وہ شعبدہ باز جنھوں نے نظربندی کے ذریعے دوسری عالمی جنگ میں نازیوں کو شکست دینے میں مدد کی،تصویر کا ذریعہCOURTESY IMPERIAL WAR MUSEUM
،تصویر کا کیپشنجیسپر نے جرمن فوج کو چکمہ دینے کے لیے 2,000 جعلی ٹینک بنائے تھے

  • مصنف, لوسی ڈیوس
  • عہدہ, بی بی سی کلچر
  • 50 منٹ قبل

1930 کی دہائی میں جیسپر مسکیلین برطانیہ کے مشہور ترین شعبدہ بازوں میں سے ایک تھے۔ کچھ لوگ انھیں برطانیہ کی تاریخ کا بہترین شعبدہ باز بھی قرار دیتے تھے۔سنہ 1937 کی ایک فلم میں انھیں درجن بھر تیز دھار بلیڈ نگلتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔’شعبدہ بازی اُن کے خون میں شامل تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جیسپر کے دادا ہوا میں اڑنے کا کرتب دکھانے کے ماہر تھے۔ وہ اپنے فن کا استعمال کرتے ہوئے نام نہاد روحانی شخصیات (وہ افراد جو شعبدے دکھا کر سادہ لوح عوام کو بیوقوف بناتے ہیں) کو بے نقاب کرنے کے لیے مشہور تھے۔لیکن جیسپر نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا کرتب کسی سٹیج پر نہیں بلکہ دوسری عالمی جنگ کے دوران قاہرہ کے قریب ایک صحرا میں دکھایا جہاں وہ اپنی ٹیم کی مدد سے نازیوں کو چکمہ دینے میں کامیاب ہوئے۔

جب دوسری عالمی جنگ کا اعلان ہوا تو جیسپر 37 سال کے تھے۔ جنگ کے دوران انھوں نے برطانیہ کی رائل انجینیئرنگ کور کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں۔جیسپر اپنی سوانح حیات ’جادو: سب سے بڑا راز‘ (Magic: Top Secret) میں دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران ایک ٹیم کی قیادت کی جس نے نازی کمانڈروں کو چکمہ دینے کے لیے کئی آلات بنائے اور چالیں ترتیب دیں۔ان کا دعویٰ تھا کہ شعبدہ بازی کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف دشمن کی نظر سے بچا جا سکتا ہے بلکہ اسے دھوکہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے انھوں نے گتے کے ماڈل اور آئینوں کی مدد سے لندن کے تھیمز دریا میں لوگوں کو ایک جرمن بحری جہاز دکھا دیا۔اس کرتب کے کچھ ہی عرصے بعد جیسپر سے فوج نے رجوع کیا اور انھیں ایم آئی نائن (MI 9) کے ایک انٹیلیجینس سیکشن ’فورس اے‘ میں شمولیت کی دعوت دی جس کا کام ہی دشمن کو چکمہ دینا تھا۔،تصویر کا ذریعہCORTES A MUSEO IMPERIAL DE LA GUERRA

،تصویر کا کیپشنجب دوسری عالمی جنگ کا اعلان ہوا تو جیسپر 37 سال کے تھے
کلارک اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ انٹیلیجینس سیکشن ’فورس اے‘ کا مقصد ہی ’[دشمن کو] تباہ کرنے کے بجائے [اپنی تنصیبات کو] محفوظ رکھنا تھا۔‘جیسپر کے مطابق، فوج نے انھیں اس تجرباتی ٹیم کی کمان سونپی جسے کئی لوگ ’دی میجک گینگ‘ یا ’دی کریزی گینگ‘ کے نام سے پکارتے تھے۔اس گروپ میں مبینہ طور پر جیسپر کے علاوہ الیکٹریشن، کیمسٹ، سیٹ ڈیزائنر، ماہر تعمیرات، پینٹر اور دیگر مہارتیں رکھنے والے افراد شامل تھے۔جیسپر دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپنے گروپ کے ساتھ مل کر سکندریہ (مصر) کو جرمن بمبار طیاروں سے چھپانے میں کامیاب رہے۔ لیکن انھوں نے یہ کیا کیسے؟ جیسپر کے مطابق انھوں نے شہر سے تقریباً 5 کلومیٹر دور ایک خلیج میں جعلی عمارتیں، لائٹ ہاؤس اور طیارہ شکن توپیں لگائیں اور جب جرمن ہوائی جہاز وہاں حملے کرنے پہنچے تو انھوں نے کچھ جعلی عمارتوں کو نشانہ بنایا، اِن پائلٹوں کو یقین تھا کہ انھوں نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے یعنی دشمن کو نقصان پہنچا دیا ہے۔مائیکل کربی کہتے ہیں کہ اس طرح کی دھوکہ دہی کوئی نئی چیز نہیں اور پرانے زمانے سے ہی فریقین جنگوں کے دوران اس طرح کے حربے استعمال کرتے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کی سول جنگ کے زمانے کے کچھ ایسی تصاویر ملی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ لکڑی کے تنوں کو ہتھیاروں کے طور پر دکھا کر دشمن کو دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی تھی۔تاہم، دوسری عالمی جنگ سے پہلے دشمن کو چکمہ دینے کے لیے شعبدہ بازی کو اتنے بڑے پیمانے پر کبھی استعمال نہیں کیا گیا تھا۔

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشنجیسپر اور ان کی ٹیم جرمن فیلڈ مارشل رومیل کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہی کہ اتحادی جنوب سے حملہ کریں گے جبکہ درحقیقت حملہ شمال سے ہونا تھا
سنہ 1942 میں لڑی جانے والی ’العالمین‘ کی دوسری لڑائی کے دوران جیسپر اور ان کے ساتھیوں نے دشمن کو چکمہ دینے کے لیے ’آپریشن برٹرم‘ کے نام سے منصوبہ بنایا جس کے لیے انھوں نے دھویں اور آئینے کا استعال کیا۔ ان کی یہ حکمت عملی آج بھی فوجی حکمت عملی کے طور پر کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے۔جیسپر کی کتاب کے مطابق، اس آپریشن کی سب سے بڑی کامیابی جرمن فیلڈ مارشل ایرون رومل کو یہ یقین دلانا تھا کہ اتحادی افواج جنوب سے حملہ کرے گی جبکہ درحقیقت برطانوی مارشل برنارڈ منٹگمری کی فورسز نے شمال سے حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔شمال سے فوج کی پیش قدمی کو چھپانے کے لیے جیسپر نے کینوس اور پلائی وڈ کا استعمال کرتے ہوئے 1,000 ٹینکوں کو ٹرکوں کا روپ دیا جب کہ جنوب میں انھوں نے 2,000 جعلی ٹینک، ایک ریلوے لائن، پانی کا پائپ، ریڈیو پر غلط معلومات اور تعمیرات کا جھانسہ دیا۔ ان کے بنائے گئے نقلی ٹینک اس حد تک اصلی دکھتے تھے کہ وہ وقت آنے پر ہوا میں آتشبازی بھی چھوڑنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔جیسپر اپنی کتاب میں دعویٰ کرتے ہیں کہ برطانوی مارشل مونٹگمری نے ان سے کہا تھا کہ ’اب پوری جنگ کا دارومدار اس بات پر ہے کہ یہاں کیا ہوتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ اپنی جادو کی چھڑی اپنے ساتھ لائے ہوں گے۔‘مائیکل کربی کا کہنا ہے کہ جیسپر کی اس حکمتِ عملی کی بدولت اتحادی افواج نازیوں کو سرپرائز دینے میں کامیاب رہیں۔العالمین کی لڑائی کے ساتھ ہی اتحادیوں نے شمالی افریقہ میں جنگ کا رُخ مکمل طور پر بدلنے میں کامیاب ہو گئے۔،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشنجیسپر مسکیلین کو برطانیہ بہترین شعبدہ باز کہا جاتا تھا
اُس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل کا کہنا تھا کہ دوسری عالمی جنگ میں ’عالمین سے پہلے ہمیں کبھی فتح حاصل نہیں ہوئی۔ اس کے بعد، ہمیں کبھی شکست نہیں ہوئی۔‘کہا جاتا ہے کہ اس کامیاب مہم کے بعد فوج سے ’جادو گینگ‘ کو ختم کر دیا ہے۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ 1943 میں دشمنوں کو چکمہ دینے کے لیے ہرٹ فورڈ شائر میں ہوائی جہازوں کی فیکٹری میں کیے جانے والے جعلی دھماکے میں بھی ان کا ہاتھ تھا۔جرمن جاسوسوں کو یقین دلانے کے لیے کہ فیکٹری کے اندر ایک بم پھٹا ہے، انھوں نے لکڑی کے ٹرانسفارمرز، جعلی بم کے گڑھے اور ملبہ دکھایا۔برطانوی ڈبل ایجنٹ ایڈی چیپ مین کو بھی جرمنوں کو بھی غلط معلومات فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔جیسپر کو اس بات سے کافی تکلیف ہوئی تھی کہ جنگ کے دوران ان کی خدمات کے لیے انھیں کبھی سراہا نہیں گیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اپنے کارناموں کے بارے میں کتاب شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور شاید اس میں انھوں اپنے کارناموں کو تھوڑا بہت بڑھا چڑھا کر لکھا ہو گا۔ان کا دعویٰ تھا کہ ان کا نام ایڈولف ہٹلر کی ذاتی مطلوب ترین افراد فہرست میں شامل تھا۔،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGESجیسپر کے کارناموں کی گونج لندن کے امپیریئل وار میوزیم میں لگی ’جاسوس، جھوٹ اور فریب‘ نامی نمائش میں بھی سنائی دیتی ہے۔ اس نمائش میں پہلی عالمی جنگ سے اب تک ہونے والے تنازعات میں دھوکے اور فریب کے لیے استعمال ہونے 150 سے زائد اشیا نمائش پر رکھی گئی ہیں۔ان اشیا میں مختلف آلات، سرکاری دستاویزات، فلمیں اور تصاویر شامل ہیں۔مائیکل کربی اس نمائش کے شریک کیوریٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ، ’ہمارا مقصد یہ دکھانا ہے کہ جنگیں ہمیشہ میدانِ جنگ یا کمانڈ روم میں نہیں لڑی جاتیں، بہت سی چیزیں نظروں سے دور بھی ہوتی ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشنجیسپر کی زندگی پر بننے والی فلم میں مرکزی کردار بینیڈکٹ کمبر بیچ ادا کریں گے
جیسپر کی زندگی پر ایک فلم بنائی جا رہی ہے جس میں مرکزی کردار بینیڈکٹ کمبر بیچ ادا کریں گے۔ یہ فلم اب پروڈکشن کے لیے تیار ہے۔کربی اعتراف کرتے ہیں کہ اکثروبیشتر سرکاری بیانات اور لوگوں کے قصے میل نہیں کھاتے ہیں۔تاہم ان کا کہنا ہے کہ جنگ کے دوران وہاں کیا کچھ ہوا اس بارے میں کچھ بھی یقین سے کہنا ممکن نہیں۔ ’اور شاید ہم کبھی ہی نہ سکیں کہ ان کی باتوں میں کتنی سچائی ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}