر کو دوسرے ساتھی کے ساتھ کیسے ہینڈل کرتی ہوں جس پر میں انھیں سمجھاتی ہوں کہ یہ صرف فلیچر کی ساتھی نہیں ہے، میں بھی اس سے ڈیٹنگ کر رہی ہوں۔‘

’ایک بار جب لوگوں کو احساس ہو جاتا ہے کہ وہ میری ساتھی بھی ہے، تو وہ مجھ پر الزام لگانا شروع کر دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ ہرگزعام بات نہیں ہے۔‘

دوسری جانب فلیچر کا کہنا ہے کہ یہ ردعمل قدامت پسند برادری سے سامنے آتا ہے جہاں لوگ ہومو فوبیا سے متاثر ہوتے ہیں۔

’مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں جو کچھ کر رہا ہوں اس کے بارے میں آگاہ ہوں اور میں ان فیصلوں سے واقف ہوں جو میں لے رہا ہوں۔‘

’انھیں اس تعلق پر یقین نہیں ہے کہ ایک عورت بھی دوسری عورت کی طرف راغب ہو گی۔‘

پولیموری میں جنسی ساتھی کے ساتھ جذباتی رشتہ نہیں بنایا جاتا

رومانوی تعلق میں ملوث ان تینوں کو اکثر یہ بتانا پڑتا ہے کہ ان کا رشتہ کیسے کام کرتا ہے۔

لیتھابو بتاتی ہیں ’میں ان سے کہتی ہوں کہ اس تعلق میں صرف مرد ہی وہ نہیں جو جس کے ساتھ چاہے جنسی تعلق قائم کرے۔‘

فلیچر نے ان کی حمایت کرتے ہوئے کہا ’لڑکیاں مرد کے بغیر بھی ایک دوسرے کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کر سکتی ہیں۔‘

جنوبی افریقہ

،تصویر کا ذریعہNHLANHLA MOSHOMO

طبی ماہر نفسیات ڈاکٹر ایان اوپرمین کا کہنا ہے کہ کثیر الجہتی تعلقات کی بنیاد آپس کی رضامندی سے مشروط ہے۔

’مختلف جنسی رجحانات کے لوگ کمیونٹی کا حصہ ہیں اور اپنے شراکت داروں کے معاہدے کے ساتھ تعلقات کا ایک نیٹ ورک بناتے ہیں۔ بہت سی چیزیں پولیموری کو دوسری قسم کے غیر یکجہتی تعلقات سے منفرد کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایسے لوگ جو اپنے اہم رشتے سے باہر جنسی تعلق کرنے پر راضی ہیں لیکن اس جنسی ساتھی کے ساتھ کسی قسم کا جذباتی رشتہ نہیں بناتے ہیں۔‘

تعلقات کے ماہرین اس حوالے سے کہتے ہیں کہ وہ اب پولیموری میں زیادہ لوگوں کو شامل ہوتا دیکھ رہے ہیں اور جنوبی افریقہ میں یہ توقع سے زیادہ عام ہوتا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پولیموری رجحان والے اکثر جوڑے آن لائن ڈیٹنگ میں بنتے ہیں

اگرچہ بعض حلقوں میں کثیر الجہتی تعلقات رکھنے والوں اچھا نہیں سمجھا جاتا تاہم جوہانسبرگ، کیپ ٹاؤن اور ڈربن کے اہم شہروں میں اسی طرح کے نقطہ نظر کے ساتھ میل جول کے لیے تقریبات منعقد کرنے والے متعدد افراد ہیں۔

مباشرت اور تعلقات کی کوچ ٹریسی جیکبز کا کہنا ہے ’اگرچہ یہ تعلق نوجوان نسل میں زیادہ مقبول ہوتا ہے تاہم بڑی عمر کے گروہوں میں ایسے دوسرے افراد بھی ہیں جو پولیموری کرتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ’پولیمورس کے طور پر شناخت رکھنے والے افراد کی کوئی واضح عمر نہیں ہے۔‘

تعلقات کی ماہر الزبتھ ریٹیف کہتی ہیں کہ ’پولیمورس تعلقات بھی زیادہ پرکشش ہوتے ہیں کیونکہ وہ زیادہ لچکدار ہوتے ہیں اور پولی گیمی کے روایتی کرداروں سے مختلف ہیں۔‘

’اگر آپ اپنے ساتھی اور اپنے دوسرے پارٹنر اور ایک بچے کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے ہیں، تو ضروری نہیں کہ آپ کے صنفی کردار خود بخود ادا ہونے لگیں جیسا کہ یہ یک زوجگی یا کثیر الازدواجی سیٹ اپ میں ہوتا ہے۔‘

’اخلاقی پولیموری مساوات پر مبنی ہے، جب کہ کثیر ازدواج کے تعلق میں ایک شخص دوسرے سے زیادہ حقوق رکھتا ہے۔‘

پولیموری کے بارے میں سب سے عام سوال یہ ہے کہ اگر لونیا، لیتھابو اور فلیچر کی مثال کو سامنے رکھا جائے تو یہ بچوں پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے۔

فلیچر کے ساتھ اپنے بیٹے کے بارے میں لیتھابو کہتی ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ وہ یہ جانتے ہوئے بڑا ہو گا کہ اس کی دو مائیں ہیں۔ میں نے کثیر ازدواجی خاندانوں کو دیکھا ہے جہاں شوہر کی کئی بیویاں ہیں اور وہ ایک صحن اور ایک گھر میں پرورش پاتے ہیں۔ لہٰذا مجھے لگتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو گا۔‘

لونیا ان سے اتفاق کرتی ہے اور کہتی ہیں کہ وہ بچے کی پرورش میں شامل ہے، حالانکہ وہ اس کی حیاتیاتی ماں نہیں۔

’لیتھابو عام طور پر مصروف ہوتی ہے لہذا جب وہ نہیں ہوتی تو میں اس کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ایک دن میرے بھی بچے ہوں گے لیکن فی الحال میرے کام کی نوعیت کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے تاہم اگر ہمارے ہاں بچہ ہونے والا ہو تو ہم سب راضی ہوں گے۔‘

جنوبی افریقہ

،تصویر کا ذریعہNHLANHLA MOSHOMO

’ایسے تعلقات میں بچوں کو الجھن کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘

تاہم ڈاکٹر اوپرمین کہتے ہیں کہ ان تعلقات میں بچوں سے متعلق معاملے کو احتیاط سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

’ایسے تعلقات میں بچوں کو الجھن کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب والدین اپنے تعلقات کی نوعیت کے بارے میں ایماندار نہ ہوں۔ اگر بچوں کو اس حقیقت سے آگاہ نہیں کیا جاتا کہ محبت کا اظہار بہت سے طریقوں سے کیا جا سکتا ہے، تو وہ الجھن کا شکار ہو سکتے ہیں۔‘

اس وقت فلیچر کیونکہ اس تعلق میں واحد مرد ہیں اور اس لیے اپنی دو گرل فرینڈز کا احترام کرتے ہیں۔

’جب دو خواتین آپس میں گھل مل جاتی ہیں تو یہ حقیقت میں قیمتی احساس ہوتا ہے اس لیے بہت میں خوش قسمت ہوں۔ میں واقعتاً اس تعلق کی تعریف کرتا ہوں۔‘

لیکن کیا اگر ان کے بچے کی ماں لیتھابو کسی دوسرے آدمی کو رشتہ میں لے آئیں تو کیا حالات بدل جائیں گے؟

اس پر فلیچر نے کہا کہ ’میں اس رشتے کا حصہ نہیں بنوں گا کیونکہ میں ایک ہم جنس نہیں ہوں۔ لیکن اگر وہ کسی مرد کے ساتھ کوئی اور رشتہ بنانا چاہتی ہیں تو یہ ان کے لیے ٹھیک ہو گا اور مجھے اعتراض نہیں ہو گا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ