وہ شخص جو عراق جنگ کو روک سکتا تھا: ’واشنگٹن پہلے سے ہی نائن الیون کے انتقام کا منصوبہ رکھتا تھا‘
سنہ 2015 میں اپنی ریٹائرمنٹ تک ہوزے موریسیو بستانی برطانیہ اور فرانس میں برازیل کے سفیر رہے
عراق جنگ کے 20 برس بعد بھی برازیل کے سابق سفارتکار ہوزے موریسیو بستانی ابھی تک اس پچھتاوے کا شکار ہیں کہ وہ اس جنگ کو روکنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے تھے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’20 برس کے دوران اس بارے میں میرے جذبات تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ ایک فضول جنگ تھی، جس کی وجہ سے دونوں اطراف میں بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے اور اس تنازعے نے صرف اس چیز کو ثابت کیا کہ آپ طاقت کے استعمال سے بین الاقوامی سطح پر رائے عامہ پر کیسے اثر انداز ہو سکتے ہیں۔‘
برازیل کے سابق سفارتکار، جن کی عمر اب 77 برس ہے، عراق جنگ کی بہت سی وجوہات میں سے، سب سے متنازع واقعے کے مرکزی کردار رہے ہیں۔
اپریل 2002 میں انھیں واشنگٹن نے شدید لابنگ کے بعد کیمائی ہتھیاروں سے تدارک کی تنظیم (OPCW) کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔
بغداد سے وعدے
بستانی اس وقت عراق کو اس بارے میں رضا مند کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ او پی سی ڈبلیو کا حصہ بنے، جس کے ساتھ معاہدے کے بعد صدام حسین کی حکومت، معائنہ کاروں کو اپنے کیمیائی ہتھیاروں تک مکمل رسائی کی اجازت دینے کی پابند ہوتی۔
امریکہ کی طرف سے مشرق وسطیٰ کے اس ملک پر حملہ کرنے کا جو جواز پیش کیا گیا تھا، وہ یہ دعویٰ تھا کہ عراق کے پاس کیمیائی ہتھیاروں کا ’ذخیرہ‘ تھا۔
بستانی یاد کرتے ہیں کہ ’سنہ 2001 کے آخری اوائل میں مجھے عراقی حکومت کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس میں انھوں نے کہا کہ وہ ملک میں ’کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن اور معائنے‘ کی شرط کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘
’میرے لیے یہ بہت خوشی کی بات تھی لیکن امریکیوں کو یہ خبر بالکل پسند نہیں آئی۔‘
بغداد کے ساتھ یہ رابطہ نائن الیون کے بعد جارج بش کے جنوری 2002 کے یادگار سٹیٹ آف یونین خطاب سے پہلے ہوا تھا۔ اس خطاب میں بش نے عراق، ایران اور جنوبی کوریا کو ’بُرائی کے محور‘ قرار دیا تھا اور صدام حسین کی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ کیمیائی اور جوہری ہتھیار بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
بستانی جو سنہ 1997 سے او پی سی ڈبلیو کی سربراہی کر رہے تھے اور سنہ 2000 میں انھیں متفقہ طور پر دوبارہ منتخب کیا گیا تھا، نے بی بی سی کو بتایا کہ تنظیم کے پاس اس بارے میں ’کافی انٹیلیجنس‘ شواہد موجود تھے کہ عراق کے کیمیائی ہتھیار 1990-1991 کی خلیج جنگ کے بعد تباہ کر دیے گئے تھے جبکہ اس تنازع کے بعد ملک پر عائد پابندیوں کی وجہ سے اس کے پاس ان ہتھیاروں کی بحالی کے لیے اب ’ایسی کوئی صلاحیت‘ موجود نہ تھی۔
’میرا خیال ہے کہ واشنگٹن پہلے سے ہی نائن الیون کے انتقام کا منصوبہ رکھتا تھا کیونکہ انھیں یقین تھا کہ صدام حسین کا ان حملوں سے کوئی تعلق تھا۔ جیسے ہی میں نے انھیں عراق کے بارے میں بتایا، مجھے ادارے سے نکالنے کی کوشیشس شروع ہو گئیں۔‘
یہ بھی پڑھیے:
واشنگٹن کا یوٹرن
امریکی حکومت نے بستانی کے ’مینجمینٹ سٹائل‘ کے بارے میں شکایت کی جبکہ بعد میں ان پر ’مالی بد انتظامی، تعصب اور بدنیتی پر مبنی اقدامات‘ کا الزام لگایا گیا۔
یہ سب اس تعریف سے بہت مختلف تھا جو بستانی کو سنہ 2001 میں سیکریٹری خارجہ کولن پاؤل سے ملی تھی، جنھوں نے برازیلی سفارتکار کے کام کو ’انتہائی متاثر کن‘ قرار دیا تھا۔
او پی سی ڈبلیو کے بجٹ میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے والے امریکہ نے پھر اس تنظیم کی مالی مدد روکنے کی دھمکی بھی دی۔
امریکہ کی درخواست پر 21 اپریل کو ایک خصوصی اجلاس میں بستانی کی تقدیر کا فیصلہ کیا گیا: 48 ممالک نے ان کو ہٹانے، سات نے انھیں ان کے عہدے پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جبکہ 43 ممالک اس اجلاس سے غیر حاضر رہے۔
23 اپریل کو ایک امریکی عہدیدار نے واشنگٹن پوسٹ اخبار کو بتایا کہ ’بہت سے ممالک کو بستانی کے طریقہ مینجمینٹ پر اعتراض تھا اور ہم سب نے انھیں اس چیز پر رضامند کرنے کا فیصلہ کیا کہ وہ خاموشی سے ادارے سے چلے جائیں لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔‘
بے مزہ جیت
اپنے پانچ برس کے دوران بستانی نے او پی سی ڈبلیو کے رکن ممالک کی تعداد کو 87 سے بڑھا کر 145 کیا جبکہ دنیا میں موجود کیمیائی ہتھیاروں کی تنصیبات کے ایک بڑے حصے کو تباہ کیا۔
سنہ 2015 میں اپنی ریٹائرمنٹ تک ہوزے موریسیو بستانی برطانیہ اور فرانس میں برازیل کے سفیر رہے۔
بستانی مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’برطانیہ ان ممالک سے ایک تھا، جس نے او پی سی ڈبلیو سے مجھے ہٹانے کے لیے ووٹ دیا تھا لیکن میرا برطانیہ میں گزرا وقت کوئی اتنا برا نہیں تھا۔‘
بستانی اپنی اس برطرفی کے خلاف انٹرنیشل لیبر آرگنائزیشن میں مقدمہ بھی جیت گئے لیکن انھوں نے معاوضے کی صورت میں ملنے والی تمام رقم او پی سی ڈبلیو کے بجٹ کے لیے دے دی۔
لیکن اس جیت کے باوجود بستانی مطمئن نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس سے مجھے کوئی سکون نہیں ملا۔ دو دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی یہ چیز مجھے پریشان کرتی ہے کہ ایک ایسی غیر ضروری جنگ کو شروع کیا گیا، جس سے پوری دنیا اثر انداز ہوئی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میں ابھی بھی چاہتا ہوں کہ میرا اس جنگ کے بارے میں مؤقف درست تسلیم کیا جائے اور میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی ایسا ہونا ممکن ہے۔‘
Comments are closed.